"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ میں مڈٹرم الیکشن

حال ہی میں امریکہ میں نصف مدتی الیکشن ہوئے ہیں۔ اس انتخاب کو مڈٹرم اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ صدارتی الیکشن کے دو سال بعد ہوتے ہیں اس طرح یہ صدر کی مقبولیت یا غیر مقبولیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس الیکشن میں پارلیمنٹ کا لوئر ہاؤس پورے کا پورا دوبارہ منتخب ہوتا ہے۔ امریکی لوئر ہاؤس‘ جسے House of Representatives کہا جاتا ہے‘ ساڑھے چار سو ممبران پر مشتمل ہے۔ ہر ریاست کو یہ نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ملتی ہے مثلاً ریاست کیلی فورنیا کے ایوانِ زیریں میں اکاون نمائندے ہیں جبکہ الاسکا کا صرف ایک۔ اس کے برعکس ایوان بالا میں ہر ریاست کے دو نمائندے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں سینیٹ کے الیکشن بھی براہ راست ووٹنگ سے ہوتے ہیں ۔اس مڈٹرم الیکشن میں ایک تہائی سینیٹر نئے منتخب ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ ایوانِ بالا میں دو تہائی ممبران پرانے ہی ہوں گے۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ کانگرس ماضی سے کٹ نہ جائے اور دوتہائی پرانے سینیٹر نئے آنے والوں کی راہنمائی کر سکیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ نئے مہاجرین کے سخت خلاف ہیں لیکن وہ شاید اس بات کو بھول گئے ہیں کہ موجودہ امریکہ کی اساس ہی ہجرت پر ہے۔ پہلے گورے یورپ سے آئے پھر سیاہ فام افریقہ سے بطور غلام لائے گئے۔ پچھلے پچاس سال میں بے شمار انڈین‘ پاکستانی‘ چینی اور عرب یہاں آ کر آباد ہوئے۔ آج امریکہ کے ہر بڑے شہر میں چائنا ٹاؤن ہے۔ نو وارد مہاجر زیادہ تر مشرقی اور مغربی ساحل کے ساتھ آباد ہیں اور یہ علاقے باقی امریکہ سے زیادہ خوش حال ہیں۔ نووارد مہاجر زیادہ محنتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں۔ ماڈرن امریکہ کی ترقی میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔
کئی گورے اب تعلیم اور ذاتی آمدنی میں نووارد مہاجرین سے پیچھے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی اور اس کی ہمسایہ ریاستیں ورجینیا Virginia اور میری لینڈ Mary Land مختلف رنگ و نسل کے نووارد امریکنوں کی بڑی تعداد رکھتی ہیں اور ان دونوں ریاستوں میں فی کس آمدنی خاصی بلند ہے۔ امریکہ میں ایک اصطلاح امریکن ڈریم بہت استعمال ہوتی ہے یعنی ایک غریب مگر محنتی اور ذہین مہاجر امریکہ آتا ہے تو اُس کے پاس پہننے کے لئے پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے۔ پندرہ بیس سال میں وہ محنت کرتے کرتے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے لیکن یہاں یہ بات محلِ نظر ہے کہ ایسا ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا۔ میں نے امریکہ اور کینیڈا میں بھی پاکستانی اور انڈین سوشل سکیورٹی پر گزارہ کرتے دیکھے ہیں۔
بہرحال وہ گورے جو محنتی نہیں یا تعلیم میں پس ماندہ ہیں وہ نووارد خوش حال لوگوں کو حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ نووارد لوگوں کی وجہ سے پس ماندہ ہیں۔ ایک خام خیالی یہ بھی ہے کہ ان نئے رنگ برنگے لوگوں نے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے۔ جاب مارکیٹ پر چھا گئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ نووارد لوگوں کی وجہ سے اقتصادی ترقی ہوئی ہے۔ بزنس کرنے کی نئی راہیں نکلی ہیں بہت سارے جاب پیدا ہوئے ہیں۔ یہ لوگ صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ سفید فام اور سیاہ فام امریکنوں کے لئے بھی خوشحالی لائے ہیں۔ بہرحال صدر ٹرمپ اس منطق اور حقیقت سے مختلف رائے ر کھتے ہیں۔ وہ خالصتاً گوروں کے راہنما کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ بات امریکہ کے لئے اچھی نہیں کیونکہ امریکہ قوس قزاح کے سارے رنگوں سے بنا ہے اور سب لوگوں کی نظام میں شمولیت ہی امریکہ کی اصل طاقت ہے۔
اور اب آتے ہیں مڈٹرم الیکشن کے قابل ذکر نتائج کی جانب۔ آٹھ سال بعد ایوانِ زیریں میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے پھر سے اکثریت حاصل کی ہے اور یہ صدر ٹرمپ کے لئے سیٹ بیک( Set Back) ہے۔ اب وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی سپورٹ کے بغیر کوئی قانون سازی نہیں کر سکیں گے۔ امریکی نظام چیک اینڈ بیلنس کی اساس پر قائم ہے اور صدر ٹرمپ کی مطلق العنانی کی جانب راغب طبیعت کے آگے ایک نیا سپیڈ بریکر آ گیا ہے البتہ صدر ٹرمپ مکمل طور پر بد دل نہیں ہوئے۔ سینیٹ میں ان کی پارٹی نے متعدد نشستیں جیتی ہیں اور اپنی اکثریت قائم رکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے۔
تو اگر صدر ٹرمپ کا حامی اپنی جگہ پر قائم ہے تو ڈیمو کریٹک پارٹی ایوانِ زیریں میں اتنی سیٹیں کیسے لے گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے امریکہ میں ایک نمایاں طبقہ ٹرمپ مخالف ووٹر کے طور پر ابھرا ہے۔ اس طبقے میں نئے امریکن یعنی مہاجر بڑی تعداد میں ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر اوباما کی ہیلتھ کیئر پالیسی کم آمدنی والے لوگوں کے لئے خوشی کی نوید تھی۔ ٹرمپ صاحب نے اس پالیسی کو بدل کے اچھے خاصے ووٹ گنوا لئے ہیں۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے منصوبے نے لاطینی ووٹر کو بھی ٹرمپ مخالف کیمپ میں لاکھڑا کیا ہے۔ مہینہ دو مہینے پہلے صدر ٹرمپ نے ایک ایسے شخص کو اعلیٰ عدلیہ کا جج لگوایا جس پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات ہیں۔ امریکہ کی کئی خواتین ووٹر صدر ٹرمپ کے خلاف اسی وجہ سے ہو گئی ہیں۔ اس دفعہ ٹرمپ مخالف ووٹر بڑی تعداد میں گھروں سے نکلا ہے۔
اس الیکشن میں کچھ چیزیں پہلی مرتبہ ہوئی ہیں مثلاً دو مسلم خواتین منتخب ہوئی ہیں۔ ان میں سے الحان عمر کا تعلق صومالیہ سے ہے۔ الحان چودہ سال کی عمر میں ایک غریب مہاجر کی حیثیت سے اپنے والدین کے ساتھ آئی تھیں اور آج باقاعدہ الیکشن لڑ کے پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ مسلمان خواتین کی طرح سر ڈھانپتی ہیں اور بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ میں امریکن پارلیمنٹ کی پہلی حجابی ممبر ہوں۔ دوسری مسلمان نومنتخب ممبر کا نام راشدہ لطیف ہے۔ وہ فلسطینی الاصل ہیں لیکن ان کی پیدائش امریکہ کی ہے۔ وہ مشی گن Michigan کی ریاست سے الیکشن لڑ رہی تھیں۔ میں ان کے نام سے دو تین ماہ سے واقف تھا کیونکہ میری بھانجی مسز عظمیٰ احمد ‘جو مشی گن ہی میں وکالت کرتی ہیں‘ راشدہ لطیف کی سرگرم سپورٹر تھیں۔ عظمیٰ سوشل میڈیا اور ٹیلی فون کے ذریعے آخری دن تک ووٹروں کو حق رائے دہی پر مائل کرتی رہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ میں اسلامو فوبیا بہت بڑھا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راشدہ لطیف ‘الحان عمر اور عظمی احمد جیسی خواتین بیک وقت راسخ العقیدہ مسلمان بھی ہیں اور محب وطن امریکن بھی۔ اور یہ امریکی جمہوریت کا حسن ہے کہ یہ مسلمان خواتین ووٹ کی طاقت سے آگے آ رہی ہیں۔
اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی مڈ ٹرم الیکشن سے جو نئے حقائق مرتب ہوئے ہیں ان کا امریکی اور عالمی سیاست پر کیا اثر ہوگا۔ کئی ٹرمپ مخالف یہ کہہ رہے ہیں کہ صدر کے مواخذے کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ مطالبہ سامنے آیا بھی تو شاید کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی اب بھی اکثریت میں ہے۔ 2016ء کے صدارتی الیکشن میں روسی کردار کا معاملہ پھر سے زور پکڑ سکتا ہے۔ میکسیکو کے بارڈر پر دیوار بنانا اب مشکل ہو جائے گا کیونکہ ڈیمو کریٹک پارٹی مخالفت کرے گی۔
ٹرمپ مخالف ووٹروں کو جمع کر کے ڈیمو کریٹک پارٹی نے کچھ کامیابی تو حاصل کر لی ہے البتہ وہ اسے چاروں شانے چت نہیں کر سکی۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کو صدر ٹرمپ کو 2020ء کے الیکشن میں ہرانے کے لئے واضح پروگرام دینا ہوگا اور ابھی سے محنت کرنا ہوگی۔ ہم نے دیکھا کہ ٹرمپ کے 2016ء کے الیکشن کے بعد یورپ میں بھی دائیں بازو کی جماعتوں کو تقویت ملی تھی۔ یہ جماعتیں نئے مہاجرین کے داخلے کی سخت مخالف ہیں اور مسلمانوں سے خاص طور پر خائف ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں منتخب شدہ مسلمان اراکینِ پارلیمنٹ اب پوری دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اصل اسلام انتہا پسندوں کا دین نہیں ‘اصل اسلام محبت‘ انسانیت‘ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں