"JDC" (space) message & send to 7575

ایک انوکھا مقدس مقام

فارن سروس میں جانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ دنیا جہان کے اہم مقامات دیکھ لیتے ہیں۔ میں یونان میں چار سال سفیر رہا۔ یونان دیوی دیوتائوں کی سر زمین ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے پہلے جمہوریت کا تجربہ ہوا۔ ماڈرن فلاسفی کی بنیاد یہاں پڑی۔ سقراط افلاطون اور ارسطو یہاں پیدا ہوئے۔ یہاں سقراط نے زہر کا پیالہ پیا مگر اپنے فکری اصول نہ چھوڑے۔ سقراط اور افلاطون ایتھنز کے شہری تھے جبکہ ارسطو شمالی یونان کا رہنے والا تھا۔ یہ سکندر اعظم کا اعزاز تھا کہ ارسطو اس کااتالیق رہا۔ شمالی یونان کا سب سے بڑا شہر تھیسالونیکی Thessaloniki سکندر اعظم کی بہن سے منسوب ہے۔ اسے عرفِ عام میں سلونیکا Solonika بھی کہتے ہیں۔ 
سلونیکا سے آدھے گھنٹے کے سمندری سفر کے بعد ایک بہت ہی اہم مقام ہے جسے آرتھوڈوکس مسیحیت میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس جگہ کو مائونٹ ایتھوس Mount Athos کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت مریمؑ کو ان کے بھائی نے قبرص آنے کی دعوت دی‘ وہ بحری راستے سے قبرص جا رہی تھیں کہ تیز ہوائوں کی وجہ سے ان کا جہاز اصل راستے سے ہٹ گیا اور مائونٹ ایتھوس کے کنارے آ لگا۔ مقامی لوگ حضرت مریمؑ کو ملنے آئے اور ان کی دعوت پر مسیحیت قبول کرلی۔ مائونٹ ایتھوس کے بارے میں حضرت مریمؑ نے فرمایا کہ یہ میری جگہ ہے اور یہاں رہنے والے لوگوں کے لیے میری دعائیں ہیں۔
مائونٹ ایتھوس ایک جزیرہ نما ہے جو ایک لمبے بازو کی طرح ایجین سی Aegean Sea میں نکلا ہوا ہے۔ جزیرہ نما کی ٹوٹل لمبائی پچاس کلو میٹر ہے‘ جبکہ عرض تقریباً آٹھ کلو میٹر۔ اس طرح ٹوٹل رقبہ تقریباً چار سو کلو میٹر مربع بنتا ہے۔ چونکہ حضرت مریمؑ کی وجہ سے اس جگہ کی ایک قدسیت تھی‘ لہٰذا مشرقی رومن ایمپائر کے زمانے میں یہاں معبد تعمیر ہونا شروع ہوئے۔ پہلے معبد کی بنیاد سن 963ء میں رکھی گئی۔ مشرقی رومن ایمپائر کو بازنطین ایمپائر Byzantine Empireبھی کہا جاتا ہے۔ یونانی لوگ اسے اپنا سنہری دور شمار کرتے ہیں۔ پھر سلطنت میں موجودہ کئی ممالک یہاں اپنے اپنے معبد تعمیر کرنے لگے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ کرسچین چرچ اور معبد میں کیا فرق ہے؟ ویسے تو دونوں عبادت گاہیں ہیں۔ چرچ تمام پبلک کے لیے ہے‘ جبکہ معبد ایک قسم کی پرائیویٹ عبادت گاہ ہے جہاں عوامی سروس نہیں ہوتی۔ مائونٹ ایتھوس پر اس وقت بیس معبد ہیں اور ہر ایک میں اوسطاً سو کے قریب راہب یعنی Monks رہائش پذیر ہیں۔ اس طرح جزیرہ نما کی ٹوٹل آبادی تقریباً دو ہزار ہے۔ اس جگہ کو مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ راہب ووٹنگ کے ذریعے اپنا گورنر منتخب کرتے ہیں جو جزیرہ نما کا حاکم یا خادم ہوتا ہے۔ راہب دنیا و ما فیہا سے بے خبر اکثر اوقات عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ اکثر معبد صدیوں پہلے بنے تھے اور آج بھی پوری شان سے آباد ہیں۔
اس جزیرہ نما کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں صنفِ نازک کا داخلہ مکمل طور پر ممنوع ہے۔ مجھے یہ کھلا تضاد لگا کیونکہ اس مقام کو قدسیت تو حضرت مریمؑ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ راہب اس بات کا جواز یوں پیش کرتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہنا چاہتے ہیں‘ جبکہ صنفِ نازک کا جزیرہ نما میں وجود ان کے اس مقصد میں حائل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں جانوروں کی اصنافِ نازک بھی قدم نہیں رکھ سکتیں۔ پورے جزیرہ نما میں ہر طرف خاموشی ہے‘ سکون ہے۔ بس کبھی کبھی معبد کی گھنٹیاں اس سکون میں مخل ہوتی ہیں۔
میں نے مائونٹ ایتھوس کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا لہٰذا وہاں جانے کی شدید خواہش تھی۔ اب مشکل یہ تھی کہ وہاں جانے کے لئے باقاعدہ اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ یہ اجازت نامہ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں‘ کیونکہ صرف دو سو افراد کو روزانہ مائونٹ ایتھوس جانے دیا جاتا ہے۔ وہاں کے راہب یہ نہیں چاہتے کہ یہ عبادت گاہیں سیاحوں کیلئے کھول دی جائیں۔ ان کے خیال میں اگر زیادہ سیاح یہاں آنے لگیں گے تو وہ ان کی عبادت میں مخل ہوں گے۔ جارج کوڈورس George Kuduris سلونیکا میں پاکستان کے اعزازی قونصل جنرل تھے۔ میں نے جارج کو کہا کہ مجھے مائونٹ ایتھوس دیکھنے کا شوق ہے۔ جارج کا جواب تھا کہ آپ فکر نہ کریں میں سارا بندوبست کر لوں گا۔ آپ فلاں تاریخ کو سلونیکا آ جائیں۔ میں نے پوچھا کہ آیا ہم ایک دن میں چیدہ چیدہ معبد دیکھ لیں گے؟ جارج کا جواب تھا کہ بہت مشکل ہے۔ یہ معبد میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہیں‘ جہاں جیپ نہیں جا سکتی‘ خاصا پیدل چلنا پڑتا ہے‘ لہٰذا ہمیں کم از کم دو دن درکار ہوں گے۔ ہمیں وہاں ہوٹل میں رہنا پڑے گا اور ایک جیپ مع ڈرائیور دونوں روز ہمارے پاس رہے گی کیونکہ اکثر سڑکیں کچی ہیں اور راستے دشوار گزار ہیں۔ میں نے پوچھا: وہاں اچھے ہوٹل ہیں؟ جارج کا جواب تھا کہ دو چار عام سے ہوٹل ہیں۔ تھوڑی سختی تو برداشت کرنا پڑے گی۔
سلونیکا پہنچ کر میں نے جارج کو ساتھ لیا اور بندرگاہ سے ایک چھوٹے جہاز میں سوار ہو کر ہم مائونٹ ایتھوس روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا۔ راستے میں جارج نے ایک چھوٹے سے شہر کی جانب اشارہ کیا اور بولا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ارسطو رہتا تھا۔ ارسطو کے قصبے کو دیکھنے کے لیے آج بھی کئی سیاح جاتے ہیں۔ ہم مائونٹ ایتھوس کی چھوٹی سی بندرگاہ پہنچے تو ایک شخص مع جیپ ہمارے انتظار میں موجود تھا۔ 
ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں جگہ جگہ لمبے سیاہ چُغے پہنے ہوئے راہب نظر آئے۔ تقریباً ہر راہب یا مونک Monk کی لمبی داڑھی تھی۔ یہاں مونک بننے کے لیے باقاعدہ درخواست دینا پڑتی ہے اور کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تقریباً دو سال تک نیا راہب تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے تب جا کر اسے کسی ایک معبد میں مستقل رہائش کی اجازت ملتی ہے۔
راہبوں کی زندگی بہت محنت طلب ہے۔ یہ لوگ اپنی خوراک خود اگاتے ہیں۔ گوشت یعنی مٹن اور بیف کھانے کی مکمل ممانعت ہے؛ البتہ ایسٹر اور کرسمس کے موقع پر مچھلی کھانے کی اجازت ہے۔ ایک عام راہب روزانہ کم از کم آٹھ گھنٹے عبادت کرتا ہے اور فالتو وقت میں اُسے فارغ بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ اسے خوراک اگانے کے لیے معبد سے ملحقہ کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ خچر جوت کر ہل چلاتے ہیں۔ اپنی گندم خود اگاتے ہیں۔ سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ پھل دار درختوں کی دیکھ بھال خود کرتے ہیں۔ اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ کھانا سادہ مگر غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ گندم کی روٹی‘ سبزیاں‘ دالیں‘ پنیر اور زیتون ان کی عمومی خوراک ہے۔ جزیرہ نما پر انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت ہیں؛ البتہ کیلا نہیں ہے کیونکہ آب و ہوا سرد ہے۔ ہمیں ایک مونک نے بتایا کہ ہاٹ ہائوس Hot House بنا کر کیلا اگانے کی کوشش کی گئی لیکن تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔
میں نے جارج کے ساتھ تین چار معبد دیکھے‘ مجھے سب سے اچھی عمارت یوکرائن والوں کے بنائے ہوئے معبد کی لگی جو ایک پہاڑ پر بنائی گئی شاندار عبادت گاہ ہے اور یہاں سے سمندر کا نظارہ بہت ہی سہانا لگا۔ راستے میں ہماری ملاقات ایک ایسے راہب سے ہوئی جو پاکستان میں تین چار سال قیام کر چکا تھا۔ جارج نے اسے بتایا کہ یہ سفیرِ پاکستان ہیں اور ایتھنز سے خاص طور پر اس مقدس مقام کو دیکھنے آئے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے راہب کا رویہ بہت ہی دوستانہ ہو گیا۔ وہ ہمیں اپنے معبد لے کر گیا‘چائے پلائی اور سینٹ انڈریو St. Andrew کے چند نوادرات دکھائے۔
مائونٹ ایتھوس واقعی ایک نادر اور تاریخی مقدس مقام ہے۔ یونیسکو نے اسے بین الاقوامی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا ہے۔ اپنے خاندانوں کو چھوڑ چھاڑ کر آنے والے یہ دو ہزار پادری لالچی دنیاوی زندگی سے دور ہر وقت اس مقدس مقام پر عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جگہ پورے عالم میں یکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں