"JDC" (space) message & send to 7575

کچھ باتیں غیر ملکی دوروں کی

حال ہی میں ہونے والی کابینہ کی ایک میٹنگ میں سابق صدر زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سرکاری دورے اور ان کے اخراجات زیر بحث آئے۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے پریس کانفرنس میں تمام تفصیلات بتائیں۔ زرداری صاحب اپنے پانچ سالہ دور میں اکاون مرتبہ دبئی گئے یعنی تقریباً ہر ماہ انہیں دبئی کا دورہ پڑتا تھا۔ نواز شریف نے چار سال میں 262 دن یعنی نو ماہ سے زیادہ عرصہ ملک سے باہر گزارا۔ ان کی فیورٹ جائے سیاحت لندن کا شہر تھا۔ دونوں نے کروڑوں روپے تحفوں اور ٹپس پر خرچ کئے۔ ہزاروں لوگوں کو سرکاری جُھوٹے (جھولے) دلوائے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں رہے‘ جہاں ایک سویٹ (Suite) کا یومیہ کرایہ لاکھوں روپے بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک قرضوں میں ڈوب رہا تھا‘ تب یہ بے حس اور عیاش حکمران میرے اور آپ کے ٹیکس کے پیسوں پر اللّے تللّے کیوں اڑا رہے تھے؟ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری کیوں بجاتا رہا، اُس نے آگ بجھانے کی کوشش کیوں نہ کی؟ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ زرداری صاحب دبئی کے اتنے رسیا کیوں تھے؟ اور نواز شریف کو لندن یاترا اس قدر پسند کیوں تھی؟ اس کا جواب جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زرداری صاحب کا ایک گھر دبئی میں ہے جس کی تفاصیل اور اندرونی نقشہ سوشل میڈیا پر عرصے سے گردش میں ہیں۔ اسی طرح نواز شریف فیملی کے لندن اپارٹمنٹ بھی اب ڈھکے چھپے نہیں رہے‘ بلکہ ان کے لیے وبال جان بن چکے ہیں۔ یہاں ایک جملہ معترضہ یاد آیا۔ میری شام کی واک کے ساتھی ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ با خبر اور دلچسپ انسان ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان دونوں لیڈروں سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ رات کو سکون کی نیند تو سوتے ہیں۔ میں عمر میں ان دونوں لیڈروں سے کچھ بڑا ہوں لیکن الحمدللہ مجھے وہ جسمانی اور ذہنی عارضے لاحق نہیں جو اُن کے حصے میں آئے ہیں۔ 
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران تحفے تحائف اور Tips دینے میں اتنے دریا دل کیوں واقع ہوئے ہیں؟ اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جتنے تحفے آپ میزبان کو دیں گے وہ بھی آپ کو اسی قیمت کے تحائف دینے کی کوشش کرے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ سرکاری پیسہ جیسے بھی خرچ کریں‘ پاکستان میں حکمرانوں سے سوال کرنے کی روایت بہت کمزور رہی ہے۔ یہ عجیب متضاد بات ہے کہ جن لوگوں کو ہم اپنے تحائف سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہی کے پاس کشکول بھی لے کر جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں میں ایک شدید قسم کا احساس کمتری پایا جاتا ہے جسے وہ ظاہری شان و شوکت سے چھپانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پہلے پاکستانی لیڈر ہیں جو آئندہ دورۂ واشنگٹن میں سفیرِ پاکستان کے گھر قیام کریں گے۔ اس سے بے شمار بچت بھی ہو گی اور وزیر اعظم کی قدر و منزلت میں اضافہ بھی ہو گا۔ اور ہاں تحائف سے یاد آیا کہ امریکی صدر اکثر اپنی تصویر پر دستخط کر کے اُسے مہمان کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ کم خرچ بالا نشین والی بات ہے۔ اس طرح کے تحفے سے وہ ذاتی تعلق بھی ظاہر کر دیتے ہیں۔ صدر یا وزیر اعظم جب سرکاری دورے پر باہر جاتے ہیں تو پورا جہاز ان کے زیر تصرّف ہوتا ہے۔ جب یار لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ بڑے صاحب دورے پر جانے والے ہیں تو وہ ساتھ جانے کے لیے اپنے اپنے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیتے ہیں۔ ساتھ جانے والے لوگوں میں صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوریج اچھی ہو۔ پاکستان کے عوام کو بتایا جائے کہ ان کے لیڈر بڑا کامیاب دورہ کر کے آئے ہیں۔ ہمارے لیڈر بھاری بھرکم وفد لے کر جاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں وفد کی تعداد اکثر ایک سو سے متجاوز ہوتی تھی جبکہ امریکی حکومت اور اکثر یورپی ممالک صرف آٹھ افراد کو سرکاری مہمان کی سہولتیں دیتے ہیں۔ باقی سب لوگوں کا ہوٹل کا قیام و طعام، کاریں اور ٹی اے ڈی اے حکومتِ پاکستان برداشت کرتی ہے اور ہر دورے کے اخراجات کروڑوں میں ہوتے ہیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ اینٹوراج Entourage یعنی وفد میں بعض دلچسپ قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے کئی ایک کا سرکاری دورے کے اغراض و مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ صدر ضیا الحق کے ساتھ سعودی عرب کے دوروں میں ایک صاحب اکثر جایا کرتے تھے‘ جن کا نام تھا‘ ملتانی بابا۔ یہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کے خاصے مقبول پیر و مرشد تھے۔ زرداری صاحب دوشنبے گئے تو ان کے ساتھ پی آئی اے کا ایک شیف بھی تھا جسے بھنڈی توری پکانے میں کمال مہارت حاصل تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ہر بیرونی دورے پر اسلام آباد کی ایک مشہور ہیئر ڈریسر کو ساتھ لے کر جاتی تھیں۔
زرداری صاحب کی طرح میاں نواز شریف بھی یاروں کے یار ہیں۔ ایک دفعہ برطانیہ سرکاری دورے پر گئے۔ امریکہ سے اپنے دوست شیخ سعید کو بھی لندن بلا لیا۔ ہر اہم ملاقات میں میاں صاحب کی کوشش تھی کہ شیخ صاحب ان کے ساتھ ہوں۔ برطانوی حکومت خاصی کنفیوزڈ تھی۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ پروٹوکول میں شیخ صاحب کو کون سا درجہ دیا جائے۔ آفیشل وزٹ میں تمام تفاصیل پہلے سے طے کر لی جاتی ہیں۔ دونوں ممالک کے چیف آف پروٹوکول اور سفارت خانے تفاصیل طے کرنے میں خاصی محنت کرتے ہیں۔ میاں صاحب کے برطانیہ کے وزٹ سے پہلے برطانوی حکومت سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم جان میجر کے عشائیے کے بعد تقاریر ہوں گی یا نہیں۔ جواب نفی میں آیا‘ لہٰذا میاں صاحب کے لئے کوئی تقریر تیار نہیں کی گئی۔ اب عشائیے کے فوراً بعد جان میجر اٹھے اور بولنے لگے۔ ڈاکٹر ہمایوں خان لندن میں ہمارے سفیر تھے۔ انہیں اشارہ ہوا کہ میاں صاحب کے لیے جوابی تقریر اپنے ہاتھ سے لکھ دیں؛ چنانچہ وہ تقریر میاں صاحب کو ڈنر ٹیبل پر دے دی گئی۔ کچھ میاں صاحب کی انگریزی کمزور اور دوسرے ڈاکٹر ہمایوں صاحب لکھتے بھی ذرا مشکل انداز سے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میاں صاحب کو خاصے پریشان کن لمحات سے گزرنا پڑا۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹر ہمایوں کی لندن سے ٹرانسفر کر دی گئی۔ ہمارے قائدین میں وسعتِ قلبی کی کمی ہے۔
جہاں لیڈروں میں وسعتِ قلبی کم ہے وہاں ان کی انا آسمانوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم فرانس کے دورے پر گئیں۔ زرداری صاحب اس زمانے میں صرف شوہر اول کا سٹیٹس (Status) رکھتے تھے۔ وزیر اعظم کی فرانس کے صدر کے ساتھ ملاقات طے تھی۔ کار پلان کے مطابق زرداری نے محترمہ کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھنا تھا۔ اے ڈی سی نے ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھنا تھا۔ اب ہوا یوں کہ فرنچ حکومت نے اپنا ایک سینئر لیول کا نمائندہ ہوٹل بھیجا تا کہ محترمہ کو خود لے کر آئے۔ اب یہ صاحب وزیر اعظم کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ زرداری صاحب کو دو نمبر گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ پچھلی سیٹ پر دو وزراء براجمان تھے۔ زرداری صاحب بڑے تلملائے لیکن کر کُچھ نہیں سکتے تھے۔ سارا قصہ اپنی نصف بہتر کو سنایا اور وہ زرداری صاحب کی بات کو خاصی اہمیت دیتی تھیں۔ شاہد امین صاحب پیرس میں ہمارے سفیر تھے۔ پاکستان آ کر محترمہ نے وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ شاہد امین صاحب کا تبادلہ فی الفور فرانس سے کسی اور ملک میں کیا جائے اور اس طرح شاہد امین صاحب کو بھی ڈاکٹر ہمایوں خان کی طرح ناکردہ گناہ کی سزا ملی۔ دونوں فارن سروس کے قابل ترین افسر تھے۔
صدر زرداری کے دوروں پر ایک ارب بیالیس کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ وزیر اعظم نواز شریف کے چار سالہ دور میں ان کے سرکاری دورے ہمیں ایک ارب تراسی (83) کروڑ میں پڑے۔ خوب مزے کئے ہیں دونوں نے میرے اور آپ کے پیسوں پر۔ موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم ان سے اس رقم کے ضیاع کا حساب لیں گے۔ مجھے تو یہ خام خیالی لگتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں