"JDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا دورۂ قطر

وزیراعظم شہباز شریف قطر کا خاصا کامیاب دورہ کرکے آئے ہیں۔ کسی بھی سرکاری دورے کی حتمی کامیابی جانچنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ ایسے دوروں میں عام طور پر دو طرح کے معاہدوں پر دستخط ہوتے ہیں ایک ٹھوس معاہدے ہوتے ہیں جن کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ ٹائم فریم لکھ دیا جاتا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد یہ نافذ العمل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی تکمیل میں بھی وقت لگتا ہے۔ دوسری طرز کے معاہدے مفاہمت کی یادداشت ہوتے ہیں جو دورے کی کامیابی دکھانے کے لیے سائن تو کر لیے جاتے ہیں لیکن میں نے اُن پر عمل ہوتے کم کم ہی دیکھا ہے۔
البتہ اس دورے پر غور کیا جائے تو یہ نوّے فیصد اقتصادی نوعیت کا تھا اور بات چیت ساری کی ساری اقتصادی اور تجارتی تعاون پر ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف ترقیاتی منصوبوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے دوطرفہ بات چیت میں ترقیاتی مقصدیت پیشِ نظر رہی۔ قطر سرمایہ کاری اتھارٹی کے سربراہ سے باثمر ملاقات رہی‘ تین ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان ہوا۔ اغلب گمان یہ ہے کہ دو ارب بیلنس آف پے منٹ سپورٹ کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس رکھوائے جائیں گے جبکہ ایک ارب کی براہ راست سرمایہ کاری ہوگی۔ انرجی‘ زراعت‘ سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں یہ ممکنہ سرمایہ کاری متوقع ہے۔ سٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر مرتضیٰ سیّد کا کہنا ہے کہ دو ارب ڈالر ایک سال کے عرصہ میں آئیں گے۔
قطر رقبے اور آبادی کے اعتبار سے چھوٹا ملک ہے لیکن وسائل سے مالا مال ہے اور اچھی قیادت کی وجہ سے ترقی بھی خوب ہوئی ہے۔ میں دو مرتبہ وہاں گیا ہوں‘ 2007ء میں الجزیرہ ٹی وی چینل میں ملاقات تھی اور اگست 2018ء میں العربی چینل والوں نے پاکستان میں الیکشن کے حوالے سے خصوصی پروگرام دوحہ میں کیا تھا۔ اس پروگرام کیلئے معروف عرب تجزیہ کار ڈاکٹر مروان قسام اور ڈاکٹر وائل عواد کو بھی بلایا گیا تھا۔ موخر الذکر شامی جرنلسٹ ہیں جو ایک عرصے سے دہلی میں مقیم ہیں۔ میں چونکہ پاکستان سے الیکشن کے فوراً بعد گیا تھا لہٰذا سب سے زیادہ سوال مجھ سے پوچھے گئے۔ دو دن وہاں رہ کر میں نے مشاہدہ کیا کہ وہاں خوب ترقی ہوئی ہے۔ آج فی کس آمدنی کے اعتبار سے قطر دنیا میں نمبر ایک ہے۔ دوحہ کی شاہراہوں پر جگہ جگہ امیر قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی کی تصویریں آویزاں تھیں اور اُن کی ثابت قدمی کو سلام لکھا ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب چند عرب ممالک نے قطر کا اقتصادی اور سفارتی بائیکاٹ کیا ہوا تھا لیکن تمام تر دباؤ کے باوجود قطر ثابت قدم رہا۔ قطر کے ایران‘ ترکی‘ پاکستان سب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ بھی تعلقات اب نارمل ہیں۔ حال ہی میں امیرِ قطر نے مصر کا دورہ کیا ہے۔ امریکہ کا قطرمیں ایئر بیس ہے۔ ترکی کا فوجی دستہ بھی وہاں موجود ہے۔ چین کے ساتھ بھی اس کی دوستی ہے۔ فلسطینی قطر کی اس لیے قدر کرتے ہیں کیونکہ اُس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور مسئلہ فلسطین پر اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے تو خارجہ پالیسی کے حوالے سے قطر اور پاکستان میں خاصی ہم آہنگی ہے۔
قطر میں اس وقت تقریباً دو لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ دوطرفہ تجارت دو ارب ڈالر کو چھو رہی ہے۔ پاکستانی کمیونٹی میں کئی بڑے کامیاب بزنس مین بھی ہیں۔ یادش بخیر احتساب بیورو کے سابق چیئرمین سیف الرحمن بھی دوحہ میں بزنس کر رہے ہیں اور بہت کامیاب ہیں۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ قطر نے پاکستان کو آفر دی ہے کہ نومبر میں ہونے والے فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کیلئے سکیورٹی فراہم کرنے کی غرض سے اپنا فوجی دستہ بھیجے۔ اس قسم کی درخواست ترکی‘ جنوبی کوریا اور نیٹو سے بھی کی گئی ہے۔ یہ امر قطری قیادت کا پاکستان پر اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ اتنے بڑے ایونٹ میں ہماری سکیورٹی فورسز ترکی‘ جنوبی کوریا اور نیٹو کے دستوں کے شانہ بشانہ فول پروف امن کو یقینی بنائیں گی۔ یہ سب ممالک ایک دوسرے کی مہارت سے بہت کچھ سیکھیں گے۔
سرمایہ کاری کیلئے دیگر شعبوں کے علاوہ سیاحت کا بھی انتخاب کیا گیا ہے۔ پاکستان اس شعبے میں وسیع امکانات رکھتا ہے۔ نائن الیون کے بعد عرب سیاح مغربی ممالک میں کم جانے لگے ہیں۔ مغربی ممالک کے بجائے اب وہ ترکی جاتے ہیں لیکن ترکی اور چند عرب ممالک کے مابین پچھلے چند سالوں میں خاصا تناؤ دیکھا گیا۔ پاکستان کے تمام عرب ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ ہمارا سوشل سیٹ اَپ اور کلچر عربوں کیلئے اجنبی نہیں‘ وہ پاکستان آ کر راحت محسوس کریں گے تو قطری سرمایہ کاری اتھارٹی کو تجویز دینی چاہیے کہ جھیل سیف الملوک کے کنارے ایک شاندار ہوٹل تعمیر کرائے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ سیدو شریف گلگت اور سکردو میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ بنائے اور سوات و دیگر شمالی علاقوں پر دہشت گردوں کا سایہ بھی نہ پڑنے دے۔
قطر پاکستان کا سب سے بڑا ایل این جی سپلائر ہے۔ 2016ء اور 2019ء کے معاہدوں کے مطابق قطر سے ہر ماہ نیچرل مائع گیس کے آٹھ کارگو شپ پاکستان بھجوائے جاتے ہیں۔ آئندہ موسم سرما میں پاکستان میں ڈیمانڈ اس سے زیادہ ہوگی لیکن میری رائے میں فی الحال ہمیں ایل این جی کا کوئی طویل مدت کا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے قیمتیں زیادہ ہیں۔ نیو یارک کا مشہور روزویلٹ ہوٹل پی آئی اے کی ملکیت ہے۔ اس کی نج کاری کی باتیں عرصے سے ہو رہی ہیں۔ اس دفعہ تجویز یہ تھی کہ اس ہوٹل کے 25 فیصد حصص قطر کو دے دیے جائیں۔ اسی طرح اسلام آباد اور کراچی ایئر پورٹس کا انتظام نجکاری کے ذریعے قطرکو دینے کی تجویز بھی ہے۔ اس قسم کے سودوں میں شفافیت ضروری ہے تاکہ حکومت پاکستان کو صحیح دام ملیں۔ میں اس میں ایک مزید اضافہ کروں گا کہ اتنے بڑے اثاثوں کی نجکاری میں احتیاط لازم ہے۔ ہمارے پاس قانون‘ مسابقت اور حساب کتاب کے شعبوں میں ٹیکنیکل لوگ موجود ہیں‘ وہ ان اثاثوں کی نجکاری کا مختلف زاویوں سے مطالعہ کریں اور حکومت کو صائب مشورہ دیں ورنہ اپوزیشن اور میڈیا کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہوگا۔
قطر اور دوسرے خلیجی ممالک کو غذائی قلت کا سامنا ایک زمانے میں ہوتا تھا۔ اب تو ان ممالک میں دنیا کے کونے کونے سے اچھی سے اچھی اشیائے خوردنی دستیاب ہیں۔ آپ کو ان ممالک میں موسم سرما میں گرم موسم کے تمام پھل اور سبزیاں سپر مارکیٹ میں ملتی ہیں جو آسٹریلیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ سے آتی ہیں‘ مگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی وجہ سے یہ اشیا بہت مہنگی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال درآمد کردہ حلال گوشت کی بھی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے قطر خطے کے زرعی ممالک میں زرخیز رقبے کی تلاش میں ہے جہاں زراعت بھی کی جائے اور مویشی بھی پالے جائیں۔ پاکستان کا جغرافیہ اور زمین اس لحاظ سے مناسب ہیں۔ دفاع اور سمندروں میں تجارتی جہازوں کی حفاظت بھی دونوں ممالک کی دلچسپی والے شعبے ہیں۔ چند ہفتے پہلے قطر کے ایئر چیف نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کی سوچ‘ خارجہ پالیسی اور مفادات خاصے یکساں ہیں۔ قطر ہمیشہ دشوار حالات میں اچھا دوست ثابت ہوا ہے۔ اس تعلق کو مزید فروغ دینا دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں اپوزیشن کو بھی بریف کرے لیکن ہمارے ہاں نیشنل ڈائیلاگ ہو ہی نہیں رہا تو ایسی صورت میں اداروں اور میڈیا کو بریف کر دیا جائے تاکہ اس اہم تعلق میں کسی ذاتی مفاد کے تاثر کی نفی ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں