"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا چائنا تعلقات : امکانی جائزہ

پندرہ جون کی سرحدی جھڑپ کے بعد مستقبل کے دو طرفہ تعلقات کے بارے میں انڈین میڈیا میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ انڈین عقابوں (Hawks) کو تو یکایک پر لگ گئے۔ کسی نے کہا کہ چین کے دانت کھٹے کرنے کا اچھا موقع ہے۔ چند سنجیدہ عقابی تجزیہ کاروں نے مشورہ دیا کہ تبت کی جلا وطن حکومت کو دھرم شالہ سے شفٹ کر کے دہلی لایا جائے۔ چین مخالف مشرق بعید کے ممالک مثلاً ویت نام اور کمبوڈیا کو انڈیا ہتھیار دے۔ تائیوان سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ ہانگ کانگ میں چائنا کے جمہوریت دشمن رویوں کی پوری دنیا میں تشہیر کی جائے۔
عوامی سطح پر یہ مطالبہ سامنے آیا کہ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایک کالم نگار تو دور کی کوڑی لائے۔ انکا کہنا تھا کہ حالیہ سرحدی جھڑپ دراصل وزیراعظم مودی کا بچھایا ہوا جال تھا جس میں چائنا پھنس گیا ہے اب انڈیا کو مغرب کے اہم ممالک کی مزید حمایت حاصل ہوگی اور وہ اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کی دائمی نشست حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ حقیقت میں جن باتوں کے زیادہ امکانات ہیں وہ ان قیاس آرائیوں سے مختلف ہیں۔
مجھے مستقبل قریب میں انڈیا اور چائنا کے درمیان کسی بڑی جنگ کا امکان کم نظر آتا ہے۔ انڈین دفاعی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ ہماری افواج 1962ء کے مقابلے میں بہت بہتر پوزیشن میں ہیں لیکن وہ شاید یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چین کا دفاعی بجٹ انڈیا سے چار گنا ہے۔ جدید ہتھیاروں سے لیس چین کی فوج جنگ لڑنے کے اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہے لیکن جنگ دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں اور اس بات کا ادراک دونوں جانب کی قیادت کو ہے۔
صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ اور چین کے تجارتی معاملات تنائو کا شکار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بہت ساری امریکن کمپنیاں‘ جو اس وقت چائنا میں کام کر رہی ہیں‘ انڈیا شفٹ ہونا چاہتی ہیں۔ اگر انڈیا چین کے ساتھ جنگ کر لے تو یہ کمپنیاں بھی نہیں آئیں گی بلکہ بہت سی دوسری غیر ملکی سرمایہ کاری بھی کافور ہو جائے گی۔ ان حالات میں جنگ انڈیا کا پہلا آپشن ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بخوبی علم ہے کہ وہ روایتی جنگ جیت نہیں پائے گا۔ 1962ء کی شکست فاش ابھی انڈیا کو یاد ہے۔ اس ہزیمت کے غم میں پنڈت نہرو دو ہی سال میں بھگوان کو پیارے ہو گئے تھے۔
انڈین میڈیا کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چینی فوج 15 جون والی پوزیشن سے دو کلو میٹر پیچھے چلی گئی ہے۔ انڈیا میڈیا نے مگر یہ نہیں بتایا کہ انڈین فوج کتنا پیچھے ہٹی ہے یا مستقبل میں امن کے لیے کیا وعدے کئے گئے ہیں۔ کیا ضمانتیں دی گئی ہیں۔ دونوں ممالک کے صلح جو روّیئے کی ایک بڑی وجہ دو طرفہ تجارت ہے جو نوّے ارب ڈالر سالانہ سے کراس کر چکی ہے۔ اس وقت چائنا انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پچھلے سال انڈیا نے چین سے 64 ارب ڈالر کی اشیا امپورٹ کیں۔ ان میں موبائل فون سے لے کر بھاری صنعتی مشینری تک بے شمار آئٹم تھے۔ کمپیوٹر، کھادیں، صنعتی بوائلر، دوا سازی کا خام مال، نیوکلیئر ری ایکٹر بھی چین انڈیا کو برآمد کرتا ہے اگر یہ تجارت بند ہو جائے تو انڈیا کا نقصان زیادہ ہوگا اور چین کا کم۔ وجہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ تجارت انڈیا کی ٹوٹل انٹرنیشنل ٹریڈ کا ساڑھے بارہ (12.5) فی صد ہے جبکہ چین کی بین الاقوامی ٹریڈ کی شماریات بتاتی ہیں انڈیا کے ساتھ تجارت کا حجم ٹوٹل مجموعے کا صرف ڈھائی فیصد ہے۔
اگر چین کے ساتھ تجارت آج بند ہو جائے تو انڈیا میں متعدد کمپنیاں بند ہو جائیں گی۔ کئی جابز ختم ہو جائیں گی۔ چین کی سستی مصنوعات کی جگہ انڈیا کو متبادل مال دوسرے ممالک کی جگہ انڈیا کو متبادل مال دوسرے ممالک سے خریدنا پڑے گا جو کہ مقابلتاً مہنگا ہوگا۔ اس سے انڈیا میں پیداواری لاگت بڑھے گی۔ مہنگائی آئے گی۔ انڈین ذہن بنیادی طور پر کاروباری ذہن ہے وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چین کے بارے میں جذباتی قسم کے تبصرے اب کم ہو گئے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات اب زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں چند ممالک مغربی بلاک کے ساتھ تھے۔ ایک اچھا خاصا دھڑا سوویت یونین کے ساتھ تھا اور تیسرا گروپ تھا جو غیر جانبداری کا دعوے دار تھا۔ اب یہ فرق مٹ گئے ہیں اور اکثر ممالک وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی کتاب شائع ہوئی ہے جس میں کئی دلچسپ انکشافات ہیں۔ جان بولٹن صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس سال کے آغاز میں جی 20 سربراہ کانفرنس ہوئی اور وہاں صدر ٹرمپ کی چین کے صدر مسٹر شی سے ملاقات ہوئی۔ ٹرمپ نے صدر شی سے درخواست کی کہ چین امریکہ سے گندم اور سویا بین درآمد کرے۔ یہ دونوں اجناس امریکہ کی وسطی ریاستوں میں خوب ہوتی ہیں اور ان ریاستوں کے سفید فام زمیندار صدر ٹرمپ کے بڑے سپورٹر ہیں‘ گویا جان بولٹن کا کہنا ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے صدر ٹرمپ دشمنوں سے بھی مدد لینے کو تیار ہیں۔ اپنے خطے کی طرف آئیں تو انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول 15 جون کے بعد چینی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
15 جون کو جب سرحدی جھڑپ ہوئی تو امریکی وزیر خارجہ کا انڈیا کی حمایت میں بیان ضرور آیا لیکن ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان مصالحتی رول ادا کر سکتے ہیں۔ روس والے کیوں پیچھے رہتے، روسی وزیر خارجہ نے اپنے چینی اور انڈین ہم منصب سے ویڈیو کانفرنس کر کے انہیں معاملے کو ٹھنڈا کرنے کا کہا۔ دو نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان تعلقات بگڑنے لگیں اور جنگ کی باتیں ہونے تک نوبت آ جائے تو دنیا الرٹ ہو جاتی ہے۔ چین خود بھی نہیں چاہے گا کہ انڈیا مکمل طور پر امریکہ کا ساتھی بن جائے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا چین کے بارے میں انڈین حکمت عملی میں کوئی بڑا فرق آئے گا۔ میرا جواب یہ ہوگا کہ قدرے فرق ضرور آئے گا مگر یہ اعلانیہ نہیں ہوگا۔ اب ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے نہیں لگیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور عسکری مسابقت بڑھے گی لیکن تجارت بھی جاری رہے گی۔
انڈیا وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا خوب جانتا ہے اور وہ اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھے گا۔ بی جے پی نے 2014ء میں نعرہ لگایا تھا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کریں گے‘ لیکن اکثر ہمسایہ ممالک کے ساتھ مودی کی زور آور (Muscular) پالیسی کی وجہ کی وجہ سے تنائو آیا ہے اور اس پالیسی کا انڈیا کو نقصان ہوا ہے۔پاکستان، نیپال، سری لنگا، چین کے قریب تر ہو گئے ہیں۔ اگر انڈیا پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات پر امن طور پر حل کر لیتا تو اسے سنٹرل ایشیا تک راہداری مل سکتی تھی لیکن اسے کشمیر کو ضم کرنے کا زیادہ شوق تھا۔ مودی کی پالیسی کی وجہ سے علاقائی امن کا نقصان ہوا ہے۔ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا خواب چکنا چور ہوا ہے لیکن مودی ہمیشہ تو بھارت کے راج سنگھاسن پر بیٹھا نہیں رہے گا۔
اگر چین کے ساتھ انڈیا کی مزید جھڑپیں ہوتی ہیں تو بھارت کے لیے ٹو فرنٹ صورتحال (Two front situation) ہو جائے گی۔ یعنی چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ سرحدوں پر تنائو کی کیفیت اور انڈیا یقینا یہ نہیں چاہے گا لہٰذا وہ چین کے ساتھ امن کا خواہاں رہے گا۔ مغربی ممالک سے فائدہ اٹھانے کی انڈین خواہش اب پوری ہوتی نظر آ رہی ہے البتہ انڈیا چین کے ساتھ زیادہ بگاڑ نہیں چاہے گا وہ دونوں جانب سے فائدہ اٹھائے گا۔ کوئی بنیادی تبدیلی مجھے نظر نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں