"JDC" (space) message & send to 7575

25 جولائی اور تبدیلی

پاکستان میں عام انتخابات 1970ء ‘1988ء ‘1990ئ‘1993ئ‘ 1997 ئ‘2002ئ‘2008 ء اور 2013ء میں ہوئے۔ یعنی آٹھ مرتبہ قوم الیکشن کے تجربے سے گزری‘ لیکن تبدیلی کوئی خاص نہیں آئی‘ البتہ کسی حد تک عوامی شعور میں اضافہ ضرور ہوا۔ اس کے برعکس ہم نے تین بڑی جاندار تحریکیں دیکھیں۔ 1968-69ء میں صدر ایوب کے خلاف تحریک چلی۔ اس تحریک کا اصل مقصد ملک میں خالص جمہوریت کا احیاء تھا‘ لیکن نتیجے میں ہمیں یحییٰ خان کا تحفہ ملا۔ 1977ء کی عوامی تحریک بظاہر پیپلز پارٹی کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی لیکن اس کی روح رواں پاکستانی تجارتی اشرافیہ تھی‘ جسے بھٹو کی معاشی پالیسی سے سخت اختلاف تھا۔ تاجر طبقہ کے ساتھ دینی جماعتوں نے تعاون کیا تو یہ نظام مصطفی کی تحریک بن گئی‘ نتیجے میں ہمیں ایک اور مارشل لاء ملا۔ تیسری تحریک ایک عشرہ پہلے وکلاء کی تحریک تھی‘ جس کا مقصد چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی تھا۔ تحریک کامیاب ہوئی‘ عدلیہ آزاد ہو گئی لیکن ساتھ ہی ہمیں وکلاء گردی کا تحفہ بھی ملا۔ بحال شدہ چیف جسٹس جن کے جان نثار شمار سے بھی زیادہ تھے‘ نے بھی قوم کو مایوس کیا۔
میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انتخابات نہیں ہونا چاہئیں‘ یا تحاریک نہیں چلنی چاہئیں۔ انقلاب قوموں کی زندگی اور تبدیلی کے لیے تڑپ کا ثبوت ہوتا ہے‘ مگر کوئی ضروری نہیں کہ ہر انقلاب اپنے اہداف حاصل کر لے۔ انقلاب فرانس اپنے اہداف فوری طور پر حاصل نہ کر سکا لیکن تاریخ انسانی میں ایک درخشاں باب کا اضافہ کر گیا‘ انقلاب کے لیے عوامی اذہان تیار کرنے کے لیے ہمیشہ کسی روسو‘ کسی مارکس‘ کسی علی شریعتی کی ضرورت ہوتی ہے‘ اور انقلاب عملی طور پر لانے کے لیے لینن‘ مائوزے تنگ اور امام خمینی درکار ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو بلاول بھٹو‘ عمران خان یا شہباز شریف میں کوئی ایسا انقلابی لیڈر نظر آتا ہے؟
تحریک پاکستان کے لیے قوم کا ذہن سر سید سے لیکر اقبال تک کئی رہنمائوں نے تیار کیا۔ اس کی عملی صورت حاصل کرنے کے لیے محمد علی جناح جیسا عظیم لیڈر درکار تھا۔ اس بے لوث اور مخلص لیڈر کی کوئی قیمت نہ لگا سکا۔ ذہانت اور قوی ارادہ قائد کے اثاثے تھے۔ بقول سٹینلے والپورٹ جناح نے تاریخ کا دھارا بدلا‘ برصغیر کے جغرافیہ کو چینج کر دیا اور ایک نئی قوم‘ ایک نیا ملک تشکیل دیا۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور لیڈر نے ایسے تین اہداف بیک وقت حاصل کئے ہوں۔ لیکن عظیم لیڈر کو اچھی قوم بھی درکار ہوتی ہے۔ ہمیں پاکستان جیسی شاندار نعمت مل چکی تو یار لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں جعلی متروکہ پراپرٹی کے کلیم داخل کئے۔ 1958 میں مارشل لا کا ڈنڈا آیا تو بہت سے کلیم واپس لے لئے گئے۔
اللہ کرے کہ 25 جولائی کے الیکشن کے نتیجہ میں کوئی بڑا ایماندار لیڈر تخت اسلام آباد پر براجمان ہو‘ لیکن کیا میں اور آپ 25 جولائی کے بعد ایمانداری سے ٹیکس دینا شروع کر دیں گے؟ کیا ہم عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینا بند کر دیں گے؟ کیا ہمارا گوالا بھینس کو ٹیکہ لگانا بند کر دے گا؟ کیا وہ دودھ میں پانی ملانا ترک کر دے گا؟ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم صادق اور امین کو ووٹ نہ دیں۔ ایماندار لیڈر بہر حال اپنے وعدوں کے مطابق صحت اور تعلیم کے اداروں کی اصلاح کا کام شروع کر دیتا ہے۔ سرکاری سکول ‘ کالج اور ہسپتال ہزاروں کی تعداد ہیں اور اکثر کی حالت خاصی پتلی ہے ۔ ان کی اصلاح صرف نیک افکار یا جذباتی نعروں سے نہیں ہوگی‘ اس کام کے لیے بہت سے مالی وسائل بھی درکار ہوں گے‘ اور میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ نئی حکومت کو خزانہ خالی ملے گا۔نئے مالی وسائل جمع کرنے میں وقت لگے گا‘ لہٰذا فوری تبدیلی سوشل سیکٹر میں نہیں آئے گی۔ قوم کو صبر کرنا ہو گا۔ کے پی میں غیر سیاسی پولیس کپتان کی فخریہ پیش کش ہے ‘کیا پنجاب یا سندھ میں یہ عمل آسانی سے ہو سکے گا؟ مجھے اس بارے میں شکوک ہیں۔ یہ جو ڈھیر سارے الیکٹ ایبل تحریک انصاف میں گھس گئے ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر فیوڈل بیک گرائونڈ کے لوگ ہیں‘ انہیں اپنے عوام اور مزارعین کو قابو میں رکھنے کے لیے ایس پی اور تھانیدار کی مدد درکار ہوتی ہے‘ اسی وجہ سے یہ سمجھدار لوگ ہمیشہ جیتنے والی پارٹی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ الیکشن جیت کر یہ فوراً وزارت کی پورے زور و شور سے کوشش کرتے ہیں‘ وزارت مل جائے تو بہت اچھا ‘ نہ بھی ملے تو اپنی مرضی کے پولیس آفیسر یہ اپنے حلقے میں پوسٹ کروالیتے ہیں‘ ایسی صورت میں کپتان کا پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا عزم بہت بڑے چیلنج کا سامنا کرے گا۔ اگر لیڈر ان فیوڈل سیاست دانوں کی بات نہ مانے تو یہ فارورڈ بلاک بنانے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔ اس طبقے کا مفاد تبدیلی میں نہیں بلکہ موجودہ نظام کو قائم رکھنے اور اپنی چوہدراہٹ کو مضبوط تر کرنے میں ہوتا ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تھانیدار کی مدد درکار ہوتی ہے۔
بیرونی محاذ پر ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری بہت بڑا چیلنج ہے۔ انڈیا اور افغانستان دونوں کے ساتھ ماضی قریب میں کچھ برف پگھلی تو ہے لیکن ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ پر امن سرحدیں اندرونی امن اور استحکام میں مدد دیتی ہیں اور اس طرح ترقی کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے اگر مسئلے مسائل گمبھیر ہیں تو ہمارے پاس وسائل اور امکانات بھی بہت ہیں اتنا بڑا رقبہ‘ متعدد دریا‘ محنتی اور ذہین لوگ‘ گوادر اور سی پیک‘ ہر طرح کے موسم اور پھل۔ اللہ تعالیٰ کی پاکستان پر رحمتوں کا شمار مشکل ہے‘ لیکن ہمیں کسی لی کو ان یو ‘کسی مہاتیر محمد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے محل وقوع کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا بھی رہا ہے۔انتہا پسندی کی ایک وجہ افغانستان میں 1979ء سے چلتے مسائل بھی ہیں‘ لیکن ہمیں اپنی جغرافیائی لوکیشن کو اب پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ اس کے لیے نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ سی پیک کی طرز پر آئی پیک بھی بن سکتا ہے‘ جس کے ذریعے انڈیا اور پاکستان کی افغانستان‘ سنٹرل ایشیا اور روس سے زمینی راستے سے تجارت ممکن ہو گی۔
پاکستان آہستہ آہستہ برابری کی طرف جا رہا ہے‘ خواتین ہماری آبادی کا اکیاون فیصد ہیں‘ اب وہ ہر شعبے میں آگے آ رہی ہیں‘ مگر یہ عمل شہروں تک محدود ہے‘ کیا ہماری نئی لیڈر شپ پاکستانی دیہات میں خواتین کو در پیش غیرت کے نام پر قتل اور ونی جیسی خوفناک روایات سے نجات دلا سکے گی؟
پاکستان کی ایک بڑی ضرورت تھانے اور کچہری کی اصلاح ہے ۔کیا ان دونوں مقامات پر عام پاکستانی کو عزت ملے گی؟ کیا اسے انصاف مل سکے گا؟ کیا اس کے بیٹے‘ بیٹی کو میرٹ پر جاب مل سکے گا؟ کیا اسے قبضہ مافیا سے نجات مل جائے گی؟ یہ ہیں وہ چیزیں جو عام پاکستانی نئی لیڈر شپ سے ڈیمانڈ کرے گا۔ میں یہ کالم لکھ رہا تھا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ آ گیا۔ اس فیصلے سے کمزور طبقات کے حوصلے بلند ہونگے۔پہلی دفعہ ہم نے ثابت کر دکھایا ہے کہ طاقت ور کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے‘ ہمارے سویلین ادارے فعال ہو رہے ہیں۔ اب ہمیں فعال ‘ ایماندار اور آزاد بیورو کریسی کی ضرورت ہے جو عوام کی خدمت کے لیے کوشاں ہو‘ مگر کوئی خلاف قانون کام نہ کرے۔ ایسا پاکستان بنانے کے لیے مجھے اور آپ کو 25 جولائی کو سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ہوگا۔ اگر ہم نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں