"JDC" (space) message & send to 7575

گورننس کا بحران

پاکستان میں آج کل گورننس کا شدید بحران ہے۔ کابینہ کے بعض ارکان کہہ رہے ہیں کہ قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی ذمہ دار بیورو کریسی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاقی اداروں کے افسر کام کریں یا نوکریاں چھوڑ دیں۔ کچھ افسر احتساب کے ادارے سے ڈرے ہوئے ہیں اور فائل پر دستخط کرنے سے پہلے لمبا سوچتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی بیورو کریسی اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ روزمرہ کے انتظامی امور اور حکومت کے لیے صائب اور بروقت سفارشات مرتب کرنا بیورو کریسی کے فرائض میں شامل ہے۔ سیاسی لیڈر بدلتے رہتے ہیں‘ لیکن بطور ادارہ بیورو کریسی کو دوام حاصل رہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی بیورو کریسی‘ جس نے پہلے دو عشرے شاندار کام کیا اور پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ماڈل بنا دیا وہ تنزلی کا شکار کیسے ہوئی؟ اس کے لیے ہمیں تاریخ میں بھی جھانکنا ہوگا اور موجودہ حالات کا معروضی جائزہ بھی لینا ہوگا۔
مغلوں کو برصغیر میں آئے تقریباً پانچ سو سال ہوئے ہیں۔ مغل بادشاہ کلیدی عہدے اپنے بہت قریبی عزیزوں کو دیتے تھے مثلاً شاہ جہاں کے عہد میں دارا شکوہ پنجاب کا گورنر رہا۔ دوسرے عہدے حاصل کرنے کے لیے امیدوار سنٹرل ایشیا‘ افغانستان اور ایران سے تگڑی تگڑی سفارش لاتے تھے اور ساتھ اپنا شجرۂ نسب بھی۔ گویا ذاتی وفاداری مغل عہد کے منتظم کا طرۂ امتیاز تھا۔ اسے ہم اپنی سہولت کیلئے ایرانی ماڈل کہہ سکتے ہیں انگریز برصغیر میں آئے تو میرٹ کا نظام متعارف ہوا۔ مقابلے کا امتحان دو ‘ اچھی پوزیشن آئے تو اچھی سروس لے لو۔
انگریز کا لایا ہوا انتظامی نظام مغلوں سے زیادہ منصفانہ تھا۔ جو لوگ سلیکٹ ہوتے تھے انہیں تربیت کے لیے برطانیہ بھیجا جاتا تھا۔ بنیادی بات یہ سکھائی جاتی تھی کہ اپنے تمام فیصلے قاعدے قانون کے مطابق بغیر کسی خوف کے کرنے ہیں۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر آپ کو کوئی غیر قانونی کام کرنے کا کہتا ہے تو آپ انکار کر سکتے ہیں آپ کی نوکری کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ انڈیا میں وائسرائے تک آئی سی ایس افسر کو برطرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ آخری فیصلہ لندن میں ہوتا تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے آئی سی ایس کو دنیا کی بہترین سول سروس قرار دیا تھا۔ آئی سی ایس سے ہمیں آغا شاہی‘ قدرت اللہ شہاب‘ اے جی این قاضی اور وی اے جعفری جیسے قابل افسر ملے جو 1947ء کے فوری بعد کی شدید مشکلات کے باوجود پاکستان کی ترقی کا باعث بنے اور ملک میں استحکام لائے۔ یہ آزاد سول سرونٹ کا دور تھا جو 1970ء تک چلا۔
لیکن در حقیقت اس سے پہلے آزاد سول سروس پر پہلا وار ایوب خان نے زمام حکومت سنبھالنے کے جلد بعد کر دیا تھا۔ تقریباً تیس سینئر سول سرونٹ نوکری سے فارغ کر دیئے گئے۔ 1969ء میں یحییٰ خان کی حکومت آئی تو 303 سرکاری ملازمین اپنی جاب کھو بیٹھے اور بھٹو صاحب نے تو تیرہ سو سول آفیشلز کو نکال کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ کام اتنی عجلت میں ہوا کہ نکالے جانے والے چند افسر ریٹائر ہو چکے تھے یا اس جہانِ فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سروس کی آئینی ضمانت بھی واپس لے لی۔ 1970ء کے سی ایس ایس کے امتحان میں اعتزاز احسن اول آئے مگر سروس جوائن کرنے کے بجائے وکالت کو ترجیح دی۔ 1973ء میں آصف سعید نے ٹاپ کیا مگر پرائیویٹ سیکٹر کی جاب کو سرکاری نوکری پر ترجیح دی۔ جب تین دفعہ تلوار چل چکی اور آئینی گارنٹی بھی نہ رہی تو سول سرونٹ حکمرانوں کے رحم و کرم پر تھے۔ سول سروس کے برٹش ماڈل کو ترک کر کے اب ہم مغل ماڈل کی جانب واپس آ رہے تھے۔ سروس میں پھلنے پھولنے کے لیے اب حکمرانوں کی خوشنودی ضروری تھی۔1970ء کے بعد خوشامد آستہ آہستہ سول سرونٹ کے مزاج کا حصہ بننے لگی۔ بھٹو صاحب کی لیٹرل انٹری نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ ہر کوئی اپنی بقا کے لیے گاڈ فادر تلاش کرنے لگا۔ ترقی تنزلی اور تبادلے سب حکومت کے ہاتھ میں تھے۔ ملک و قوم کی خدمت کرنے کی لگن اگر کسی کو بھی تھی تو کافور ہو گئی۔ حکمران چونکہ تنقید سے الرجک تھے لہٰذا صحیح مشورے اور سفارشات مرتب کرنا بھی سول سرونٹ کے فرائضِ منصبی سے غائب ہوا اور وہ سب ٹھیک ہے والی رپورٹیں لکھنے لگے‘ کہ یہی راہِ بقا و نجات تھی۔
اور اب آتے ہیں دور حاضر میں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سول سرونٹ کی صلاحیت پہلے والی نہیں رہی اوپر سے ان کے سر پر کنسلٹنٹ بٹھا دیئے گئے۔ کنسلٹنٹ کی تنخواہ عام سروس سرونٹ سے خاصی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے سول سرونٹ اور بھی ڈی گریڈ ہو گیا وہ جو اچھے عہدے اور اچھا کام کرنے کا فخر ہوتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ اوپر سے بار بار کے تبادلوں نے ان کا جینا حرام کر دیا۔ اب ضلعی سطح پر حکمران پارٹی یا اس کی حلیف جماعت کا ایم این اے اپنی پسند کا ڈی سی لگواسکتا ہے اور ایس پی بھی اور پھر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے۔ اب ہماری سول سروس برٹش اور ایرانی ماڈل کا مکسچر ہے یعنی تعیناتی امتحان کے ذریعہ ہوتی ہے لیکن باقی سروس سیاسی آقائوں کی خوشنودی کے تابع ہے۔
ایک مثبت بات یہ نظر آتی ہے کہ 1976ء کے بعد سول سروس میں کوئی بڑی تطہیر نہیں ہوئی اور پچھلے تین عشروں سے اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ریلیف بھی مل رہا ہے۔ ترقی اور تنزلی کے کئی کیس عدالتوں تک جاتے ہیں۔ میڈیا بھی فعال ہے۔ پچھلے دنوں جب دو سال میں پنجاب کا پانچواں آئی جی تبدیل ہوا تو میڈیا میں کافی شور مچا۔حال ہی میں معاصر کالم نگار تسنیم نورانی نے ایک انگریزی جریدہ میں یہ لکھا ہے کہ'' ہمارا سسٹم مجرموں‘ قاتلوں‘ لٹیروں کو سزا نہیں دے سکا تو ایسے معاشرے میں قانون کی بالادستی کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ احتساب جیسے ادارے کئی حکومتی اہل کاروں کے خلاف کیس رجسٹر کرتے ہیں ‘میڈیا میں چرچا ضرور ہوتا ہے مگر سزا نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدمعاش دندناتے پھرتے ہیں جبکہ وہ سرکاری ملازم جن کی وجہ سے ہمارا حکومتی نظام چل رہا تھا وہ چھپتے پھر رہے ہیں۔ وہ فیصلے کرنے سے ڈرتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم چینی اور آٹے کے بحران کا شکار ہوئے‘‘۔
کوئی بھی ایماندار اور نیک نام افسر موجودہ صورتحال میں کام کرنے کو تیار نہیں۔ شعیب دستگیر جیسا اچھا پولیس افسر اس نظام میں سیٹ نہیں ہو سکا کیونکہ چین آف کمانڈ توڑ کر لاہور کے ڈی آئی جی کو آزاد کر دیا گیا۔ ایک اچھا آئی جی یہ برداشت نہ کر سکا۔ ناصر درانی جیسے اعلیٰ افسر کو پنجاب پولیس کی ریفارمز کا کام سونپا گیا لیکن چند روز بعد وہ خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔ نسیم صادق پنجاب سول سروس کے بہت باصلاحیت‘ ایماندار اور نیک نام افسر ہیں۔ گندم کے بحران کے آخری دنوں میں لاہور میں سیکرٹری فوڈ تھے‘ سارا ملبہ ان پر ڈال دیا گیا‘حالانکہ سب کیا دھرا ان کے پیشرو کا تھا۔ نسیم صادق نے آٹے کے بحران پر جو رپورٹ لکھی اس میں آٹا مافیا اور سرکاری نظام خرید اور تقسیم کے بخیے ادھیڑ دیئے ۔یہ نڈر اور نیک نام افسر آج کل OSD ہے۔ یہ صلہ ملتا ہے کارکردگی کا وطن عزیز میں۔
فارن سروس ملک کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ ہمارا فارن آفس آج بھی ایک اچھا ادارہ ہے۔ فارن سروس کے افسر دنیا جہاں گھوم کر بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ چند ہفتے قبل وزیراعظم کی جنرل اسمبلی کی تقریر کے بعد ہمارے ایک جونیئر افسر ذوالقرنین چھینہ نے پاکستان کے مؤقف کا خوب دفاع کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری پر 2016ء میں سارک سمٹ کیلئے تین بلٹ پروف کاریں خریدنے کا ریفرنس تیار ہو رہا ہے۔ میری نظر میں موصوف اچھی شہرت کے مالک ہیں انہوں نے سمری بھی مجاز اتھارٹی کے حکم پر بنائی تھی۔ اس واقعہ سے فارن سروس کے افسروں کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے۔کیا ہم ایک اور اچھا ادارہ تباہ کرنے چلے ہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں