"JDC" (space) message & send to 7575

دبئی کا سفر‘ چند تاثرات

پچھلے دنوں ایک سروے کیا گیا کہ لوگ دنیا کے کون سے شہروں میں جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پتا چلا کہ دنیا بھر میں سیاحوں کا سب سے زیادہ پسندیدہ شہر پیرس ہے اور دوسرے نمبر پر دبئی ہے۔ پیرس خوبصورت شہر ہے‘ اس کی شاندار تاریخ ہے اور شہر میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ فرانسیسی کلچر‘ کھانے اور مشروب اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں مگر دبئی میں ایسا کیا ہے جو اسے اس قدر مقبول بناتا ہے۔
1972ء میں متحدہ عرب امارات معرضِ وجود میں آیا تو پاکستان اسے تسلیم کرنے والا اولین ملک تھا۔ اس بات کی سمجھ اس حوالے سے بھی آتی ہے کہ اس زمانے میں خلیجی صاحبِ ثروت لوگوں کا پسندیدہ شہر کراچی تھا۔ خلیج تاجروں کے مکران ساحل کے تاجروں کے ساتھ قدیمی روابط تھے۔ بمبئی سے بحری جہاز چلتے تھے جو براستہ کراچی‘ گوادر‘ مسقط اور کویت سے ہوتے ہوئے بصرہ جاتے تھے۔ خلیج کے لوگ پاکستان کی جغرافیائی اور تجارتی اہمیت سے خوب واقف تھے۔ یہ اہمیت اب خاصی گہنا گئی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کی جانچ پڑتال بھی بڑے دقیق طریقے سے ہونے لگی ہے‘ اپنی اہمیت کم کرنے میں بڑا حصہ ہم نے خود ڈالا ہے۔
دبئی متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے ایک ہے۔ معدنی دولت کے اعتبار سے یہ ابوظہبی سے بہت پیچھے ہے لیکن پھر بھی لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں اور یہ شہر بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ہر رنگ‘ ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ یہاں کام کرتے ہیں اور سیاحت کی غرض سے بھی آتے ہیں۔ یہاں پر ہر طرح کی زبانیں‘ ہر قسم کا کلچر اور مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آتی ہیں۔ اس قدر تنوع دنیا کے کسی اور شہر میں شاید ہی پایا جاتا ہو۔ اس تنوع میں تازہ ترین اضافہ اسرائیلی لوگ ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ عرب امارات والے پاکستان کو رشک سے دیکھتے تھے۔ اب ہم امارات کو رشک اور حیرانی سے دیکھتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ سب سات ریاستوں میں حقیقی اتحاد کی برکت ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب دبئی اور شارجہ میں مخاصمت تھی۔ آج دونوں شیروشکر ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ آلِ نہیان اور آلِ مکتوم میں رنجشیں تھیں‘ آج ان کے درمیان اتحاد ہے‘ تعاون ہے۔ اس حقیقی اتحاد اور تعاون نے اس ملک کو نصف صدی میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
گڈ گورننس اور قانون کی حاکمیت یہاں کے اصول ہیں۔ تجارتی معاملات میں حکمران دخل نہیں دیتے۔ یہاں جلسے جلوس نہیں ہوتے‘ سیاسی جماعتیں وجود نہیں رکھتیں۔ عوام کی فلاح اور امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ میرٹ پر عمل کرکے یہاں کی ایئر لائن کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہماری قومی ایئر لائن اور یہاں کی ایئر لائن کے کرایوں میں بہت فرق ہے۔ ٹکٹ خریدنے سے پہلے میں ٹریول ایجنٹ سے پوچھتا ہوں کہ اس فرق کی وجہ کیا ہے‘ وہ جواب دیتا ہے: سر اماراتی ایئر لائن فائیو سٹار ہے‘ سروس اعلیٰ معیار کی ہے اور وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے۔ لیکن جس بات نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ہے کہ اس ایئر لائن کے عملے میں درجنوں مختلف شہریت کے لوگ کام کرتے ہیں‘ مگر پھر بھی ٹیم ورک شاندار ہے۔
اسلام آباد سے دبئی کی فلائٹ مختصر سی ہے۔ ٹرمینل 3 کے آخر میں جہاز لگا تو پاسپورٹ کنٹرول تک آتے آتے اچھی خاصی واک ہو گئی۔ میرا بیٹا غالب حفیظ ایک عرصے سے وہاں مقیم ہے۔ غالب تعلیم کے لیے لندن گیا‘ پھر ایک اچھی امریکی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ جاب دبئی میں ملی تو میرا خیال تھا کہ ا س کا دل یہاں نہیں لگے گا لیکن وہ 2007ء سے وہاں مقیم ہے اور یہ شہر اسے بہت پسند ہے اور اسی طرح کے سینکڑوں پروفیشنل لڑکے اور لڑکیاں مغربی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر یہاں جاب کرنے آئے اور پھر یہیں کے ہو گئے۔
تو ریگستان میں بنے ہوئے اس شہر میں وہ کون سی کشش ہے جو دنیا کے چاروں کونوں سے پڑھے لکھے‘ پروفیشل اور اعلیٰ مہارت کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ مغربی لوگ اپنے ممالک کے ٹیکسوں سے تنگ آ کر یہاں آتے ہیں کیونکہ دبئی میں عملاً کوئی ٹیکس نہیں تھا لیکن چند سال پہلے 5فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس یہاں نافذ ہو گیا لیکن یورپین لوگ واپس نہیں گئے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شمالی یورپ کے لوگ دھوپ کو ترستے ہیں اور دبئی میں مطلع ابر آلودع کم ہی ہوتا ہے لہٰذا یہ لوگ یہاں خوش رہتے ہیں لیکن میرے خیال میں سکیورٹی کا اچھا انتظام اور تحفظ کا احساس بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فارنرز کو یقین ہے کہ اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تو حکومت اور عدلیہ انہیں انصاف دیں گی۔ دبئی کی حیرت انگیز ترقی میں ریاست کے حاکم شیخ محمد بن راشد کا بہت بڑا کردار ہے۔ ان کی ہدایات کے مطابق جبلِ علی میں سمندری مٹی نکال کر مصنوعی بندرگاہ بنائی گئی جس کا شمار دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ فارنرز کو ایک پرکشش آفر کی گئی کہ جو دبئی میں پراپرٹی خریدے گا‘ اسے رہائشی ویزہ دیا جائے گا۔ اس آفر کے نتیجے میں یہاں اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری آئی۔ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بہت پُرکشش ہو گیا‘ فلک بوس عمارتیں بننے لگیں۔
دبئی کی ترقی میں بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا اہم کردار ہے۔ مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں سرمایہ کاری کی۔ ایران میں انقلاب آیا تو بہت سارے ایرانی تاجر دبئی منتقل ہو گئے۔ مصر کے حالات خراب ہوئے تو مصری سرمایہ یہاں منتقل ہوا۔ بیروت ایک زمانے میں بینکاری اور میڈیا کا مرکز ہوتا تھا۔ لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو بینک اور میڈیا ہائوس دبئی منتقل ہونے لگے۔ کراچی کے حالات خراب ہوئے تو پاکستان سے اچھی خاصی انویسٹمنٹ دبئی منتقل ہوئی۔ اب دبئی میں پاکستانی ہر سال جائیداد خریدنے میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہوتے ہیں۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد روس کے حالات تقریباً دس سال انتہائی خراب رہے۔ روس سے بہت سا سرمایہ دبئی منتقل ہوا۔ روسی لوگ دبئی میں عام نظر آنے لگے‘ اب بھی مجھے روس نژاد لوگ کافی نظر آئے۔ انڈین اور پاکستانی یہاں لاتعداد ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دبئی میں آنے والا غیر ملکی سرمایہ عمومی طور پر بلیک منی کی صنف کا ہے یعنی وہ مال جو سمگلنگ‘ بھتہ خوری اور رشوت سے کمایا گیا اور ٹیکس بچانے کے لیے اسے ڈکلیئر نہیں کیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ یہ نقطۂ نظر درست ہو مگر دبئی حکومت کی پالیسی بڑی کلیئر ہے کہ ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ آنے والا سرمایہ کالا دھن ہے یا سفید‘ البتہ جب یہ ہمارے ملک میں آ گیا تو سرمایہ کار کے لیے ہمارے قانون کی پابندی لازمی ہو گی۔ اپنے قوانین کی یہ سختی سے پابندی کراتے ہیں۔ دبئی میں عیش و عشرت کا سامان تو موجود ہے لیکن کوئی انڈر ورلڈ نہیں ہے‘ یہاں کسی ڈان کا وجود نہیں اور اسی وجہ سے ہر کسی کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔
میں جس روز دبئی پہنچا تو غالب میاں نے کہا کہ شام کو کھانا ہم ایک معروف فوڈ سٹریٹ میں کھائیں گے۔ شام کو ہم وہاں چلے گئے‘ ہماری بہو اور پوتا پوتی بھی ساتھ تھے۔ شیخ زید روڈ پر واقع اس جگہ کا انتخاب بہت مناسب تھا۔ یہاں درجنوں ریستوران ہیں‘ انواع و اقسام کے کھانے ملتے ہیں۔ یورپین‘ انڈین‘ پاکستانی‘ عربی‘ چائنیز‘ تھائی جو بھی کھانا آپ کو پسند ہو‘ کھا لیں۔ ساتھ ہی ڈانسنگ فوارہ ہے جسے دیکھ کر بچے بہت خوش ہوتے ہیں۔ فوڈ سٹریٹ کے نیچے مصنوعی جھیل تھی جس میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں چل رہی تھیں۔یہاں موجود لوگ زیادہ تر فارنر تھے اور صاحبِ ثروت۔ چند ایک کے ہاتھوں میں جام بھی تھے لیکن کوئی غل غپاڑہ نہیں تھا۔ کوئی بدتمیزی نہیں تھی۔ برداشت، روا داری‘ جیو اور جینے دو یہاں کے بنیادی اصول ہیں۔ ہر کسی کو اپنے کام سے کام ہے۔ ان اصولوں کی وجہ سے یہاں زندگی پُرامن اور پُرسکون ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں