"JDC" (space) message & send to 7575

فوڈ سکیورٹی

کئی ہفتوں سے سوچ رہا تھا کہ فوڈ سکیورٹی کے گمبھیر مسئلے پر لکھوں لیکن کبھی کوئی مصروفیت آڑے آئی تو کبھی کوئی ارجنٹ موضوع ذہن میں آ گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سنجیدہ موضوعات پر لکھنے سے پہلے تھوڑی ریسرچ درکار ہوتی ہے‘ کچھ پڑھنا پڑتا ہے لہٰذا دل کرتا ہے کہ کسی برمحل اور دلچسپ موضوع پر لکھ دیا جائے کہ ایسے موضوعات پر مواد بروقت پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر دستیاب ہوتا ہے۔ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ صرف آج کے پاکستانی شہری کا مسئلہ نہیں‘ صاف نظر آ رہا ہے کہ آئندہ یہ ہمارے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کا غذائی مواد درآمد کیا۔ اس میں سب سے بڑا آئٹم خوردنی تیل تھا۔ آٹھ ارب ڈالر کی غذائی درآمدات ایک ریکارڈ ہے یعنی گزشتہ 74 سال میں ہم نے کبھی غذائی درآمدات پر اتنا زرمبادلہ صرف نہیں کیا۔ اس سے ہمارا تجارتی خسارہ مزید بڑھا ہے۔ گزشتہ سال ہمیں گندم بھی امپورٹ کرنا پڑی اور پاکستان کی ادا کردہ قیمت ایک ارب گیارہ کروڑ ڈالر کے برابر تھی۔ دیگر اہم درآمدات چینی، چائے، دالیں اور مصالحہ جات تھے۔
میں زرعی ماہر نہیں ہوں لیکن اتنی بڑی مقدار میں فوڈ آئٹمز درآمد کرنے کی بڑی وجہ آبادی کا سیلاب ہے۔ بنگلہ دیش اور ایران نے آبادی کو بڑی حد تک کنٹرول کر لیا ہے۔ وہاں اس کام میں علمائے کرام نے بھی اہم رول ادا کیا لیکن ہم ہیں کہ نورِ نظر اور لختِ جگر پیدا کئے جا رہے ہیں۔ عرصہ ہوا مشہور انگریز ماہر معاشیات تھامس مالتھس نے آبادی کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی لیکن ہم نے مالتھس کے نظریے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا حالانکہ عقل مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ آبادی کے بپھرے ہوئے سیلاب کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں پچاس فیصد سے کچھ زائد آبادی قوت بخش متوازن غذا خریدنے کی سکت کھو چکی ہے۔ ایک بچے کو اپنے طبعی قد تک پہنچنے کیلئے اناج، لحمیات، دودھ، سبزیاں، پھل روزانہ درکار ہوتے ہیں اور یہ عمل اٹھارہ سال تک جاری رہنا چاہیے۔ آج کے اگر ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو اس سے زیادہ لاغر اور پستہ قد ہیں۔ اس میں وہ کمزور بچیاں بھی شامل ہیں جو آئندہ چند سالوں میں مزید لاغر بچوں کو جنم دیں گی۔ کیا یہ نصف آبادی ہماری اقتصادی ترقی کے سفر میں کوئی فعال کردار ادا کر سکے گی؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری پچھلے سال کی گندم کی فصل شاندار رہی لیکن پھر بھی ہم گندم امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: ایک ‘ ذخیرہ اندوزی اور دوسری‘ مغرب کی جانب دو ہمسایہ ممالک کو سمگلنگ۔ اس کے علاوہ زرعی ریسرچ کیلئے وسائل کم ہیں۔ انڈین پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار اچھی خاصی ہے اور اس کی بڑی وجہ گندم کے نت نئے بیجوں کی دریافت ہے۔ زراعت اور پانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ہمارے ہاں پانی ایک زمانے میں وافر ہوتا تھا لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب روایتی طریقوں سے آبپاشی کرنا درست نہیں رہا مگر پانی کے استعمال میں ہمارے اللے تللے جاری ہیں۔ انگریز نے پنجاب پر کل 98 سال حکومت کی اور یہاں دنیا کا وسیع ترین نہری نظام بنا دیا۔ ہم نے 1947ء کے بعد سے اب تک کتنی نئی نہروں کا اضافہ کیا ہے؟
موجودہ اور گزشتہ حکومتوں کو خوراک کی کمی اور غریب طبقے کو درپیش مسائل کا ادراک رہا ہے۔ کسی حکومت نے سستی روٹی سکیم سے مسئلے کو حل کرنے کا سوچا تو موجودہ حکومت پناہ گاہیں اور لنگرخانے کھول کر اپنی غریب دوستی کا ثبوت دینے کی کوشش کر رہی ہے‘ یہ اقدام نیک نیتی پر مبنی ہیں لیکن ڈنگ ٹپائو قسم کے ہیں۔ مسئلے کا دائمی حل نہیں ہیں۔ پاکستان کے خوراک کے مسئلے کی ایک بڑی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اشرافیہ کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ کھا کھا کر موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ نصف آبادی کیلئے دو وقت کی دال روٹی بھی مشکل ہوگئی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے؛ چنانچہ 2011ء میں فیڈرل وزارت زراعت کا نام تبدیل کرکے منسٹری آف نیشنل فوڈ سکیورٹی اور ریسرچ رکھ دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے آخری نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی 2018ء میں ریٹائرڈ فیڈرل سیکرٹری سیرت اصغر کی سربراہی میں ترتیب دی گئی تھی۔ اس پالیسی کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو تمام مسئلے کا اچھی طرح ادراک ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ؎
وصال یار سے دونا ہوا عشق/ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اور یہ بھی اٹھارہویں ترمیم کا اعجاز ہے کہ سندھ اور پنجاب میں گندم کی سرکاری قیمت مختلف ہے۔ پنجاب میں حکومت 1800 روپے من گندم خرید رہی ہے تو سندھ میں سرکار کسان کو ایک من کے دو ہزار روپے دے رہی ہے جبکہ عالمی منڈی سے درآمد کردہ گندم حکومت کو 2500 روپے فی من پڑرہی ہے لہٰذا حکومت کو درآمد شدہ گندم پر اچھی خاصی سبسڈی دینا پڑتی ہے۔
ماہرین کی رائے میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ گندم کی سپورٹ پرائس بڑھا کر پورے ملک میں یکساں کر دی جائے یعنی پنجاب میں بھی حکومت کسان کو دو ہزار روپے فی من ادا کرے، اس سے کسان کا بھلا ہو گا اور گندم کی پیداوار بھی بڑھے گی، لیکن یہ فیصلہ فی الفور کرنے والا ہے کیونکہ نومبر میں گندم کی بوائی ہونے والی ہے اور اس صورت میں ہمیں شاید باہر سے گندم درآمد نہ کرنی پڑے اور قیمتی زر مبادلہ بچ جائے۔ ویسے بھی روپے کی قدر میں گراوٹ اور شپنگ مہنگی ہونے کی وجہ سے آئندہ درآمد کردہ گندم اور مہنگی پڑے گی۔ بناسپتی گھی کی قلابے لگاتی قیمتوں کی بڑی وجہ بھی روپے کی گرتی ہوئی قدر ہے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ گندم کی سمگلنگ کو کیسے روکا جائے۔ پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا کام بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہے لہٰذا بارڈر پر سمگلنگ روکنا اب چنداں مشکل نہیں رہا۔ ہمیں دونوں ہمسایہ ممالک کے تاجروں کو واشگاف الفاظ میں بتا دینا چاہیے کہ پاکستان سے گندم اب عالمی قیمت پر ہی ملے گی۔ اس طرح ہم گندم کی برآمد سے خاطر خواہ منافع حاصل کر سکتے ہیں۔ اس حاصل کردہ منافع کا ایک اچھا صرف یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پاکستان کابل سرکار کو گندم رعایتی قیمت پر دے جو صرف افغانستان کے غریب عوام کے لیے مختص ہو۔
میری گندم کی سپورٹ پرائس بڑھانے کی تجویز سے روٹی کی قیمت بڑھ سکتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ غریب طبقے کو یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے وافر مقدار میں سستا آٹا فراہم کیا جائے۔ ہر غریب خاندان کیلئے آٹے کی خریداری کی ایک حد مقرر ہو اور اس کیلئے باقاعدہ راشن کارڈ ایشو کیے جائیں تاکہ اس سہولت کا غلط استعمال کم سے کم ہو۔ ہمارے شادی ہالز اور اشرافیہ کی پارٹیوں میں خوراک کا بے حد ضیاع ہوتا ہے۔ کیا ہم یہ کھانا غربا میں تقسیم نہیں کر سکتے؟ کیا ہم مکران کوسٹ پر پام آئل کے باغات نہیں لگا سکتے؟ مانسہرہ میں چائے کاشت کرنے کا کیا ہوا؟ ہمارے سابقہ قبائلی علاقے اور پوٹھوہار زیتون کی کاشت کیلئے نہایت موزوں ہیں۔ ہمارے ہاں فیصل آباد، ملتان اور لاہور کے مضافات میں ہر سال ہزاروں ایکڑ زرخیز زرعی زمین ہائوسنگ کالونیوں کی نذر ہو رہی ہے اور بزدار سرکار سو رہی ہے۔
پاپولیشن پلاننگ میں ہمارے ہاں صرف صدر ایوب خان کے زمانے میں زوروشور سے کام ہوا۔ بینظیر بھٹو کے دور میں اس محکمہ کو پھر سے فعال کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری آبادی کی شرح نمو پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ فی کس سالانہ آمدنی اب بنگلہ دیش میں پاکستان سے زیادہ ہے، کیا ہم اب بھی نہیں جاگیں گے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں