"JDC" (space) message & send to 7575

FATF اور پاکستان

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فیٹف (FATF) ہے کیا‘ یہ کیا کرتا ہے اور اسے بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ گلوبلائزیشن (Globalization)کے عمل کو سمجھ لیا جائے۔ یوں تو گلوبلائزیشن کا عمل کافی عرصے سے جاری ہے لیکن اس میں تیزی پچھلے چالیس‘ پچاس سال سے آئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل ذرائع مواصلات نے بہت ترقی کی ہے‘ اب دنیا میں کسی بھی شخص یا تجارتی پارٹنر سے وڈیو گفتگو کرنا مشکل نہیں رہا لہٰذا بے شمار امریکن اور یورپی کمپنیاں اپنا مال ترقی پذیر ممالک میں تیار کرواتی ہیں کیونکہ ان ممالک میں لیبر سستی ہے اور ہزاروں میل دور سے کوالٹی کنٹرول کرنا بھی ممکن ہو چکا ہے۔ نائکی (Nike) امریکن کمپنی ہے لیکن اُس کے جوتے عموماً ایشیا کے ممالک میں بنتے ہیں‘ ایپل (Apple) بھی امریکی کمپنی ہے لیکن اس کے بیشتر پرزے چین میں بنتے ہیں۔
مواصلات اور ٹیکنالوجی میں حیران کن ترقی سے کرنسی یا سرمائے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی بھی بے حد آسان ہو گئی ہے۔ آج کی دنیا میں بے شمار کام آؤٹ سورسنگ سے ہو رہے ہیں اس طرح ان کاموں کے لیے ادائیگیاں بھی بینکوں کے ذریعے برق رفتاری سے ہوتی ہیں‘ بینکوں کے علاوہ بے شمار انٹرنیشنل کمپنیاں ہیں جو صرف رقوم کی ٹرانسفر کا کام کرتی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند عشرے پہلے فارن ایکسچینج باہر بھیجنے کے لیے سو جتن کرنا پڑتے تھے۔ اب وہ بات نہیں رہی اور جب سرمائے کی اتنے بڑے پیمانے پر روزانہ منتقلی ہو رہی ہو تو اس میں بے قاعدگیاں بھی ہو سکتی ہیں‘ لہٰذا ضروری تھا کہ قاعدے قوانین بنا کر انہیں نافذ بھی کیا جائے۔ اس مقصد سے 1989ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی FATFبنائی گئی جس کے اس وقت 37ممالک اور دو بین الاقوامی تنظیمیں ممبر ہیں۔ اس بین الاقوامی تنظیم کا ہیڈ کوارٹر فرانس میں ہے اور اس کا بنیادی کام منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کو روکنا ہے۔
پاکستان کے دوست ممالک میں سے چین‘ ترکی‘ سعودی عرب اور ملائیشیا فیٹف کے ممبر ہیں۔ پاکستان جون 2018ء میں فیٹف کی گرے لسٹ میں آیا‘ اُس وقت ہمارے ہاں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے گرے لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ اب آپ کے اکاؤنٹ میں باہر سے چند ڈالر بھی جائیں تو بینک والے پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہیں اور کس مقصد کے لیے آئے ہیں۔ ٹی ٹی پی‘ لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں پر پابندی لگی‘ تمام بینکوں اور رقوم کی ٹرانسفر پر سٹیٹ بینک نے کڑی نظر رکھی۔ فیٹف کے ہر اجلاس کے بعد پاکستان کو کہا گیا کہ آپ نے 27میں سے 26نکات پر عمل کر لیا ہے بس ایک پوائنٹ باقی رہ گیا ہے یہ ہم اگلے اجلاس میں دیکھیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ فیٹف ایک ٹیکنیکل تنظیم ہے یعنی اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن حقیقت کچھ اور بھی ہے۔ اس تنظیم پر مغربی ممالک کا غلبہ ہے۔ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف یا فیٹف‘ یہ سارے ادارے مغربی ممالک کے زیر اثر ہیں اور بھارت بھی ان کے فیصلوں پر خاصا اثر انداز ہوتا ہے۔اسی تنظیم کا ایشیا پیسفک گروپ (APG) بڑی حد تک بھارت کی گرفت میں ہے۔اس وقت چین کو محدود کرنے کے لیے مغربی ممالک کو بھارتی معاونت کی ضرورت ہے‘ لہٰذا وہ فیٹف میں اکثر بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ جب بھی پاکستان کے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن ہونے لگتے ہیں بھارت شور مچا دیتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے‘ پاکستان وضاحتیں دیتا رہ جاتا ہے لیکن بھارت کی بات مانتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ کچھ اور انتظار کرو۔
پاکستان کی کیفت بد سے بدنام بُرا والی ہے۔ منی لانڈرنگ ایک زمانے میں یقینا ہمارے ہاں ہوتی تھی۔ ایان علی کا نام اب بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ ایسے لوگ منی لانڈرنگ کے لیے کارندوں کا کام کرتے تھے‘ اُن سے کام لینے والے کوئی اور لوگ ہوتے تھے۔ دہشت گردی ہمارے خطے میں بھی ہوتی تھی اور پاکستان خود بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ 2008ء میں ممبئی میں حملے ہوئے تو بھارتی انگلیاں ہماری جانب اٹھیں۔ اس ساری صورت حال کو بھارت نے اپنے پاکستان مخالف دلائل کیلئے استعمال کیا۔
عالمی طور پاکستانی بینکوں پر کافی عرصے سے نظر رکھی جا رہی ہے۔ 2017ء میں ایک پاکستانی بینک کو نیو یارک میں اپنی برانچ بند کرنا پڑی‘ الزام منی لانڈرنگ کا ہی تھا۔ اس سے مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ ہمارے بینکوں کے قوانین مضحکہ خیز حد تک سخت ہوتے گئے۔ چند سال پہلے مجھے خود ایک عجیب صورتحال سے گزرنا پڑا‘ ایک بینک نے میرا اکاؤنٹ کھولنے سے معذرت کرلی ا ور عذر یہ تھا کہ آپ سینئر افسر رہے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں لہٰذا آپ Politically exposed لوگوں میں شمار ہوں گے۔ چند ماہ بعد اسی بینک کا فون آیا کہ اب ہم نے چھان بین کر لی ہے۔ آپ سیاسی طور پر کلیئر ہیں لہٰذا اکاؤنٹ کھل سکتا ہے۔
اس دفعہ برلن میں ہونے والے اجلاس میں فیٹف والوں کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سارے ٹیسٹ تو پاس کر لیے ہیں لیکن ہم فائنل تسلی کے لیے ایک بار پاکستان ضرور آئیں گے۔ بقول وزیراعظم شہباز شریف انٹرنیشنل ادارے پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے لیکن وہ بھی سو فیصد اعتماد کیسے کریں جبکہ ہمارے کئی سیاسی قائدین پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اتنا بے تاب کیوں ہے تو جواب یہ ہے کہ سفید لسٹ میں آنے سے ہماری انٹرنیشنل ریٹنگ بہتر ہوگی‘ بین الاقوامی اداروں سے ڈیل کرنے میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی اور چونکہ ہمارا فی الحال کشکول چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں اس لیے ہم ایک عرصے تک بین الاقوامی مالی اداروں کے پاس جاتے رہیں گے‘ لہٰذا ہماری شہرت زیادہ خراب نہیں ہونی چاہیے کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک ہمیں غیر ذمہ دار لوگ سمجھ کر مزید قرض سے معذرت کر لیں۔ اس وقت بلیک لسٹ میں تیرہ ملک شامل ہیں جن میں شام اور یمن جیسے جنگ زدہ ممالک ہیں۔
فیٹف گروپ آف سیون (G-7) ممالک کی ایجاد تھی جنہیں ڈر تھا کہ ڈھیلے ڈھالے بینکاری نظام اور ہنڈی حوالہ کے عام استعمال سے رقوم کی نقل و حرکت کا حساب رکھنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے اور اس میں سے رقوم آسانی سے دہشت گرد تنظیموں کو منتقل ہو سکتی ہیں لہٰذا فیٹف نے شرط لگائی کہ فنانشل لین دین کا دستاویزی ثبوت ضروری ہے۔منی لارنڈنگ کا دھندہ اس سے بھی خطرناک ہے۔ کالا دھن مثلاً رشوت یا سمگلنگ کا پیسہ اکٹھا کر کے اُس سے غیر ملکی کرنسی خریدی جاتی ہے پھر وہ کرنسی غیر قانونی طریقے سے باہر بھجوائی جاتی ہے۔ وہاں وہ کسی بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے اور بالکل قانونی طریقے سے کسی فارن کرنسی اکاؤنٹ میں دھلی دھلائی واپس آ جاتی ہے‘ باہر اکاؤنٹ کھولنے کے لیے اقامہ درکار ہوتا ہے‘ لہٰذا ہماری اشرافیہ کے کچھ اقامے چند سال پہلے دریافت ہوئے تھے۔ فارن کرنسی اکاؤنٹ پر کوئی انکم ٹیکس بھی نہیں‘ لہٰذا کرپٹ اشرافیہ کے مزے ہی مزے۔
خدا کرے کہ اکتوبر میں ہم گرے لسٹ سے نکل آئیں‘ اپنے بینکاری سسٹم کو ٹائٹ رکھیں‘ فارن کرنسی کی بلیک مارکیٹ کو ختم کریں‘ اپنی غیر رسمی (informal)معیشت کو کنٹرول کریں‘ ہر مالی لین دین کا دستاویزی پروف رکھیں تاکہ فیٹف ہم پر انگلی دوبارہ نہ اٹھا سکے۔ معاصر کالم نگار حبیب اکرم نے اسی مضمون پر طبع آزمائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ماضی سے نہ سیکھنا ہمارا امتیاز ہے۔ خدا کرے کہ اُن کا سوئے ظن غلط نکلے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں