"JDC" (space) message & send to 7575

گزارہ مشکل ہے

''گزارہ مشکل ہے‘‘ آج کل یہ جملہ پاکستان کے طول و عرض میں گونج رہا ہے۔ شرفا کو گلہ ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت اور بدتمیزی فروغ پا رہی ہے۔ حفظِ مراتب والی بات اب قصۂ پارینہ ہو چکی۔ اس روّیے کا اظہار ہم شام کو ہونے والے ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھتے رہتے ہیں۔ اب لوگ انہیں باتونی دنگل کہنے لگے ہیں۔ ایسے سماجی رویوں میں شریف آدمی اور خاص طور پر بزرگوں کا گزارہ واقعی مشکل ہے۔لیکن اس کالم کا فوکس قائم رکھنے لیے ہم صرف غریب عوام اور لوئر مڈل کلاس کے مالی مسائل کا ذکر کریں گے‘ جو بہت گمبھیر ہو چکے ہیں۔ ایک زمانے میں غریب لوگ کہتے تھے کہ گوشت کھانا ہماری قوتِ خرید سے باہر ہے‘ اب ان کے لیے دالیں کھانا بھی مشکل ہو رہا ہے اور کوکنگ آئل کی قیمتیں تو جیسے آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ملک کی 25فیصد آبادی کو خوراک کے مطلوبہ حرارے نہیں مل رہے۔ وہ مزدور جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتا وہ قومی اقتصادی ترقی میں حصہ کیسے ڈالے گا؟ بیچارہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بادلِ نخواستہ کام کرتا ہے یا ٹھیکیدار کی جھاڑ سے بچنے کے لیے۔ ہم سڑک پر جا رہے ہوتے ہیں تو ہر ٹریفک لائٹ پر بھکاری لپکتے ہیں۔ سیر کے لیے نکلتے ہیں تو کچرے کے ڈھیروں سے لوگ رزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ بھٹو صاحب نے 1970ء کے الیکشن میں لگایا تھا لوگوں نے پیپلز پارٹی کو دل کھول کر ووٹ دیے۔ پیپلز پارٹی کے متعدد غیر معروف امیدوار کامیاب ہوئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی ایک کمرے کے گھر میں رہتی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ میاں‘ بیوی اور بچے ایک کمرے میں گزارہ کرنے پر مجبور ہیں اور ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پورے ملک میں شہید بے نظیر آباد ضلع اس ضمن میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس ضلع کا اصل نام نواب شاہ ہے اور یہ آصف زرداری کا آبائی ضلع ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس ضلع میں 78 فیصدلوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں‘ یہ معلومات سرکاری ادارہ ٔشماریات کی ہیں۔ زرداری صاحب کے پاس کراچی‘ لاہور اور دبئی میں شاندار گھر ہیں۔ لاہور کا بلاول ہاؤس قلعے کی مانند ہے۔ دبئی والے گھر کی شان و شوکت سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ تو میڈیا میں شور مچ گیا ورنہ سرے محل بھی آج انہی کے پاس ہوتا۔
غربت میں اضافے کی ایک وجہ غیر فعال فیملی پلاننگ پروگرام بھی ہے۔ بنگلہ دیش کی فی کس اوسط آمدن آج پاکستان سے زیادہ ہے اور وجہ یہ ہے کہ ان کی آبادی اب ہم سے کم ہے۔ پچاس سال پہلے صورتحال بالکل مختلف تھی‘ بنگالی بھائی عرصۂ قدیم سے سوچ بچار کرنے والے لوگ مانے جاتے تھے۔پاپولیشن پلاننگ ایکسپرٹ پچھلے بیس سال سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بڑھ رہا ہے اور یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ آبادی کے اس حصہ کو Youth Bulge کہا جاتا ہے۔ خیال یہ تھا کہ یہ پڑھے لکھے نوجوان قومی ترقی کا ہر اول دستہ ثابت ہوں گے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ نوجوان طبقے کی صلاحیتوں سے ہم پورا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بڑی وجہ اچھی پلاننگ کا فقدان ہے۔ ہم اس طبقے کو عام تعلیم یعنی ایف اے‘ بی اے کراتے رہے۔ ووکیشنل تعلیم ہمارے ہاں وہ توجہ حاصل نہیں کر پائی جس کی وہ حقدار تھی۔ آج پلمبر‘ الیکٹریشن‘ موٹر مکینک اچھے خاصے پیسے کما لیتے ہیں جبکہ ہمارے ایف اے‘ بی اے پاس نوجوان سرکاری کلرکی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ نوجوان جوگریجوایشن کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کے کام میں کچھ مہارت حاصل کر لیتے ہیں وہ مغربی کمپنیوں کے لیے آؤٹ سورسنگ کے ذریعے گھر بیٹھے کام کر کے اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ ووکیشنل تعلیم کے اداروں کے ذریعے ایسے نوجوانوں کی تعداد میں کافی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم میں بھارت ہم سے آگے ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکمرانی قائم ہے‘ اس پارٹی کی عمومی سوچ دوسری پارٹیوں سے مختلف ہے۔ دہلی کے سکولوں اور کالجوں میں اب ایسی تربیت بھی دی جا رہی ہے کہ طالب علم فارغ التحصیل ہو کر اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکیں اور اب کمپیوٹر کی وجہ سے کئی نئے کام شروع ہو گئے ہیں۔
ہمارا ٹیکس نظام چھوٹے بزنس کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔ میرا کار مکینک اچھا پڑھا لکھا اور سمجھدار شخص ہے۔ عمر تقریباً چالیس سال کے آس پاس ہے۔ ایک بڑی کار کمپنی میں چند سال کار مکینک کا کام کیا اور پھر اپنی ورکشاپ بنالی۔ میں پچھلے ہفتے اس کے پاس گیا تو پہلی مرتبہ میں نے اسے حکومت کے ضمن میں گلے شکوے کرتے سنا۔ وہ عمومی طور پر رجائیت پسند ہے اور خوش رہتا ہے۔ ذاتی کاروبار کی وجہ سے آمدنی بھی معقول ہے۔ اس مرتبہ کہہ رہا تھا کہ بجلی کا بل بہت زیادہ آیا ہے‘ حکومت نہیں چاہتی کہ ہم جیسے چھوٹے کاروبار والے لوگ کام کریں۔ گھر آیا تو کام کرنے والی خاتون یہی رونا رو رہی تھی کہ دو کمروں کے گھر کا بل بارہ ہزار آیا ہے۔ سب لوگوں کا خیال ہے کہ ہم بجلی چوروں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
بجلی کا ایک حالیہ بل میرے سامنے ہے۔ اس میں تقریباً 45 فیصد ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ سب سے بڑا ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا ہے‘ پھر ایف سی سرچارج ہے‘ دو طرح کے جنرل سیلز ٹیکس ہیں اور پھر ٹی وی کا جگا ٹیکس ہے جو پرویز مشرف کے زمانے میں بجلی بل میں شامل ہوا تھا۔ ٹوٹل چھ قسم کے ٹیکس اور سرچارج ہیں۔ گویا غریب آدمی کے لیے اب بجلی پہنچ سے باہر ہے۔ یہ بڑے بڑے بل بزنس اور انڈسٹری کی بھی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ مگر صاحبِ اقتدار طبقے اور اشرافیہ کے اب بھی مزے ہیں۔ وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ ایک طرف ہزاروں ایکڑ والے وڈیرے ہیں تو دوسری جانب بے زمین ہاری ہیں۔ ایک طرف جاتی امرا‘ بنی گالا اور بلاول ہاؤس جیسے محلات ہیں تو دوسری جانب ایک کمرے میں رہائش پذیر 25 فیصد آبادی۔
پاکستان میں ہر سال جاب مارکیٹ میں 35 لاکھ نئے نوجوان آتے ہیں۔ ان کو جاب تبھی مل سکتی ہے اگر ہماری سالانہ شرحِ نمو 8 فیصد ہو جبکہ ہماری شرحِ نمو تو اس سے آدھی ہے۔ بھارت کی قومی بچت کی شرح ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارت بے شمار چیزیں خود پیدا اور برآمد کرتا ہے جبکہ ہم صارفین کا معاشرہ بن چکے ہیں۔ جس کاغذ پر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں وہ بھی امپورٹڈ ہے۔ ہماری کاریں باہر سے آتی ہیں جو اسیمبل پاکستان میں ہوتی ہیں۔ ان کے بیشتر پرزے باہر سے آتے ہیں۔ جنوبی کوریا نے کاریں اور الیکٹرانکس اشیا بنانا ہمارے سامنے شروع کیا تھا اور آج وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
چین‘ بھارت اور بنگلہ دیش میں غربت کم ہو رہی ہے مگر ہمارے ہاں بڑھ رہی ہے۔ غربت کم کرنے کیلئے زیرک اور بے لوث قیادت کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ لمبی مدت کی پلاننگ ہماری اولین حاجت ہے۔ ہمارے ہاں ہر نئی حکومت دو باتیں ضرور کرتی ہے: اول یہ کہ تمام خرابی گزشتہ حکومت کی وجہ سے ہے‘ دوم یہ کہ ہم کشکول کو توڑ دیں گے۔ عمران خان سے بھی ہم نے غیرت کے بے شمار بھاشن سنے لیکن کیا ہم جان سکتے ہیں کہ اپنے دورِ حکومت میں کشکول توڑنے کیلئے پی ٹی آئی نے کون سے عملی اقدامات کیے؟ جس انسان کا گزارہ مشکل سے چلتا ہو وہ غیرت مند بننے کی کوشش بھی کرے تو ناکام ہوگا۔
اشرافیہ سے پورا ٹیکس وصول کریں‘ پورے ملک میں سولر بجلی کا جال بچھا کر فرنس آئل امپورٹ کم کریں۔ غریب بچوں کو ووکیشنل تعلیم مفت دیں تاکہ ان کا گزارہ قدرے آسان ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں