"JDC" (space) message & send to 7575

جمہوری آمریت

پچھلے دنوں مسلم لیگ کے نام پر سیاست کرنے والی دو سیاسی جماعتوں کے اندرونی الیکشن ہوئے اور یہ کارروائی بھی مجبوراً کرنا پڑی کیونکہ جنرل الیکشن لڑنے کے لئے یہ شرط ہے۔ میاں نواز شریف نون لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور چوہدری شجاعت حسین ق لیگ کے۔ یہ محض کاغذی کارروائی تھی ورنہ دراصل ہماری تمام سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کی غلام ہیں یا چند شخصیات کی۔ تحریک انصاف سے عمران خان کو نکال دیں تو باقی کیا بچتا ہے۔ اے این پی سے اسفند یار کو فارغ کر دیں تو بس ایک کمزور سا گروہ رہ جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کا مولانا فضل الرحمن کے بغیر تصور بھی ممکن نہیں۔ سچ پوچھیں تو ہماری سیاسی جماعتیں ان شخصیات کی باندیاں ہیں۔ آقا اور غلام کے اس رشتے کو سوچ سمجھ کر مضبوط کیا گیا ہے۔1997ء کا فلور کراسنگ کا قانون اور چند سال پہلے پاس کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم اس بات کے واضح ثبوت ہیں۔
1962ء کی بات ہے۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ ایوب خان کا دستور نیا نیا آیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی اُن دنوں اولڈ کیمپس تک محدود تھی۔ اولڈ کیمپس اور گورنمنٹ کالج آس پاس واقع ہیں۔ ہمیں پتا چلا کہ ایوب خان کی کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو سینیٹ ہال میں دستور کے بارے میں خطاب کریں گے۔ عجیب زمانہ تھا، اچھے وقت تھے، وزراء کے گرد کوئی سکیورٹی کا حصار نہیں ہوتا تھا۔ ہم بن بُلائے سینیٹ ہال چلے گئے۔ بھٹو صاحب ہینڈسم جوان تھے اور مجھے یاد ہے کہ اُس روز فیشن کے مطابق تنگ سے سوٹ میں پھنسے ہوئے لگتے تھے اور بڑی شدومد سے اچھی انگریزی زبان میں نئے آئین کا دفاع کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک سٹوڈنٹ لیڈر اُٹھا اور کہنے لگا کہ وہ آئین جسے ایک آمر کی ضرورت کے مطابق منظور قادر صاحب نے لکھا ہے وہ عوامی خواہشات کا علمبردار کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سٹوڈنٹ لیڈر بارک اللہ خان تھا اور تعلق اُس کا اسلامی جمعیت طلباء سے تھا۔ بھٹو صاحب طیش میں آ گئے اور بارک اللہ خان کو بیٹھنے کے لئے کہا لیکن سٹوڈنٹ لیڈر نے نئے آئین کی خامیاںگنوا دیں۔
اُس زمانے کی سٹوڈنٹ یونین مستقبل کی قیادت کی نرسریاں ہوتی تھیں۔ معراج محمد خان، احسن اقبال، پرویز رشید اور لیاقت بلوچ سب کی تربیت یا جمعیت میں ہوئی یا لیفٹ کی سیاست کی نرسری نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن یعنی این ایس ایف میں۔ ضیاء الحق کے زمانے میں سٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگی جو آج بھی قائم ہے۔ بعد میں کتنی جمہوری حکومتیں آئیں مگر کسی نے یہ پابندی نہیں اُٹھائی، اس لئے کہ نہ میاںنواز شریف کو سوٹ کرتا تھا کہ سٹوڈنٹ لیڈر اُن کے سامنے کھڑے ہو کر دبنگ طریقے سے بات کریں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی قیادت کو۔ ان دنوں نام نہاد جمہوری پارٹیوں کی لیڈر شپ کے رویے آمرانہ ہیں۔ ملک میں صرف ایک پارٹی ہے جہاں ہر پانچ سال بعد امیر کا انتخاب شفاف طریقے سے ہوتا ہے اور وہ ہے جماعت اسلامی۔ لیکن جماعت بھی سو فیصد جمہوری پارٹی نہیں، اس لئے کہ اس کی بنیادی ممبر شپ کے لئے کڑی شرائط ہیں۔
1997ء میں فلور کراسنگ روکنے کے لئے اسمبلی میں بل پیش ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کو ختم کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، کوئی ایم این اے پارٹی لائن کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا تھا اور مستزاد یہ کہ ووٹنگ سے اجتناب بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حکم عدولی کی صورت میں پارٹی کا پارلیمانی لیڈر سپیکر کے پاس ایسے ممبر کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا تھا اور سپیکر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کے پاس بھیجنے کا پابند تھا۔ 2011ء میں اتفاق رائے سے پاس ہونے والی اٹھارہویں ترمیم میں ممبران کا ریموٹ کنٹرول پارلیمانی لیڈر کی بجائے پارٹی لیڈر کے پاس چلا گیا ہے، گویا تمام مسلم لیگی ممبر میاں نواز شریف کی بات ماننے کے پابند ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ آصف علی زرداری کی حکم عدولی نہیں کر سکتے۔
1998ء میں قانون سازی کے حوالے سے ایک دلچسپ تجربہ ہوا۔ میاں نواز شریف ہیوی مینڈیٹ لے کر آئے تھے، انہیں خیال آیا کہ اپنے اختیارات کو بھی ہیوی بنانا چاہیے۔ چنانچہ پندرہویں ترمیم تجویز کی گئی۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ مسلم لیگ ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔ اس بل میں کرپشن کے خلاف اقدامات تھے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ادارہ قائم کرنے کی تجویز تھی، لیکن اسلام کے نفاذ کے پیچھے ایک اور سوچ بھی تھی۔ بل میں لکھا گیا تھا کہ کوئی سرکاری اہل کار اسے لاگو کرنے سے انکار کرے گا تو تا دیبی کارروائی ہو سکے گی۔ حکومت کا نفاذ شریعت کے لئے کوئی اقدام عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وہ بل ہے جس کے ذریعے نواز شریف پر الزام لگتا ہے کہ وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے یا دوسرے لفظوںمیں مطلق العنان حکمران۔ حکمران پارٹی کے چند ممبران نے دبے الفاظ میں مخالفت شروع کر دی۔ معدودے چند کھل کر سامنے آ گئے کہ ہم فرد واحد کی حکومت کے خلاف ہیں۔ ایک پارٹی میٹنگ میں وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ بل کے مخالف ہیں وہ پارٹی سے مستعفی ہو جائیں؛ چنانچہ خورشید محمود قصوری نے وہیں کاغذ مانگا اور استعفیٰ لکھ کر دے دیا اور میاں صاحب اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔ یہ بل نیشنل اسمبلی میں تو پاس ہو گیا لیکن سینیٹ تک جاتے جاتے خاصا متنازع بن گیا اور اپر ہاؤس میں پاس نہ ہو سکا۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لوکل گورنمنٹ یعنی بلدیاتی اداروں کے بارے میں رویے سے صاف ظاہر ہے کہ یہ گراس روٹ جمہوریت کے خلاف ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں چاہتی ہیں کہ اپنے اپنے ممبران پارلیمنٹ کو جیب میں رکھا جائے، انہیں ترقیاتی فنڈ دے کر خوش کیا جائے۔ بلدیاتی ادارے حکومت کے کس کام کے۔ حکومت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی جان ہوتے ہیں۔
احتساب کے موثر نظام کے بغیر جمہوریت مکمل نہیں ہو سکتی۔ برازیل کی صدر ڈلما روزیف Dilma Rousseff کے خلاف وہاں کی پارلیمنٹ نے حال ہی مواخذے کی قرارداد پاس کی ہے۔ الزام یہ تھا کہ صدر نے 2014ء کے الیکشن میں بجٹ کا استعمال ایسے کیا جس سے ان کی پارٹی کو فائدہ ہوا۔ ہمارے ہاں یہ کام یوسف رضا گیلانی نے بھی کیا، راجہ پرویز اشرف نے بھی اور اب شریف برادران بھی کر رہے ہیں، لیکن کسی نے انگلی نہیں اُٹھائی اور ہم کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہے۔ ہمارا نظام دراصل لنگڑی لولی جمہوریت ہے اور ہم اسے جمہوری آمریت کہہ سکتے ہیں۔ جمہوری آمریت ہمارے حکمرانوں کو سوٹ کرتی ہے۔ رہے عوام تو انہیں کون پوچھتا ہے، ہر پانچ سال بعد ایک کھانا کھلا کر ان کا ووٹ لے لیا جاتا ہے اور آخری بات یہ کہ نواز شریف کی کابینہ میں جمہوری مزاج رکھنے والا صاف شفاف ایک ہی شخص تھا، جس کا نام پرویز رشید تھا اور وہ قربانی کا بکرا بن چکا ہے۔ یہ ہے جمہوری آمریت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں