"JDC" (space) message & send to 7575

آج کا امریکہ… چند مشاہدات (1)

میں استنبول سے سیدھا واشنگٹن پہنچا۔ واشنگٹن میں تین ایئرپورٹ ہیں لیکن سب سے بڑا اور جدید ترین ڈالاس Dulles ایئرپورٹ ہے اور انٹرنیشنل پروازیں یہاں آتی ہیں۔ یہ وسیع و عریض ہوائی اڈہ ہے جس کے کئی ٹرمینل ہیں۔ مسافروں کی سہولت کے لئے ایئرپورٹ کے اندر ٹرین بھی چلتی ہے۔ استنبول سے بیک وقت چھ پروازیں امریکہ کے کئی شہروں کے لئے روانہ ہو رہی تھیں۔ سکیورٹی کلیئرنس استنبول ایئرپورٹ پر ہی ہوئی۔ یہاں ہم نے امریکہ جانے کے شوق میں جوتے بھی اتارے۔ لیکن باقی مسافروں کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑا لہٰذا غبار خاطر میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اب امریکہ جانے والے ہر مسافر کی دقیق جامہ تلاشی معمول کا امر ہے۔ یہ لوگ نائن الیون کو ابھی تک نہیں بھولے۔
ڈالاس ایئرپورٹ ڈی سی سے پون گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے لیکن میرا بیٹا عادل حفیظ ایئرپورٹ سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر آشبرن Ashburn ورجینیا میں رہتا ہے۔ عادل مع فیملی ایئرپورٹ پر استقبال کے لئے موجود تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر سفر کی تھکاوٹ غائب ہو گئی۔ بہو لیلیٰ شیخ حفیظ پیدائشی امریکن ہونے کے باوجود پاکستانی روایات سے سو فیصد واقف ہے کہ نجیب الطرفین قصوری ٹھہری۔ ننھی پوتی مرینہ حفیظ راستے میں اپنے سکول کی کہانیاں سناتی رہی کہ نئی نئی درسگاہ جانے لگی ہے۔ یہاں کے سکولوں کا ماحول بچوں کے لئے بیحد دوستانہ ہے اور پورا ایجوکیشن سسٹم بشمول سکول‘ کالج اور یونیورسٹی امریکی معیشت‘ سیاسی زندگی اور سوشل سسٹم کو بڑی توانائی فراہم کرتا ہے۔ کئی سکولوں کی عمارتیں‘ پلے گرائونڈ لیبارٹریاں ایسی شاندار ہیں کہ رشک آتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ امریکہ کے سینکڑوں سکول سہولتوں میں لاہور کے ایچی سن کالج کی طرح ہیں۔ امریکی اپنے دفتر اور گھر کے کام خود کرتے ہیں۔ دفتروں میں نائب قاصد یا چپڑاتی نہیں ہوتے۔ کئی امریکی وزیر کار خود ڈرائیو کر کے آفس آتے ہیں۔
امریکہ میں نووارد کو جو چیز سب سے زیادہ امپریس کرتی ہے وہ یہاں کا صفائی کا شاندار نظام ہے اور اس سے بڑھ کر حیران کن امر یہ ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں خاکروب شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھنا ہر امریکی شہری کا نصب العین ہے۔ کئی شرفا رضاکارانہ طور پر اپنے گلی محلے کی صفائی کرتے ہیں۔ آشبرن ورجینیا کا نیا شہر ہے اور بہت ہی صاف ستھرا۔ میں یہاں روزانہ واک کے لئے باہر جاتا ہوں۔ یہاں کے رہائشی متمول لوگ ہیں۔ گھر خاصے بڑے ہیں۔ سڑکیں کشادہ ہیں۔ درمیان میں جگہ جگہ کھلے پلاٹ ہیں تاکہ گھٹن کا احساس نہ ہو۔ یہاں گورے امریکیوں کی اکثریت ہے۔ دوسرے نمبر پر انڈین ہیں جو آئی ٹی کے شعبہ کے عروج کے زمانے میں تیس چالیس سال پہلے آئے تھے۔ یہاں رہنے والا ہر شخص تقریباً ایک کروڑ روپے سالانہ کماتا ہے۔ اسی وجہ سے آشبرن فی کس آمدنی کے حساب سے امریکہ کے خوشحال شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ امریکیوں کو کتے رکھنے کا شوق ہے۔ شام کو درجنوں لوگ اپنے اپنے کتے کو لے کر باہر نکلتے ہیں۔ جونہی پالتو جانور رُک کر اجابت کرنے لگتا ہے مالک فوراً اپنی جیب سے پلاسٹک کا دستانہ نکالتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اس کا فضلہ اٹھاتا ہے اور نزدیک ترین کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ جب کوئی گند ڈالتا ہی نہیں تو چہ عجب کہ سڑکیں اور گلی کوچے اس قدر صاف ستھرے ہیں۔
اس ملک اور معاشرے کا طرہ امتیاز یہاں کا میرٹ سسٹم ہے۔ یہاں کوئی کسی سے دریافت نہیں کرتا کہ تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو۔ یہاں نہ کوئی خان صاحب ہے نہ چوہدری صاحب اور نہ سردار سائیں۔ یہ معاشرہ تعلیم‘ محنت‘ دیانت اور مہارت کی قدر کرتا ہے یہاں پدرم سلطان بود والی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک کو میرٹ کے پیمانے پر تولا جاتا ہے۔ امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹی ہارورڈ میں امسال گریجوایشن کلاس یعنی بی اے‘ بی ایس سی میں داخل ہونے والوں میں پچاس فیصد سے زائد اُن لوگوں کے بچے ہیں جو ہجرت کر کے گزشتہ تیس چالیس سالوں میں یہاں آئے ہیں اور ان بچوں میں بڑی تعداد چینی یا انڈین اوریجن کی ہے‘ اور جو معاشرہ میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کرتا اُسے ترقی سے نہیں روکا جا سکتا۔ دنیا بھر میں نوبل انعام حاصل کرنے والوں میں سب سے زیادہ امریکی ہیں۔ یہاں ٹیکس ایمانداری سے ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ تصور ہوتا ہے۔ انکم ٹیکس کے علاوہ پراپرٹی ٹیکس‘ میونسپل ٹیکس‘ سوشل سکیورٹی کے لئے اور ہیلتھ انشورنس کی کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔ یہاں لوگ خوب کماتے ہیں اور ایک متمول آدمی کی انکم کا چالیس فیصد ٹیکس میں چلا جاتا ہے‘ لیکن ٹیکس ادا کرنے والے کو پتہ ہے کہ سرکار کا نظام اسی پیسے سے چلتا ہے۔ یہاں جان اور مال بڑی حد تک محفوظ ہیں۔ سڑکیں کشادہ اور اچھی حالت میں ہیں۔ سڑکوں پر کچرا کہیں نظر نہیں آتا سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار شاندار ہے‘ لہٰذا لوگ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ انہیں اپنی فیڈرل اور سٹیٹ (صوبائی) حکومتوں پر اعتماد ہے۔ کائونٹی یعنی لوکل گورنمنٹ کا نظام فعال ہے۔ کائونٹی سکول بھی چلاتی ہے اور صفائی کا انتظام بھی کرتی ہے۔ شہر کی پولیس میئر کے انڈر ہے اور میئر منتخب ہوتا ہے۔ میں نے یہاں لوگوں سے پوچھا کہ میئر پولیس کو اگر اپنے ذاتی ایجنڈا کے لئے استعمال کرنا چاہے تو کیا ہو گا؟ جواب ملا کہ اوّل تو میئر ایسی جسارت نہیں کر سکتا اور اگر کرے گا تو پولیس اس کا غیر قانونی حکم نہیں مانے گی اور ایسی صورت میں پولیس کو عدلیہ کی حمایت حاصل ہو گی۔
میں آج صبح سیر کر کے آیا ہوں۔ آشبرن کا شہر پچھلے آٹھ دس سال میں آباد ہوا ہے۔ اب بھی ارد گرد درختوں کے جھنڈ ہیں۔ رات کو ہلکی بارش ہوئی تھی‘ موسم شاندار ہے۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ راستے میں چند ہرن اور خرگوش بھی نظر آئے۔ اکا دکا لوگ کاروں پر کام کے لئے نکل رہے تھے۔ اس شہر میں کئی ریٹائرڈ لوگ بھی رہتے ہیں جو آرام سے اٹھتے ہیں۔ انفرادیت امریکی معاشرے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہاں ہر کوئی دوسرے کی پرائیویسی کا احترام کرتا ہے۔ اپنا گھر اور اپنی فیملی ہر امریکی کے لئے بے حد اہم ہیں۔ یہ گھر اس کا ذاتی قلعہ ہے جہاں وہ کسی کو بغیر اجازت داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ فون کئے بغیر کسی کے گھر جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ صبح سے لے کر شام تک کام کرتے ہیں۔ سارا دن کام کر کے شام کو جب خاوند گھر آتا ہے تب بھی کچن میں بیوی کا ہاتھ ضرور بٹاتا ہے۔ میں امریکن شوہروں کو دیکھ کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ پاکستان میں خاوندوں کے بڑے مزے ہیں۔
پاکستان میں اکثر لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ امریکہ کی زندگی جنت نظیر ہے تو ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ یہاں بہت سے بچے شادی کے بندھن کے باہر پیدا ہو رہے ہیں۔ منشیات کا استعمال ایک مسئلہ بن رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت سے لوگوں نے بطور صدر ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔ خاص طور پر نئے امریکیوں میں ٹرمپ کی مقبولیت بہت ہی کم ہے۔ علاج بہت مہنگا ہے۔ ان تمام مسائل پر اگلے کالم میں بات ہو گی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں