"JDC" (space) message & send to 7575

سعودی‘ اماراتی مصالحتی ڈپلومیسی

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور اماراتی وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان کا اکٹھے اسلام آباد آنا ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے۔ اس سے ایک بات تو یہ ظاہر ہوتی ہے کہ خطے کے یہ دونوں اہم ممالک یک زبان ہو کر پاکستان اور انڈیا سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا مقصد اس مشترکہ آمد کا یہ ہے کہ اس منفی تاثر کو ممکن حد تک زائل کیا جائے کہ کشمیر پر پاکستانی موقف کو عرب ممالک کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ برصغیر کے حد سے بڑھے ہوئے درجۂ حرارت کو کم کیا جائے کیونکہ اگر ایک اور پاک ہند جنگ ہوئی تو اس کے منفی اثرات خلیجی ممالک تک لا محالہ جائیں گے۔
اس اہم سفارتی کوشش کو سمجھنے کے لیے چند چیزوں کا ادراک ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو ابوظہبی میں ملنے والے شیخ زاید میڈل کے بارے میں کشمیر اور پاکستان میں عوامی رد عمل شدید تھا۔ گو کہ حکومتی رد عمل معتدل تھا‘ لیکن چیئر مین سینیٹ کا عرب امارات کا پارلیمانی وفد کے ساتھ دورہ منسوخ کیا گیا‘ جس سے عرب امارات کو واضح پیغام گیا کہ انڈیا کو اعزاز دینے کی ٹائمنگ غلط تھی۔ ایک طرف اسی لاکھ کشمیروں کو اپنے گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔ اُن سے کئے گئے حق ِخود ارادیت کے تمام وعدے بھلا دیئے گئے ہیں‘ بلکہ ایک یک طرفہ فیصلے کے ذریعے انہیں غاصبانہ طریقے سے انڈیا میں نہ صرف ضم کیا جا رہا ہے ‘بلکہ آئینی خود مختاری کو تا راج کرنے کے پُرانے منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں کشمیری حقوق کے غاصب نریندر مودی کو سب سے بڑا اعزاز دینا پاکستانیوں اور کشمیر کے عوام کو بے حد ناگوار گزرا۔
سوشل میڈیا پر رد عمل بہت جذباتی تھا۔ ایک رائے یہ تھی کہ اگر عرب بھائی ہمیں اور ہمارے کشمیری بھائیوں کو ایک جائز اور بین الاقوامی قانون پر مبنی سپورٹ نہیں دے سکتے تو پاکستان کو بھی دیگر آپشنز پر غور کرنا چاہئے مثلاً او آئی سی میں عرب ممالک پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے ایک غیر عرب گروپ بنانا چاہئے جو ترکی ‘ ایران‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا وغیرہ پر مشتمل ہو۔ میرے خیال میں یہ تجویز ناقابل عمل ہے کیونکہ او آئی سی تنظیم کو سب سے زیادہ مالی امداد سعودی حکومت سے ہی ملتی ہے۔دوسرا جذباتی رد عمل سوشل میڈیا پر یہ نظر آیا کہ حکومت پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی تجویز شد و مد سے دی گئی۔ اس تجویز کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ ہم نے عرب بھائیوں کی ہمدردی میں اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کیا اور ہمیں صلے میں یہ ملا کہ ہمارے روحانی بھائی مسلمانوں کے قاتل کو اعلیٰ ترین اعزازات دے رہے ہیں۔ میں خود اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حق میں ہوں ‘اگر ہم انڈیا کے ساتھ ڈپلومیٹک رشتے برقرار رکھے ہوئے ہیں تو اسرائیل کے ساتھ کیوں نہیں؟ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بارے میں حکومت پاکستان نے کم از کم دو مرتبہ سنجیدگی سے غور کیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدے کے بعد اردن اور فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا‘ تب پاکستان کے لیے بھی تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کا وقت تھا اور اس کا یہ ہرگز مطلب نہ ہوتا کہ ہم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں بالکل اسی طرح کہ ہم کشمیر میں انڈین ظلم و ستم کے کھل کر مخالف ہیں‘ لیکن نیو دہلی میں ہمارا سفارت خانہ موجود ہے۔ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا‘ لیکن کابل میں ہماری ایمبیسی ہے۔
یادش بخیر جنرل پرویز مشرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حامی تھے۔ استدلال یہ تھا کہ اس طرح اسرائیل اور انڈیا کے درمیان پائی جانے والی گرمجوشی میں قدرے کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل سے تازہ ترین ٹیکنالوجی عسکری اور زرعی فیلڈ میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ یاد ر ہے کہ اسرائیل نے پانی کی شدید قلت کے باوجود مقبوضہ فلسطین کو گُل وگلزار بنا دیا ہے۔ جنرل مشرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے متعلق اس لیے متذبذب رہے کہ ایم ایم اے کی حمایت کھونے کا ڈر تھا۔ میرا نہیں خیال کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس معاملے پر غور کر رہی ہے۔ ہمیں اس معاملے میں قطعاً جلد بازی نہیں کرنی چاہئے‘ لیکن ایک اوپن ڈیبیٹ تو میڈیا میں شروع ہونی چاہئے۔ امریکہ میں پہلے اسرائیلی لابی پاکستان مخالف تھی اور اب انڈیا لابی بھی خاصی طاقت ور ہو چکی ہے۔ اور دونوں کا آپس میں گہرا گٹھ جوڑ ہے۔
معاف کیجئے بات کُچھ موضوع سے ہٹ گئی یہ دونوں وزرائے خارجہ پانچ اگست کے بعد پاکستان آنے والی پہلی فارن شخصیات ہیں اور یہ دونوں ممالک چند ماہ پہلے پاکستان کی مالی امداد کرنے میں پیش پیش بھی تھے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ پانچ اگست کے بعد وزیراعظم عمران خان کی پانچ مرتبہ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان سے بات ہوئی ہے۔ اسلام آباد پہنچنے پر دونوں وزرا نے کہا کہ ہم اپنی قیادت کے احکام پر پاکستان آئے ہیں‘ یہ امر بھی محل نظر ہے کہ سعودی کرائون پرنس اور امارات کے ولی عہد پرنس محمد بن زاید النہیان میں گہری دوستی ہے۔
اور اب بات ہو جائے امارات میں انڈین مفادات کی اور اپنے دو طرفہ تعلقات کی۔ سنا ہے کہ انڈیا کے بیس امیر ترین لوگوں میں سے سات یا آٹھ عرب امارات میں رہتے ہیں اور ان کی امارات میں قابل قدر سرمایہ کاری ہے۔ دوسری جانب امارات کی بڑی بڑی شخصیات انڈیا میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ان میں شیخ مبارک النہیان کا ڈینوب گروپ بھی شامل ہے۔ شیخ مبارک نے پاکستان میں بھی بینک الفلاح کی صورت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔پاکستان اور عرب امارات کا عسکری شعبے میں شاندار تعاون رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی مین پاور نے امارات کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ عرب امارات کی پاکستان کے لیے امداد کی نشانیاں رحیم یار خان کے ائیر پورٹ سے لے کر شیخ زاید ہسپتال لاہور اور آزاد کشمیر کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے شاندار کام تک پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن پچھلے چند سالوں میں ہمارے دو طرفہ تعاون میں چند ایک رکاوٹیں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری میں آٹھ سو ملین ڈالر کا ایشو ابھی تک چل رہا ہے‘ یہ پیسے عرب امارات نے حکومت پاکستان کو ادا کرنے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اندازے کے مطابق مختلف پاکستانی شہریوں نے آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ امارات میں پراپرٹی خریدی ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان کو یقین ہے کہ یہ جائیدادیں کالے دھن سے خریدی گئی ہیں۔ ہماری حکومت کو ان جائیدادوں کی تفاصیل چاہئیں تا کہ ان شہریوں کے خلاف ایکشن لیا جا سکے یا اُن سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ اس پراپرٹی کی تفاصیل حکومت پاکستان کو ابھی تک نہیں ملیں۔ ان دونوں رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے تا کہ دو طرفہ تعلقات میں پہلے والی گرمجوشی لائی جا سکے۔ امارات کے صاحب ثروت لوگوں کے لیے پاکستان میں سیاحت اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے روشن امکانات ہیں۔
انڈیا نے تجارت اور سرمایہ کاری سے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات ضرور استوار کر لئے ہیں لیکن اس سے پاک عرب دوستی کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ ہمیں اس سلسلے میں نہ ہی نا امید ہونا چاہئے اور نہ جذباتی۔ سعودی عرب کا مسلم دنیا میں ایک مقام ہے اور وہ روحانی اور ابدی ہے وہاں انڈیا پاکستان کی جگہ نہیں لے سکتا۔سنا ہے کہ سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ انڈیا جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ انڈین حکومت سے سری نگر کے دورے کی بھی درخواست کریں۔ ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھائیں اور سفارت کاری میں فعال رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں