"JDC" (space) message & send to 7575

محتسب اور ایمانداری

آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس ایک زمانے میں بااہل اور مستعد افسران اور سٹاف پر مشتمل تھی۔ اس سروس کا بنیادی کام حکومتی اخراجات میں فنانشل ڈسپلن کو یقینی بنانا تھا۔ ہر سرکاری محکمے کے اخراجات پر نظر رکھنا‘ ان محکموں سے بجٹ کا احترام کرانا‘ فنانشل رولز پر عمل کرانا آڈیٹر جنرل کے ادارے کا کام ہے۔ اس سروس نے پاکستان کو ملک غلام محمد اور چوہدری محمد علی جیسے قابل افسر دیئے۔ گو کہ ملک صاحب خواجہ ناظم الدین وزارت کو برطرف کر کے اور اسمبلی کو محلول کر کے خاصے متنازع ہو گئے لیکن بطور وزیر خزانہ پاکستان کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بنانے کا کریڈٹ اُن سے نہیں لیا جا سکتا۔ چوہدری محمد علی 1945ء میں انڈیا کے پہلے مسلمان فیڈرل سیکرٹری بنے۔ مرکز میں مخلوط حکومت بنی تو کانگریس نے مسلم لیگ کو وزارت خزانہ آفر کی۔ اُن کا خیال تھا کہ مسلمان حساب کتاب میں کمزور ہیں‘ بجٹ کیسے بنائیں گے۔ چوہدری محمد علی نے لیاقت علی خان سے کہا کہ آپ یہ آفر ضرور قبول کریں اور پھر مسلم لیگ نے پورے انڈیا کے لیے ایسا بجٹ بنایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ساری کاوش چوہدری محمد علی کی تھی۔ 1947ء میں آزادی کے بعد موصوف کو پاکستان کا پہلا سیکرٹری جنرل بنایا گیا‘ گویا کہ وہ سینئر ترین بیوروکریٹ تھے‘ نوزائیدہ ملک کو مالی مشکلات سے نکالنے میں ان کا اہم رول تھا۔
کوئی دو سال پہلے پاکستان کے آڈیٹر جنرل کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ آڈیٹر جنرل کا عہدہ دستوری تحفظ رکھتا ہے۔ میڈیا میں کہا گیا کہ بلند اختر رانا کو اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ذاتی پسند کی بنا پر لگایا تھا۔ پھر یہ کہا گیا کہ ان کے پاس دوہری شہریت بھی ہے۔ ویسے مجھے خود اس بات میں تضاد نظر آتا ہے کہ وزیر اعظم اپنے محتسب کا انتخاب خود کرے۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکومت من پسند شخص کو آڈیٹر جنرل لگاتی ہے۔ موجودہ حکومت کیوں پیچھے رہتی۔ اس حکومت نے ایک ریٹائر شدہ افسر کو آڈیٹر جنرل لگا دیا۔ اس دستوری عہدے کی مدت چار سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آڈیٹر جنرل حکمرانوں کے زیرِ احسان ہو گئے اور انہی حکمرانوں کو فنانشل ڈسپلن سکھانا ان کا اولین فریضہ ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں جب کسی وزارت کے حساب کتاب کھلتے ہیں تو تمہیدی جملے آڈیٹر جنرل کا بھیجا ہوا افسر ہی بولتا ہے۔ اسی لئے اس اہم آفس کا مکمل طور پر نیوٹرل ہونا لازمی ہے۔ اس محکمے کے افسروں کو پوری دلیری سے حکومت کی کرپشن اور مالیاتی غلطیوں کا ذکر کرنا چاہیے۔ لیکن حکومت کمال ہوشیاری سے ان کے باس کو زیر بار احسان کر لیتی ہے‘ البتہ وزیر اعظم دستوری تحفظ کی وجہ سے آڈیٹر جنرل کو خود نکال نہیں سکتے‘ حکومت کو کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنا پڑتا ہے اور بلند اختر رانا کے کیس میں ایسا ہی کیا گیا تھا۔
خواہ پبلک سیکٹر ہو یا پرائیویٹ سیکٹر آڈٹ ہر جگہ ہوتا ہے۔ اگر محاسبے کا عمل نہ ہو تو ادارے من مانیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کا فرض ہے کہ اس امر کو یقینی بنائے کہ ٹیکس دہندگان کا ادا کردہ پیسہ حکومت ایمان داری سے خرچ کر رہی ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے آڈیٹر جنرل خود ایسا شخص ہونا چاہیے جس کی غیر جانبداری اور امانت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اے جی آفس لاہور کے دو جونیئر آڈیٹرز نے پنشن کی مد سے کروڑوں روپے اپنے رشتے داروں کے بینک کھاتوں میں منتقل کئے۔ پہلے ان عزیزوں کو جعلی دستاویزات پر ریٹائرڈ گورنمنٹ سرونٹ شو کیا گیا اور پھر انہیں ادائیگیاں شروع ہو گئیں۔
مذکورہ بالا کیس کی محکمانہ تحقیقات شروع ہو گئی ہے۔ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کرامت حسین بخاری کا کہنا ہے کہ فراڈ میں ملوث کسی شخص سے رعایت نہیں برتی جائے گی‘ خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو جبکہ ماضی کے برعکس اس قسم کے کیسز کو چھپانے کی بجائے منظرعام پر لایا جائے گا۔ اس بیان میں بخاری صاحب نے ایک تو اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں بھی ایسے کیس ہوئے اور انہیں چھپایا گیا۔ دوسرے اس عزم صمیم کا اظہار کہ کسی ملازم کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یہ ہم عرصے سے سنتے آئے ہیں مگر کسی ایک بااثر شخصیت کا فون بخاری صاحب کے عزم صمیم کو بدل بھی سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ میری یہ بدظنی غلط ثابت ہو مگر اپنی سرکاری سروس میں مجھے بہت کم محکمانہ انکوائریاں با ثمر ہوتی نظر آئی ہیں۔ کسی نہ کسی لیول پر مُک مُکا ہو جاتا ہے‘ لہٰذا بخاری صاحب یہ کیس نیب یا ایف آئی اے کے حوالے کریں۔ یہ بوجھ خود نہ اٹھائیں۔
بات کچھ زیادہ سنجیدہ ہو چکی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ پورا معاشرہ ہی رو بہ زوال ہے اور اس کے ذمہ دار آپ بھی ہیں اور میں بھی۔ دو ماہ پہلے مجھے ایک امریکی نے پوچھا تھا کہ پاکستان میں کتنے ڈاکٹر فیس وصول کر کے مریض کو رسید دیتے ہیں؟ اور میرا جواب تھا کہ مجھے تو آج تک کسی ڈاکٹر نے اپنے ذاتی کلینک میں رسید نہیں دی‘ البتہ بڑے ہسپتال ضرور رسید دیتے ہیں اور اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو کبھی کسی وکیل نے فیس لے کر رسید دی ہے۔ تازہ خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ستر لاکھ لوگوں کے پاس کاریں اور اچھے خاصے گھر ہیں لیکن 29 ستمبر تک ٹیکس گوشوارے صرف ڈھائی لاکھ نے جمع کرائے تھے۔
بلند اختر رانا پر حکومت نے مس کنڈکٹ کا الزام لگایا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اس کی تصدیق کی۔ کوشش کے باوجود مجھے Misconduct کا اُردو ترجمہ نہیں مل سکا۔ ایک زمانے میں آڈیٹر جنرل کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس سروس سے ریٹائر شدہ کئی افسر میرے ذاتی دوست ہیں۔ اکثر بہت قابل اور ایماندار تھے۔ سرکاری کھاتوں اور رسیدوں کی چھان پھٹک خاصا محنت طلب بلکہ بورنگ کام ہے۔
خیر آڈٹ اینڈ اکائونٹس والے بھی پاکستانی ہیں۔ اگر ہر سروس زوال کا شکار ہوئی ہے تو ان کے ہاں بھی انحطاط ہونا ہی تھا۔ سو فیصد ایماندار لوگ اب ہر ڈیپارٹمنٹ میں محدّب عدسہ استعمال کر کے بھی نہیں ملتے۔ مجھے یاد ہے کہ آڈٹ پارٹیاں سفارت خانوں کا آڈٹ کرنے باقاعدگی سے آتی تھیں۔ ایمبیسی ان کی مناسب آئو بھگت بھی کرتی تھی۔ سفارت خانے کی سٹاف کار اکثر آڈٹ پارٹی کے تصرف میں رہتی تھی اور ستم ظریفی یہ کہ ان میں سے کُچھ آڈٹ رپورٹ میں لکھ جاتے تھے کہ سٹاف کار کا بہت بے دریغ استعمال ہو رہا ہے‘ ذاتی استعمال روکا جائے اور لاگ بُک Log Book میں تمام انٹریاں قاعدے قانون کے مطابق کی جائیں۔
لاہور اے جی آفس کے واقعے کی تحقیقات میں شفافیت اور ایمانداری ضروری ہے اور اگر واقعی گھپلے ہوئے ہیں تو مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ چین میں کرپشن کی سزا موت ہے۔ تبھی وہاں ترقی ہوئی ہے اور ہاں آڈیٹر جنرل کے انتخاب کا صوابدیدی اختیار وزیر اعظم کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس کی طرح سینئر ترین افسر کو آڈیٹر جنرل بن جانا چاہیے۔ ایسا افسر کسی کا زیر بار احسان نہیں ہو گا۔ اپنے فرائض بے خوفی اور ایمانداری سے ادا کرے گا۔ 
دو ماہ پہلے مجھے ایک امریکی نے پوچھا تھا کہ پاکستان میں کتنے ڈاکٹر فیس وصول کر کے مریض کو رسید دیتے ہیں؟ اور میرا جواب تھا کہ مجھے تو آج تک کسی ڈاکٹر نے اپنے ذاتی کلینک میں رسید نہیں دی‘ البتہ بڑے ہسپتال ضرور رسید دیتے ہیں اور اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو کبھی کسی وکیل نے فیس لے کر رسید دی ہے۔ تازہ خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ستر لاکھ لوگوں کے پاس کاریں اور اچھے خاصے گھر ہیں لیکن 29 ستمبر تک ٹیکس گوشوارے صرف ڈھائی لاکھ نے جمع کرائے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں