"JDC" (space) message & send to 7575

ترجمہ: اہمیت اور پاکستان

سپین میں ایک اندازے کے مطابق روزانہ دو ہزار کتابیں مختلف زبانوں سے ترجمہ کی جاتی ہیں۔ دنیا کی ہر اہم کتاب ایران میں چار ہفتوں میں ترجمہ ہو کر فارسی زبان میں بُک سٹالوں پر آ جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال جاپان میں ہے۔ ان تینوں ممالک میں مترجم کا پیشہ محترم ہے کیونکہ مترجم دنیا بھر سے نئے نئے افکار اور ایجادات کو عوام تک پہنچاتا ہے۔
مترجم کا پیشہ ہزاروں سال سے موجود ہے اور یہ ایک بہت ہی مفید کام ہے کیونکہ اس عمل سے نہ صرف دینی افکار دنیا میں پھیلے بلکہ سائنسی علوم کی ترویج میں بھی ترجمے کا کلیدی رول رہا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام کو اگر ڈاکٹر عبدالوہاب عزام اور صاوی علی شعلان جیسے اعلی پائے کے مترجم نہ ملتے تو شاید بہت سارے عرب آج بھی اُن کے پیغام سے نابلد ہوتے۔ ڈاکٹر عزام پاکستان میں مصر کے سفیر تھے۔ صاوی علی شعلان بھی مصری تھے، اُن کا منظوم ترجمہ ''حدیث الروح‘‘ کے عنوان سے آیا۔ یہ شکوہ اور جواب شکوہ کا ترجمہ ہے اور اسے جب کو کب الشرق ام کلثوم نے گایا تو پوری دنیا میں علامہ اقبال کا نام اور کلام مشہور ہوئے۔ کتب سماویہ میں سے زبور کا سب سے پہلا ترجمہ سن دو سو قبل مسیح میں عبری زبان سے یونانی زبان میں ہوا۔ یہ ترجمہ قسطنطنیہ یعنی موجودہ استنبول میں ہوا تھا۔ انجیل کا پہلا ترجمہ سن ستر میلادی میں مصر کے شہر سکندریہ میں ہوا اور یہ بھی یونانی زبان میں تھا جو سکندر اعظم کی فتوحات کے بعد خاصی اہمیت اختیار کر چکی تھی۔ جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے، سورۃ فاتحہ کا سب سے پہلا ترجمہ جلیل القدر صحابی حضرت سلمان فارسیؓ نے کیا۔ تین صدیاں گزر گئیں بخارا میں سامانی خاندان کے حاکم منصور نے خراسان سے عالم بُلائے اور حکم دیا کہ پورے قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ برصغیر میں قرآن کریم کا سب سے پہلا ترجمہ اموی عہد میں ہوا اور یہ شرف سندھی زبان کو حاصل ہوا۔
اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے پچھلے دنوں مجھے ترجمہ اور سفارت کاری کے موضوع پر بات کرنے کے لئے بُلایا۔ اس دعوت کے محرک معروف عربی دان اور شعبۂ ترجمہ کے ہیڈ ڈاکٹر انعام الحق غازی تھے جو اس ڈیپارٹمنٹ کو اب ایم اے کے لیول پر لے آئے ہیں اور ٹرانسلیشن کے کام کو جدید سائنسی خطوط پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس دعوت کے نتیجے میں مجھے موقع ملا کہ ترجمہ کے موضوع پر ریسرچ کروں تاکہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء سے بات چیت مفید رہے۔ کمپیوٹر اور دیگر ذرائع سے بڑی مفید اور قیمتی معلومات ملیں اور میں اب یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ معلومات آپ کے ساتھ شیئر کروں کیونکہ ترجمہ نے نہ صرف ادیان کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ آج کی سائنسی ترقی بھی شاید ترجمہ کے بغیر ممکن نہ ہوتی۔
عباسی عہد میں بغداد میں بیت الحکمہ وجود میں آیا۔ یہ اُس زمانے کی دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ خلیفہ مامون الرشیدؒ نے علما کو اُن تمام ملکوں میں بھیجا جو علم و فضل کے اعتبار سے مشہور تھے۔ علم فلسفہ کو سمجھنے کے لیے مسلمان عالم یونان گئے۔ علم طب کا اکتساب بھی یونان سے کیا۔ انڈیا سے علم ریاضی سیکھا۔ انجینئرنگ کو آج بھی عربی میں ہندسہ کہتے ہیں۔ بلاد فارس سے بہت کچھ سیکھا اور بغداد واپس آکر ان تمام علوم کو عربی زبان میں تحریر کیا۔ بیت الحکمہ میں اعلیٰ پائے کے مترجم موجود تھے۔ بہت ساری کتابیں ترجمہ کی گئیں۔
جب مسلمانوں نے سپین فتح کیا تو علم کے یہ خزانے یورپ منتقل ہوئے۔ مسلمانوں نے یہ علوم لوکل علما کے ساتھ شیئر کرنے میں بالکل بخل سے کام نہیں لیا۔ ابنِ سینا کی شہرہ آفاق کتاب القانون فی الطب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور یہ کتاب کئی صدیوں تک یورپ کے میڈیکل کالجوں میں ٹیکسٹ بُک کے طور پر پڑھائی گئی۔ جابر بن حیان کی معروف کتاب الکیمیا کا لاطنیی زبان میں جس شخص نے ترجمہ کیا اُس کا نام رابرٹ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ارسطو اور افلاطون کے افکار یورپ میں عربی زبان کے ذریعے پہنچے۔ اس سارے تاریخی بلکہ تاریخ ساز عمل میں ترجمہ نے کلیدی رول پلے کیا۔ یورپ میں تحریک احیائِ علوم نے جنم لیا اور ایجادات کا یہ سفر آج تک جاری ہے۔
میرے لیکچر کا دوسرا حصہ پاکستان میں ترجمہ اور اس کے مسائل کے بارے میں تھا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ترجمہ کو بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔ دو تین جامعات میں ترجمے کے ڈیپارٹمنٹ ماضی قریب وجود میں آئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے سمعی اور بصری (Audio Visual) وسائل شاذ و نادر ہی استعمال کئے جاتے ہیں۔ عربی زبان کی تعلیم گردانوں کے رٹے لگا کر شروع ہوتی ہے۔ ترجمہ اور مترجمین کے بارے میں کوئی جامع قوانین نہیں بنائے گئے۔ مثلاً میڈیسن یا انجینئرنگ کے شعبوں میں اختصاص کے مختلف لیول ہیں۔ مثلاً میڈیکل شعبے میں کنسلٹنٹ بننا اعلیٰ ترین لیول ہے لیکن پاکستان میں ہمیں یہ معلوم نہیں کہ کونسا مترجم کس لیول کا ہے۔ تمام کام علی اللٹپ انداز میں ہو رہا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو روسی، فرانسیسی یا عربی کتب کا اعلیٰ پائے کی اُردو میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ دوسری زبانوں سے کتنی کتابیں اُردو میں ترجمہ ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں بہت ہی کم اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم علم دوست لوگ نہیں۔ صبح انگریزی اُردو کے لوکل اخبار دیکھ لیتے ہیں جو پاناما لیکس کرپشن، ایان علی اور دہشت گردی کی کہانیوں کے گرد گھومتے ہیں اورشام کو ہیجان انگیز دنگل نما ٹاک شو۔ دنیا میں کیا نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، ہماری بلا سے۔ اس افسوسناک صورت حال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ترجمہ کا سیکٹر کمزور ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سیکٹر میں جان کیسے ڈالی جائے۔ سب سے پہلا قدم تو یہ ہونا چاہیے کہ اہم زبانیں یعنی چینی، روسی، فرنچ، عربی اور اسپانوی زبانیں پڑھائی جائیں۔ زبانوں کی تدریس کے لئے جدید طریقے اپنائے جائیں۔ ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کے عام ہونے سے بیرونی زبانوں کا سیکھنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔
ہماری تمام جامعات میں اُردو زبان اور ادب کے شعبے قائم ہیں لیکن ان شعبوں میں لسانیات کا مضمون غائب ہے یعنی ہم اُردو کی تعلیم کو جدید سائنسی خطوط پر استوار نہیں کر سکے۔ میری تجویز ہوگی کہ حکومت قومی دن یعنی 23 مارچ کو ایوارڈ دیتے وقت جید قسم کے مترجمین کو نظر انداز نہ کرے۔ اسی طرح سے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) اور گجرات یونیورسٹی مختلف لیول کے مترجمین کو اعزازی ڈگریاں دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرے۔
جدید ترین عالمی کتابوں کو ہم فوری طور پر اُردو میں منتقل نہ کر کے عوام دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں صرف دس فیصد لوگ انگریزی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ کمپیوٹر اور کتابوں کے ذریعہ جدید ترین معلومات صرف دس فیصد پاکستانیوں تک پہنچ پاتی ہیں۔ ہمارے سیاسی لیڈر جو عوام اور جمہوریت کی محبت کے دعوے کرتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ ترجمہ کے ذریعے عوام کو تازہ ترین معلومات دیں، ان کا مستقبل بہتر بنائیں۔ عوام میں خوب تر کی جستجو پیدا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں