"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا ایک مشکل ہمسایہ

انڈیا ایک بڑا ملک ہے جو علاقای بالادستی کا خواب 1947 سے دیکھ رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اس سے کنسلٹ کریں۔ اسی لیے جب پاکستان انڈیا کی اجازت کے بغیر سی پیک میں شامل ہوا تو انڈیا کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ جب سری لنکا نے ہمبن ٹوٹا (Hambentota) کی بندرگاہ کا ٹھیکہ چین کو دیا تو بھی اسے پسند نہ آیا۔ جب نیپال نے اپنا آئین آزادی سے تشکیل دیا تب بھی بھارت کو واضح تحفظات تھے۔ جنوبی ایشیا میں بھوٹان کے علاوہ ایک ملک تھا جس سے انڈیا کی گاڑھی چھنتی تھی اور وہ تھا بنگلہ دیش مگر اب ان دو ممالک میں بھی پہلے جیسی گرم جوشی مفقود ہے۔ بڑی وجہ ہندوستان کی علاقائی چودھراہٹ کی شدید خواہش ہے اور اس خواہش کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ اسے پسند نہیں۔
ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو دو عناصر نے انڈیا کے برتری کے خواب کو تقویت دی ہے۔ ایک ہے متاثر کن اقتصادی ترقی اور دوسرا عنصر ہے، امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ۔ امریکہ کے لیے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے انڈیا کی مدد ضروری ہے۔ انڈیا اپنی اقتصادی ترقی کی وجہ سے جی 20 ممالک کی صف میں کھڑا ہے، اس کی مجموعی سالانہ پیداوار پاکستان سے نوگنا ہے۔
انڈیا پچھلے دو سال سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کی داستان 5 اگست 2019 سے مزید گمبھیر ہو گئی ہے۔ انڈیا کو نہ اپنے وعدوں کا پاس ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام‘ اور اسی بین الاقوامی تنظیم کی سکیورٹی کونسل کا دائمی رکن بننے کی بھی انڈیا کی شدید آشا ہے۔
پچھلے ہفتے اچانک اعلان ہوا کہ دونوں ممالک لائن کنٹرول پر فائرنگ بند کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں تو یار لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ بڑا سوال یہ تھا کہ انڈیا کا پاکستان کے بارے میں رویہ اچانک کیسے بدل گیا۔ اس سوال کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ پچھلے سال سے انڈیا اور چین کے بارڈر پر بھی تنائو ہے۔ اس صورت حال کا پاکستان کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ سی پیک کے خلاف انڈیا کے مذموم عزائم کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ انڈیا کے لیے دونوں جانب روزمرہ چھیڑ چھاڑ نقصان دہ ہے۔دو مکھی لڑائی لڑنے سے بہتر ہوتا ہے کہ پوری توجہ ایک ہی فرنٹ پر مرکوز رکھی جائے۔
دوسری جانب واشنگٹن میں حکومت بدلی ہے لیکن صدر بائیڈن کی انڈیا اور چین کے بارے میں پالیسی وہی رہے گی امریکہ کے نئے صدر کی شخصیت اپنے پیش رو سے بہت مختلف ہے۔ ان کی شخصیت میں ٹھہرائو ہے اور عالمی منظر نامے کا وہ بہتر ادراک رکھتے ہیں، نئی امریکی قیادت کو اس بات کا واضح شعور ہے کہ انڈیا اگر چین اور پاکستان دونوں سے تنائو بڑھاتا جائے گا تو خطے میں امریکی اہداف کو نقصان کا خدشہ ہوگا۔ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے بارے میں سب سے پہلے بیان واشنگٹن سے آیا جس میں اس اقدام کی تعریف کی گئی اور ساتھ ہی کہا گیا کہ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کریں لیکن اس بیان کو امریکہ کے مؤقف میں کسی بڑی تبدیلی پر محمول کرنا غلط ہوگا۔ بات صرف اتنی ہے کہ امریکی سٹریٹجک سوچ یہ ہے کہ پاکستان اپنی تمام تر توجہ افغانستان میں امن پر مرکوز رکھے جبکہ انڈیا یکسوئی کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنے میں ممد و معاون ہو۔
چھوٹا سا پہاڑی ملک نیپال انڈیا اور چین کے درمیان واقع ہے۔ آبادی کی اکثریت ہندو ہے۔ روایتی طور پر یہاں ہندو راجپوت بالادست رہے ہیں اور ان کی انڈیا میں رشتہ داریاں ہیں۔ نیپالی بغیر ویزا کے انڈیا آ جا سکتے ہیں۔ نیپال کا ریاستی مذہب بھی ہندومت رہا ہے۔ 2004ء میں مجھے سرکاری کام سے نیپال جانے کا اتفاق ہوا۔ ضمیر اکرم ان دنوں وہاں ہمارے سفیر تھے۔ سفیر صاحب نے کھانے کی دعوت دی اور وہاں چیدہ چیدہ نیپالی بھی مدعو تھے۔ ایک کہنہ مشق نیپالی جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ پاک ہند تعلقات کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں سارک سمٹ ہو چکی تھی، جس میں وزیراعظم واجپائی بھی آئے تھے؛ چنانچہ میرا جواب تھا کہ مجھے پاک ہند تعلقات میں بہتری نظر آ رہی ہے اور قرائن بتا رہے ہیں کہ برصغیر میں امن قائم ہو گا، انڈیا اب پاکستان کے ساتھ دوستی پر آمادہ نظر آتا ہے۔ نیپالی صحافی کی رائے مختلف تھی اور اس کا استدلال تھا کہ نیپال دنیا کا اکلوتا ملک ہے جہاں ہندو ازم سرکاری مذہب ہے، مگر نیپال اور انڈیا کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں‘ اول تو انڈیا پاکستان کے ساتھ دوستی کر ہی نہیں سکتا اور اگر کرے گا تو اپنی شرائط پر یعنی ایک تابع فرمان پاکستان ہی انڈیا کے لیے قابل قبول ہو گا۔
بات اس تجربہ کار صحافی کی درست تھی۔ نیپال کی ساٹھ فیصد درآمدات انڈیا سے آتی ہیں۔ نیپال کے جنوبی حصے میں ایک دو لسانی اقلیتیں ایسی آباد ہیں جو انڈیا میں بھی رہتی ہیں۔ چند سال پہلے نیپال نے نیا آئین بنایا تو انڈیا نے ان اقلیتوں کے حقوق کی بات کی۔ نیپالی حکومت نے انڈین ڈیمانڈ قبول نہ کی تو انڈیا نے مہینوں بارڈر بند کئے رکھا۔ نیپال اب چین کی جانب زیادہ مائل ہے۔ آٹھ سو کلو میٹر لمبی سڑک سے نیپال اور تبت کو منسلک کر دیا گیا ہے اور اب ریلوے لائن بچھانے کی بات ہو رہی ہے۔
انڈیا اور سری لنکا کے تعلقات بھی بڑے دلچسپ ہیں۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے سری لنکا اپنے بڑے ہمسائے کے لیے نہایت اہم ہے۔ تجارت کے لحاظ سے سری لنکا کے لیے انڈیا ٹاپ پر ہے‘ جبکہ سرمایہ کاری کے اعتبار سے چین نے نمبر ون پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ تامل لوگ انڈیا میں بھی رہتے ہیں اور سری لنکا میں بھی۔ ماضی قریب سے بحر ہند میں انڈیا اور چائنا کے مابین مقابلے کی سی کیفیت ہے۔ سری لنکا اور چائنا کے درمیان بندرگاہوں اور نیوی سے متعلق تعاون بڑھا ہے۔ سری لنکا نے اکثر محسوس کیا ہے کہ انڈیا اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور اسی وجہ سے وہاں انڈیا سے متعلق محبت اور نفرت کے ملے جلے جذبات رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب راجیو گاندھی بطور وزیراعظم کولمبو سرکاری دورے پر گئے تھے تو گارڈ آف آنر کی تقریب کے دوران ایک سری لنکن سپاہی نے انہیں بندوق کا بٹ مارا تھا۔ پچھلے سال چائنا کی ایک آبدوز کولمبو میں لنگر انداز ہوئی تو انڈیا کو شک گزرا کہ سری لنکا چینی نیوی کو اتنی سہولتیں دے رہا ہے کہ چین کے لیے انڈین نیوی کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ممکن ہو جائے گا۔ چنانچہ انڈین نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول بھاگے بھاگے کولمبو گئے۔
سری لنکا پچھلے چند سالوں سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ اقتصادی صورت حال اتنی اچھی نہیں ہے۔ چین نے پانچ سو ملین ڈالر کا قرضہ دیا ہے، اب انڈیا کیوں پیچھے رہتا اس نے بھی 450 ملین ڈالر کا ایکسپورٹ کریڈٹ دیا ہے، جس میں شرط یہ ہے کہ اس پیسے سے انڈین مال امپورٹ کیا جائے گا۔
سری لنکا میں انڈیا اور چائنا کا مقابلہ جاری ہے۔ خواہش تو تھی کہ برما (میانمار) اور بنگلہ دیش کے حوالے سے بھی بات کی جائے کہ دونوں انڈیا کے اہم ہمسائے ہیں، لیکن کالم کی سپیس ختم ہو رہی ہے۔ چلیں پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں