"JDC" (space) message & send to 7575

روس، پاکستان اور انڈیا

عالمی سیاست میں دوام صرف تغیر کو ہے۔ ملکوں کی دوستیاں اور دشمنیاں قومی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔ مفادات اور حالات بدلتے رہتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا روس اور انڈیا میں گاڑھی چھنتی تھی۔ 1970ء والا دوستی اور تعاون کا معاہدہ آپ کو یاد ہو گا، کہنے کو انڈیا اور روس کے درمیان یہ معاہدہ آج بھی موجود ہے، لیکن اب اس میں وہ پہلے والی جان نہیں رہی، اس لئے کہ انڈیا امریکہ سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ برصغیر شدید تناؤ کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنا اب انڈیا کی علانیہ پالیسی ہے۔ روسی عسکری دستہ پاکستانی مشقوں کے لئے آنے کے لئے تیار تھا، انڈیا نے روس کو کہا کہ آپ فی الحال پاکستان اپنا دستہ نہ بھیجیں لیکن روس نے ایک نہیں سُنی۔ مشقیں اپنے طے شدہ وقت پر شروع ہوئیں اور آج کل شمالی علاقے کے پہاڑوں میں جاری ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے انڈیا متنازع تصور کرتا ہے یعنی پاکستان کا قانونی طور پر حصہ تسلیم نہیں کرتا ع 
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
پاک روس تعلقات میں کشیدگی لمبا عرصہ غالب رہی۔ سرد جنگ میں پاکستان، امریکہ اور مغربی ممالک کا حلیف رہا۔ امریکہ کا جاسوس طیارہ یوٹو پشاور کے قریب بڈا بیر کے بیس سے اُڑا اور اسے سوویت یونین نے مار گرایا اور ساتھ ہی پشاور کے اردگرد سُرخ نشان کھینچ دیا کہ بڈابیر کا ایئر بیس امریکی فضائیہ کے تصرف میں ہوتا تھا۔ سوویت یونین نے متعدد بار کشمیر کے بارے میں پاکستانی قرار دادوں کو اقوام متحدہ میں ویٹو کیا۔ انڈیا کو خوب اسلحہ فراہم کیا۔ معاہدہ تاشقند کے بعد دو تین برس کے لئے پاک روس تعلقات میں کچھ بہتری آئی۔ پاکستان نے روسی اسلحہ بھی خریدا مگر ایسٹ پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو سوویت یونین کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بھی بگاڑ آیا اس لئے کہ ماسکو پورے قدکاٹھ کے ساتھ انڈیا کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو سوویت یونین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ لیکن سرد جنگ کا زمانہ تھا یا حالات کا جبر، ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اُس زمانے میں بیجنگ اور ماسکو کے درمیان بھی شدید تناؤ تھا اور بھٹو چین کی طرف زیادہ مائل تھے۔ اُسی زمانے میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ سوویت یونین افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ چاہتا ہے اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ 1979ء میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اس لئے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
دسمبر 1999ء میں مجھے تاجکستان میں پاکستان کا پہلا سفیر مقرر کیا گیا۔ دوشنبے جانے سے پہلے میں نے اپنے جائننگ ٹائم کے چھ روز ماسکو میں گزارے۔ فارن سیکرٹری نجم الدین شیخ صاحب سے الوداعی ملاقات کی تو کہنے لگے کہ ماسکو سے گزر رہے ہو تو وہاں فارن آفس میں جنوبی ایشیا ڈیسک سے متعلق سفارت کاروں سے مل کر جانا۔ اُن کی اس ہدایت کا پس منظر یہ تھا کہ تاجکستان میں سول وار ہو رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ دونوں متحارب دھڑوں کے درمیان امن مذاکرات بھی ہو رہے تھے۔ دسمبر 1994ء میں مذاکرات کا ایک راؤنڈ اسلام آباد میں ہوا جس میں تاجک حکومت اور اپوزیشن کے لوگ شریک ہوئے۔ مذاکرات کے متعدد راؤنڈ ہوئے۔ پاکستان اور روس ان مذاکرات میں مبصرکے طور پر شریک رہے۔ فارن سیکرٹری کا خیال تھا کہ ماسکو اور اسلام آباد کو تاجکستان کے حوالے سے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں ماسکو میں فارن آفس گیا اور یہ باور کرانے کی پوری کوشش کی کہ پاکستان تاجکستان میں مکمل امن کا حامی ہے۔
دوشنبے میں حکومت سکیورٹی کے حوالے سے روس کی دست نگر تھی، ایک روسی ڈویژن دوشنبے میں پوسٹڈ تھا۔ اسی ڈویژن کا ایک حصہ جسے بارڈر گائیڈ کہا جاتا تھا تاجک افغان بارڈر پر متعین تھا۔ یاد رہے کہ آزادی کے بعد بھی روس سنٹرل ایشیا کے ممالک کو اپنا پچھواڑا سمجھتا تھا۔ عام خیال تھا کہ تاجکستان کی اپوزیشن کے جنگجو افغانستان سے اسلحہ حاصل کرتے ہیں۔ روسی بارڈر گارڈز کا دوسرا مقصد ڈرگ سمگلنگ کو روکنا تھاکہ منشیات کا منبع بھی افغانستان ہی تھا۔ دوشنبے میں عام تاثر یہ تھا کہ پاکستان تاجک حکومت کے مخالف دھڑوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ میں نے اس تاثر کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ماسکو اور دوشنبے کی حکومتوںکے تحفظات کسی حد تک قائم رہے۔ 
دسمبر 2014ء میں جب روس کے وزیر دفاع پاکستان آئے تو ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ کریملن نے پاکستان پر ہتھیاروں کی فروخت پر لگی پابندی ختم کر دی اور 2015ء میں پاکستان نے روس سے چار عسکری ہیلی کوپٹر خریدے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ماسکو میں پاکستان کے حوالے سے برف پگھل رہی ہے۔ خطے کی صورت حال بدل رہی تھی۔ بیشتر امریکی فوجی افغانستان سے جا چکے تھے۔ بیجنگ اور ماسکو کے تعلقات میں بہتری آچکی تھی۔ گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک کی اقتصادی راہداری پاکستان کے اہم محل وقوع کی گواہی دے رہے تھے۔ امریکی مفادات مشرق وسطی سے نکل کر مشرق بعید کو منتقل ہو رہے تھے۔ چائنا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے مودی سرکار امریکہ کی سپورٹ کے لئے تیار تھی۔ انڈیا امریکہ لوجسٹک معاہدے نے انڈین غیر جانبداری کے لبادے کی اصل حقیقت آشکار کر دی۔
قدرت کا قانون ہے کہ خلا زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ اسی طرح طاقت کا توازن بگڑنے لگے تو اس کی اصلاح کے لئے عناصر حرکت میں آجاتے ہیں۔ توازن کے دونوں پلڑوں کے باٹ بدلتے رہتے ہیں۔ انڈیا نے اپنے باٹ امریکہ کے پلڑے میں ڈالے تو روس اور پاکستان کا ردِعمل قابل فہم تھا۔ پچھلے تین چار سال میں پاک روس تعلقات میں واضح پیش رفت ہوئی ہے۔ اب روس کراچی سے لاہور تک پائپ لائن بنائے گا۔
دسمبر میں پاکستان میں شادیوں کا موسم ہوتا ہے۔ یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں کرسمس کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ مجھے کئی دنوں سے امریکہ اور کینیڈا میں مقیم دوست اور رشتہ دار پوچھ رہے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں جنگ تو نہیں ہو رہی۔ میرا جواب صاف صاف نفی میں ہوتا ہے۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں۔ انڈین کولڈ سٹارٹ خطرے کے سدباب کے لئے پاکستان نے چھوٹے سائزکے ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں۔ جنگ کے بادل اڑی کے واقعے کے بعد یکدم آئے اور دو تین دن میں چھٹنا شروع ہو گئے۔ اب نریندر مودی غربت دور کرنے کی جنگ لڑنے کی بات کر رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ جنگ کے بادل رہے تو انڈیا سے فارن سرمایہ کار بھاگ جائیں گے، ٹورسٹ بھی نہیں آئیں گے۔ یاد رہے کہ ساڑھے چار کروڑ انڈین ٹورازم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پچھلے عشرے میں پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے۔ ضرب عضب کی کامیابی نے ہماری فوج کا قد کاٹھ مزید بڑھایا ہے۔ پچھلے سال آسٹریلیا کے ایک میگزین Business Insider نے پاکستان کے کمانڈوز کو دنیا میں نمبرون قرار دیا۔ حال ہی میں یہ دستے امریکہ سے فوجی مشقیں کرکے آئے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں آپریشن کرنے کی ہماری فوج کی صلاحیت کو دنیا تسلیم کر رہی ہے۔ انڈیا کا یہ دعویٰ کہ پاکستان دہشت گردی ایکسپورٹ کر رہا ہے غلط ہے۔ پھر بھی ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ انڈیا کے جھوٹ کو کئی ممالک سچ کیوں مان رہے ہیں۔ پروین شاکر کا شعر یاد آرہا ہے ؎
میں سچ کہوں گی اور پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
انڈیا پاکستان کو نہ تنہا کر سکا ہے اور نہ کر سکے گا۔ انڈونیشیا، پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ ایران سی پیک کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ ترکی اور چین ہمارے بااعتماد دوست ہیں۔ روس ہمارے قریب آرہا ہے لیکن ہمارے فارن آفس کو آئندہ کئی سال بہت محنت کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا کہ آج کی دنیا میں اصل جنگ اقتصادی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تعلیم، صحت اور ریسرچ کے شعبوں میں انڈیا ہم سے آگے نکل رہا ہے۔ اگر باوقار طریقے سے دنیا میں رہنا ہے تو طویل مدت کی سٹریٹیجی بنائیں، ہر قسم کے جیش اور لشکر پاک سرزمین سے ختم کریں کہ ہمارے لئے پاک فوج ہی کافی ہے۔ دنیا میں دوست بڑھائیں اور دشمن کم کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں