"JDC" (space) message & send to 7575

اکیسویں صدی کے پاکستان کے لیے گرینڈ اسٹریٹیجی

عالمی نظام جو دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہوا تھا، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
اس نظام کی چند بنیادی خصوصیات یہ تھیں کہ اقوام متحدہ اپنے چارٹر اور انٹرنیشنل لا کے مطابق دنیا کے جھگڑے نپٹائے گی۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف مالیاتی مسائل کا حل نکالیں گے، بعد میں قائم کی گئی انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن یعنی ITO ٹیرف کم کر کے بین الاقوامی تجارت کو فروغ دے گی۔ اس بارے نظام میں کلیدی رول امریکہ اور ان چند ملکوں کا تھا جو دوسری جنگ میں فاتح تھے اور اسی وجہ سے یہ نظام دنیا کو مکمل امن نہیں دے سکا۔ عراق میں مداخلت کے وقت امریکہ اور اس کے حلیفوں نے خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کی۔ 1990ء کے آس پاس جو ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ دنیا اب انٹرنیشنل قانون اور اصولوں پر چلے گی وہ بھی ختم ہو گئی ہے، لہٰذا عالمی حالات بے یقینی کا شکار ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر قائم نہیں ہو سکا بلکہ اس کی جگہ ڈس آرڈر نے لے لی ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو کیا اسٹریٹیجی اپنانی چاہیے؟
یہی موضوع سابق سفیر جاوید حسین کی تازہ ترین کتاب کا ہے جس کی رونمائی دو ہفتے پہلے اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک سٹڈیز میں ہوئی۔ جاوید حسین فارن سروس کے ان افسروں میں شمار کئے جاتے تھے جو مختلف بین الاقوامی موضوعات پر اپنی اوریجنل سوچ رکھتے ہیں۔ ہالینڈ، جنوبی کوریا اور ایران میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ، نیو یارک اور چین میں پوسٹنگ کر چکے تھے۔ بطور ایڈیشنل سیکرٹری فارن آفس کے سپوکس مین رہے۔ ایسا شاندار کیریئر گزارنے کے بعد اکثر سفرا آرام سے گھر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن جاوید حسین کا ذہنی سفر آج بھی جاری ہے۔ وہ لاہور کونسل فار ورلڈ افیئرز کے صدر ہیں۔ امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی کے سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ سے ان کا تعلق قائم ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر بے شمار کالم لکھ چکے ہیں۔ تحریر سے ذہانت، لمبا تجربہ اور پاکستان کے ساتھ محبت آشکار ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ بڑی جرأت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ تنقید برائے تنقید اس شخص کا شیوہ ہی نہیں، وہ کھل کر اپنی وزنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور اس کے حق میں بہت سلاست سے دلائل دیتا ہے۔ حکومت وقت کو خوش کرنا اس کا مطمح نظر نہیں اور نہ وہ چاہتا ہے کہ حکومتوں اور لیڈروں کو رگید کر اپنے لیے تالیاں سنے۔ اس کتاب کے بعد جاوید حسین نے پالیسی ریسرچ اور پالیسی ناقدین کی صف میں بلند مقام حاصل کر لیا ہے۔ ایمبیسیڈر جاوید حسین نے نہ صرف کھل کر پاکستان کی ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لیا ہے بلکہ وہ نسخہ بھی تجویز کیا ہے جس پر عمل کر کے پاکستان اقوام عالم کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔
جس روز اسلام آباد میں کتاب کی رونمائی ہو رہی تھی، میں وہاں موجود تھا۔ سٹیج پر پاکستان کے پانچ سابق سفارت کار بیٹھے تھے۔ ان میں سے دو سابق فارن سیکرٹری یعنی ریاض کھوکھر اور ریاض محمد خان تھے اور ایک سابق سیکرٹری جنرل وزارت خارجہ یعنی اکرم ذکی صاحب۔ تینوں بہت اچھا بولے، کتاب کی خوب تعریف کی، البتہ اکرم ذکی صاحب کو گرینڈ اسٹریٹیجی کے ٹائٹل پر لفظی اعتراض تھا کہ گرینڈ اسٹریٹیجی کوئی سپر پاور ہی بنا سکتی ہے۔ لیکن یہ ایک قسم کا جملۂ معترضہ تھا، ذکی صاحب نے بھی کتاب کی کھل کر تعریف کی۔ جاوید حسین نے لکھا ہے کہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ پورے اعتماد کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ انڈیا سے مرعوب ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ فارن سیکرٹری ریاض محمد خان کا کہنا تھا کہ آج تک کوئی ایٹمی طاقت دوسری ایٹمی طاقت سے مرعوم نہیں ہوئی، لہٰذا انڈیا پاکستان کو ڈرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ کتاب کا پورا عنوان: Pakistan and a World in disorder-A grand strategy for twenty first century ہے۔ عنوان خاصا ثقیل لگتا ہے، لیکن میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔
مصنف کے نزدیک پاکستان کی متعدد بیماریوں میں سے سب سے نمایاں مرض متعدد بار مارشل لاء لگنا تھا۔ اس عمل سے جمہوریت کمزور ہوئی اور سول ادارے متاثر ہوئے، اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ہم ہر وقت بیرونی دفاع کا سوچنے پر مجبور ہوئے۔ سست اقتصادی ترقی بھی ملک میں انتہا پسندی کا سبب بنی لیکن اس سے بڑھ کر ہماری مہم جوئی والی پالیسی، جس نے کئی قومی تناقضات(Contradictions) کھڑی کر دیں۔ ملک کی بڑی بڑی غلطیوں میں جاوید حسین نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں میں شمولیت، 1965ء کا آپریشن جیرالٹر، 1996ء میں کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا اور 1999ء میں کارگل کی غیر ضروری مہم جوئی تھی۔ ان غلطیوں کے باعث ہماری داخلی سکیورٹی منفی طور پر متاثر ہوئی۔ ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جمہوری حکومتیں امن پسند ہوتی ہیں اور جنگ جوئی سے پرہیز کرتی ہیں، لیکن جارج بش نے اس مفروضے کو بھی غلط ثابت کر دیا اور اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے امریکہ آج روبزوال ہے۔ جاوید حسین کی بطور مصنف خوبی یہ ہے کہ وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوتے، وہ تمام عالمی صورت حال کو ٹھنڈے دماغ سے پرکھتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں کہ چین بطور اقتصادی پاور بہت جلد امریکہ کو کراس کر جائے گا، لیکن فی کس آمدنی امریکہ میں لمبے عرصے تک چین سے زیادہ رہے گی اور اس سے بڑھ کر امریکہ کم از کم 2050ء تک دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت رہے گا۔
نواز شریف حکومت کی انڈیا پالیسی کے جاوید حسین سٹرونگ ناقد ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی لیڈر ہر قیمت پر انڈیا کے ساتھ دوستی کا سوچ کر ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ساتھ ہی مصنف اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خطے میں امن کے ذریعے ہی پاکستان کی اقتصادی ترقی ممکن ہے۔ وہ ایران کو پاکستان کا روٹھا ہوا دوست قرار دیتے ہیں۔ چین اور پاکستان کا تعاون اب ہماری پالیسی کا اساسی محور ہے۔ چین میں ہمارے سفارت خانے میں ایسے اچھے افسر ہونے چاہئیں جو سی پیک کے تناظر میں اقتصادی اور تجارتی تعاون کو فروغ دے سکیں۔
اس کتاب کی بڑی بات یہ ہے کہ مصنف نے ماضی کی غلطیوں کا رونا تو ضرور رویا ہے لیکن آئندہ کے لیے روڈ میپ بھی تجویز کیا ہے۔ ملک کی پالیسیوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ اقتصادی پالیسی، اندرونی سکیورٹی پالیسی، خارجہ پالیسی اور عسکری یعنی دفاعی پالیسی۔ پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ عسکری پالیسی باقی ہر چیز پر غالب رہی۔ مصنف کا استدلال ہے کہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں بنیادی اہمیت اقتصادی ترقی کو ملنی چاہیے، دوسری چیزیں ثانوی ہیں۔ اقتصادی طور پر مضبوط، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ پاکستان ہی اقوام عالم میں احترام حاصل کر سکتا ہے۔ سوویت یونین کی مثال دے کر مصنف ثابت کرتے ہیں کہ بے تحاشا گولہ بارود، میزائل اور ایٹمی ہتھیار قومی سلامتی کے ضامن نہیں۔ سوویت یونین ملٹری اعتبار سے تگڑا ہونے کے باوجود دھڑام سے نیچے گر گیا کیونکہ معیشت کمزور تھی۔ لہٰذا لازمی ہے کہ اقتصادی ترقی کا ہدف تمام دیگر اہداف کا محور ہو۔ اقتصادی طور پر مضبوط پاکستان ہی دفاعی طور پر سٹرونگ ہو گا۔ اچھی فارن پالیسی بنا سکے گا۔ ہمیں مربوط گرینڈ پالیسی کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں