"JDC" (space) message & send to 7575

ایران،امریکہ اور مڈل ایسٹ

ایران‘ امریکہ سے بار بار کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی افواج مشرق وسطیٰ سے نکال لے‘ لیکن امریکہ کا مڈل ایسٹ سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ امریکہ کا استدلال یہ ہے کہ بحرین‘ قطر‘ کویت اور عراق میں اس کے عسکری اڈے دو طرفہ معاہدوں کے تحت کام کر رہے ہیں‘ لہٰذا کسی اور ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے وجود پر اعتراض کرے۔ عراقی پارلیمنٹ نے ضرور قرارداد پاس کی ہے کہ امریکہ عراق سے فوجوں کا انخلا کرے لیکن ایسی ڈیمانڈ کے لیے عراقی حکومت کی منظوری ضروری ہے اور عراق میں اس وقت عبوری حکومت ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ میں دو ہی مفادات ہیں یعنی تیل کی با آسانی ترسیل اور اسرائیل کی سکیورٹی‘ لیکن ایک تیسرا مفاد بھی ہے جسے اکثر لوگ بھول جاتے ہیں اور وہ ہے خطے کا جیو سٹریٹیجک محل وقوع۔ آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz)یہاں واقع ہے‘ جہاں سے دنیا کا 21 فیصد تیل روزانہ گزرتا ہے۔ یمن اور صومالیہ کے بیچ خلیج عدن ہے جسے بحری تجارت کے حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے اور پھر سب سے اہم سویزکینال ہے۔ ایک چیز ملحوظِ خاطر رہے کہ امریکہ اب تیل کے معاملے میں خود کفیل ہے‘ لیکن اس کی نظر میں مڈل ایسٹ کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ 
اور اب آتے ہیں ایران اور امریکہ کے مابین موجودہ کشیدگی کی جانب جس نے تین چار روز کے لیے پوری دنیا کے لیے اعصاب شکنی کا ماحول پیدا کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا‘ وہ ایک عرصے سے مڈل ایسٹ میں ایرانی سیاست کا محور تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سپریم لیڈر کے بعد ایران میں سب سے اہم شخصیت تھے‘ لہٰذا ایران کے لیے اس واقعے کا بدلہ لینا ضروری تھا۔ جنرل سلیمانی کی نماز جنازہ میں عراق اور ایران میں لاکھوں لوگ آئے اور یہ ان کی مقبولیت کی غماضی تھی۔ ہمسایہ ملک میں یہ عمداً قتل خطے میں ایرانی اثر و رسوخ پر حملہ تھا۔ایران کا عراق میں دو عسکری اڈوں پر حملہ بھی بے حد ڈرامائی تھا۔ ایک دن کے لیے پوری دنیا ہل کے رہ گئی۔ ہر بڑے ملک میں سٹاک ایکسچینج کا گراف نیچے آیا‘لیکن اگلے روز حالات نارمل ہونا شروع ہو گئے۔ صدر ٹرمپ نے ایران سے غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کر دی۔ ایران کا غصہ بھی ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا۔لیکن کیا ایرانی حملہ اتنا ہی مؤثر تھا جتنا دعویٰ کیا گیا؟ یہ اب سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا‘ عراقی میڈیا نے بھی ہلاکتوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی۔ ایرانی اور عراقی دونوں ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ انبار اور اربیل میں عسکری اڈوں پر حملوں کی پیشگی اطلاع کر دی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ عراقی حکومت نے امریکی فوجیوں کو فوراً مطلع کر دیا ہوگا اور وہ محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل ہو گئے۔ میں تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کروں گا کہ ایران امریکہ سے اپنے معاملات میں زیادہ بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ سالہا سال کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایران امریکہ سے جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جس دن جنرل سلیمانی کو قتل کیا گیا اسی شام مجھ سے ایک ٹی وی پروگرام میں پوچھا گیا کہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے یا نہیں؟ میرا جواب تھا: ایسا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی تیاری ہے۔ ایسے ماحول میں عمومی طور پر جنگ شروع کرنے کے فیصلے نہیں ہوتے۔ اور اب تو خبریں ہیں کہ امریکی ایوانِ زیریں نے صدر ٹرمپ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر جنگ شروع نہیں کر سکتے۔ امریکی عوام بھی اب کسی نئی جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 1965ء میں پاکستانی حکومت نے جنگ جیتنے کا دعویٰ کیا تھا‘ لیکن اصل میں وہ جنگ ایک برابر میچ تھا اور یہ بات تاشقند میں واضح ہو گئی تھی۔ اس کے بعد صدر ایوب خان کی پوزیشن کمزور ہوتی گئی۔ اسی طرح 1973ء کی جنگ میں مصری حکومت کا دعویٰ تھا کہ ہم نے سویز کینال کو ڈرامائی طور پر عبور کر کے اسرائیلی طاقت کی اصلیت کو مشکوک کر دیا ہے اور پھر مصری حکومت نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کئے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی استوار کر لیے اور پھر صدر انور السادات کی پوزیشن کمزور پڑنے لگی۔
ایرانی حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ ہم نے امریکہ کے مُنہ پر تھپڑ مار دیا ہے‘ کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ امریکہ کے پاس میزائل ہوا میں تباہ کرنے کی صلاحیت ایک عرصے سے موجود ہے تو امریکہ نے ایرانی میزائل فضا میں تباہ کیوں نہ کئے اور ایران اگر واقعی سخت بدلہ لینا چاہتا تھا تو اُس نے پیشگی اطلاع کیوں دی؟ تو کیا یہ فکسڈ میچ تھا یا نورا کشتی تھی؟ میرا نہیں خیال کہ میچ پیشگی فکس کیا ہوا تھا‘ البتہ ایرانی حکومت نے اپنی پبلک کو خوش کرنے کے لیے نتائج ضرور بڑھ چڑھ کر بتائے۔ مگر اصل حقیقت سب کو معلوم ہو جائے گی کہ ایرانی حکومت کا کلیم یا دعویٰ کس حد تک صحیح تھا۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل ایرانی عوام کو متحد کر گیا اور حکومت کی ساکھ کو بھی بحال کر گیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ماضی قریب میں تہران حکومت کے خلاف تیل کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے ملک گیر مظاہرے ہوئے تھے‘ البتہ اگر عوام کو پتہ چل گیا کہ تہران حکومت کے دعوے غلط تھے تو حالات پھر سے خراب ہو سکتے ہیں۔
شروع میں حکومت پاکستان پر دبائو تھا کہ امریکی اقدام کی سخت مذمت کرے‘ مگرحکومت کی طرف سے بڑا متوازن بیان آیا کہ ہم خطے میں کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے‘ بلکہ امن کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ روس اور چین کی طرف سے بیانات بھی محتاط تھے۔ اگر آبنائے ہرمز بند ہو جاتی تو سب سے زیادہ نقصان چین اور انڈیا کو ہونا تھا۔ چین کو خاصی دشواریوں کا سامناہوتا۔
آج کل یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ جنرل سلیمانی پاکستان کا دوست تھا یا دشمن؟ اس سوال کا جواب خاصا مشکل ہے۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگوں کی مدد سے جو تباہی پھیلائی گئی اس کے پیچھے قاسم سلیمانی کا ہاتھ ہوتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے بیان صادر کرنا ابھی قبل از وقت ہے‘ لیکن انڈین میڈیا سے لگتا ہے کہ وہاں کئی تجزیہ کار جنرل سلیمانی کو انڈیا دوست کہہ رہے ہیں۔ ایک تجزیہ کار نے یہ بھی لکھا کہ انڈیا کے لیے جنرل قاسم سلیمانی کی وفات ویسا ہی صدمہ ہے جیسا اُسے افغانستان میں احمد شاہ مسعود کی وفات سے ہوا تھا۔
آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آئندہ حالات کا رخ کیا ہوگا۔ ایک بات یقینی ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ مڈل ایسٹ سے نہیں جائے گا۔ خلیجی ملک امریکہ کے حلیف بھی ہیں اور امریکی اسلحے کے بڑے خریدار بھی۔ امریکہ ان کے دفاع کے لیے یہاں رہے گا۔ انتہا پسندی کا مقابلہ ایک اور بہانہ ہوگا۔ ایران وقتاً فوقتاً امریکہ کے انخلا کا مطالبہ کرتا رہے گا اور امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسی پر تنقید بھی۔ ایران کا بیانیہ خاصا مقبول بھی ہے‘ پورے خطے میں اور اندرونی طور پر عوام کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے‘ لہٰذا مڈل ایسٹ کا خطہ مستقبل قریب میں بھی امریکہ‘ ایران چپقلش کا شکار رہے گا۔
جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایران اور سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں ۔امن کے لیے یہ سفر خوش آئند ہے۔ حالیہ واقعات کے تناظر میں پاکستان کی اہمیت بڑھی ہے اور انڈیا کو یہ بالکل ہضم نہیں ہو رہا بلکہ انڈیا تلملا رہا ہے کہ اسے اگنور کیا گیا ہے۔ انڈیا اور مڈل ایسٹ پر بحث آئندہ کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں