"JDC" (space) message & send to 7575

بُلھے شاہ اساں مرنا ناہیں

اجوکا تھیڑ کا مشہور ڈرامہ ''بُلھا‘‘ میں نے 2006ء میں مسقط میں دیکھا تھا۔ یہ کھیل 22سال سے چل رہا ہے اور دنیا کے آٹھ ممالک میں سٹیج ہو چکا ہے۔ انڈیا کے طول و عرض میں اس کے بے شمار شو ہوئے۔ میری خواہش تھی کہ ''بُلھا‘‘ ایک مرتبہ پھر دیکھا جائے۔ مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ یہ ڈرامہ اکثر لاہور میں سٹیج ہوتا تھا کیونکہ اجوکا تھیڑ کا ہیڈ کوارٹر وہیں پر ہے۔ اجو کا تھیڑ کے ہیڈ شاہد محمود ندیم ہیں جن سے میری پرانی یاد اللہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر اُن سے رابطہ رہتا ہے۔ میں اُن سے ہر مرتبہ یہی سوال کرتا تھا کہ ''بُلھا‘‘ اسلام آباد کب آ رہا ہے؟ اور اب پچھلے ہفتے یہ ڈرامہ اسلام آباد میں سٹیج ہو گیا ہے۔ شاہد کے بھائی عبدالرؤف میرے کوارڈینگل ہاسٹل گورنمنٹ کالج لاہور میں روم میٹ تھے۔ پابند صوم و صلوٰۃ اورتبلیغی جماعت کے فعال رکن تھے‘ لہٰذا دوستوں میں ان کا نام مولوی رؤف تھا۔ ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج چلے گئے۔ عمر کا ایک لمبا حصہ سعودی عرب میں گزارنے کے بعد چند سال پہلے لاہور واپس آئے اور وہاں پریکٹس شروع کردی۔ شاہد عبدالرؤف سے دو تین سال چھوٹا تھا۔ سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں میٹرک کا طالب علم تھا اور ہاسٹل میں مقیم تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کو ملنے باقاعدگی سے کواڈرینگل ہاسٹل آتا رہتا تھا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد شاہد کی پہچان ایک لبرل دانشور کے طور پر ہوئی جو اچھا مقرر بھی تھا اور مکمل صراحت سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کر سکتا تھا۔ 1971ء میں پاکستان میں جمہوریت پھر سے لوٹی تو سرکاری ٹی وی کے چند انٹرویوز اس کی وجۂ شہرت بنے۔ بہرحال وہ اپنے بڑے بھائی سے بہت مختلف سوچ کا حامل تھا اور افکار کی نئی جہتوں کا متلاشی تھا۔
بُلھے شاہؒ کو سمجھنے کے لیے ان کی عصری حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ ان کا اصل نام سید عبداللہ شاہ قادری تھا۔ 1680ء میں پیدائش اُچ شریف میں ہوئی۔ ہندوستان پر اس وقت اورنگزیب عالمگیر کی حکومت تھی۔ بُلھے شاہؒ کے آباؤ اجداد بخارا شریف سے ہندوستان آئے تھے۔ اس وقت بخارا دینی اور دنیاوی علوم کا مرکز تھا۔ بُلھے شاہؒ نے اُچ شریف سے قصور کی جانب ہجرت کی۔ ان کا خاندان ایک قریبی گاؤں میں آباد ہوا اور سید عبداللہ شاہ کو مولانا محی الدین قصوری کے معروف مدرسے میں داخل کرا دیا۔ یہاں انہوں نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ سولہویں صدی کا ہندوستان آریہ سماج کی ذات پات اور درجے بندیوں میں جکڑا ہوا معاشرہ تھا۔ اسی صدی میں دو بڑے واقعات نمودار ہوئے۔ دہلی میں مغلیہ سلطنت قائم ہوئی اور ننکانہ صاحب میں ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جو بعد بھی سکھ مت کی بانی بنی۔ مسلمان سلطنت اور مغلیہ دور میں یہاں مسلم علما اور صوفیا کرام آئے جن کی وجہ سے اس خطے میں اسلام کو بہت فروغ ملا۔ اسلام اور سکھ مت دونوں انسانی مساوات پر یقین رکھتے ہیں اور اس طرح یہ دونوں مذاہب ہندو مت کی سماجی درجہ بندی کو ریجیکٹ کرتے ہیں۔ مسلمان صوفیا نے ہر درجے کے ہندوؤں کی پذیرائی کی‘ ان کے ساتھ پیار محبت سے بات کی۔ وہ ہندو جن کے ساتھ برہمن ہاتھ ملانا گوارہ نہیں کرتے تھے انہیں اسلام اور سکھ مت میں کشش محسوس ہوئی لیکن چند ایسے حوادث بھی ہوئے جو مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان نفرت کی فصیل کھڑی کر گئے۔ 1675ء میں اورنگزیب عالمگیر نے سکھوں کے نویں گرو تیغ بہادر کو سزائے موت دی۔ سکھوں اور مرہٹوں پر جزیہ عائد کیا۔ اس سے پنجاب کے سکھوں میں خاصی بے چینی پھیلی۔ بندہ سنگھ بیراگی پنجاب میں ایک معروف سکھ تھا‘ اس کے دوبیٹوں کو قتل کرانے کا الزام بھی سکھ اورنگزیب پر لگاتے ہیں جس کی وجہ سے بیراگی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہو گیا۔
درسِ نظامی کے بعد سید عبداللہ شاہ نے طریقت کی راہ اختیار کی اور شاہ عنایت قادری کے مرید بن گئے۔ شاہ عنایت قادری ایک روحانی شخصیت تھے۔ ذات کے آرائیں تھے۔ اشرافیہ اور حاکمِ وقت کے لیے یہ بڑے اچنبھے کی بات تھی کہ ایک سید زادے نے ایک آرائیں کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ ہندوستان کے مسلم معاشرے کا یہ کھلا تضاد ہے کہ اسلام قبول کر بھی لیا لیکن قبائلی عصبیت قائم رہی۔ شاہ عنایت قادری پر ایک تہمت لگا کر انہیں قصور سے نکال دیا گیا۔ قصور پر اس وقت پٹھان حکمران تھے اور حسین خان خویشگی حاکمِ وقت تھا۔ شاہ عنایت قادری لاہور آ گئے۔ وہاں تصوف میں بڑا نام کمایا اور وہیں مدفون ہیں۔ مرشد کے فراق میں بُلھے شاہ ؒ نے مجذوبیت اختیار کر لی۔ وہ بلند پایہ صوفی شاعر بن گئے۔ ان کے اشعار اور کافیاں عوام میں مقبولیت اختیار کر گئیں۔ پھر ان کی زندگی میں ایک اور اہم موڑ آیا۔ ان کے مرشد کسی بات پر ان سے ناراض ہو گئے۔ بُلھے شاہؒ کے لیے یہ شدید صدمہ تھا۔ شاہ عنایت قادری کے پیر گوالیار میں مقیم تھے۔ بُلھے شاہؒ نے سوچا کہ گوالیار سے سفارش کرائی جائے تو مرشد مان جائے گا چنانچہ گوالیار کا سفر اختیار کیا۔ تان سین کے مزار پر اشارہ ملا کہ تمہارے مرشد رقص کو پسند کرتے ہیں لہٰذا رقص سیکھو۔ واپس جا کر بُلھے شاہؒ نے قصور کی ہی ایک رقاصہ کی شاگردی اختیار کی۔ اس بات سے حاکمِ وقت اور مفتی ٔشہر بُلھے شاہؒ کے سخت خلاف ہو گئے۔
ڈرامہ میں بُلھے شاہؒ اور بندہ سنگھ بیراگی کے مکالمے سننے کے قابل ہیں۔ بیراگی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے اور بُلھے شاہؒ اسے بار بار سمجھاتے ہیں کہ خون کا بدلہ اندھا قتل نہیں ہوتا۔ بے گناہ مسلم عوام کے خون سے تمہارے گُرو خوش نہیں ہوں گے۔ اس طرح سے بُلھے شاہؒ پنجاب میں امن اور مذہبی روا داری کی علامت بن کر ابھرتے ہیں۔ میں نے بُلھے شاہ ؒ کی انڈین پنجاب میں حیثیت جاننے کیلئے اپنے فیس بک فرینڈ کلوَنت سنگھ سندھو سے جالندھر میں رابطہ کیا۔ کلوَنت نے ساری عمر کالج میں پنجابی ادب پڑھایا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ انڈین پنجاب میں بُلھے شاہؒ اور دوسرے پنجابی صوفی شعرا پر کافی ریسرچ ہوئی ہے۔ بُلھے شاہ ؒ‘ بابا فرید گنج شکرؒکی قبیل کے شاعر ہیں جنہوں نے انسان دوستی اور بھائی چارے کا سبق دیا۔ مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا۔
سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ اور خیبر پختونخوا میں رحمان بابا بُلھے شاہ ؒ کے ہم عصر تھے اور تینوں کا پیغام محبت‘ بھائی چارے اور امن کی تلقین ہے۔ سماجی رویوں میں بُلھے شاہؒ انقلابی تھے۔ انہوں نے ایسے شخص کی مریدی کی جسے مفتی ٔ شہر نے کم تر جان کر شہر بدر کر دیا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسلامی تعلیمات کے قریب تر تھے کیونکہ آخری جمعہ کے خطبہ میں اللہ کے آخری نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ صرف تقویٰ ہی ایک انسان کے دوسرے سے ممتاز ہونے کی سند ہے۔ صوفی کا ہدف اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ سالک کے مسلک کا تعین اس کا پیرو مرشد کرتا ہے۔ اللہ کی مخلوق سے محبت بھی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ صوفی عشقِ حقیقی کا متلاشی رہتا ہے۔ بُلھے شاہؒ کا مرشد انہیں کہتا ہے کہ عشقِ حقیقی میں کامیاب ہونا ہے تو اس کا راستہ عشقِ مجازی سے ہو کر جاتا ہے۔ بُلھے شاہ نے ہیر رانجھا کی داستان کو عشقِ حقیقی کی تلاش کے طور پر دیکھا ہے وہ ہیر سیال کی زبان سے کہلواتے ہیں کہ لوگ میرے رانجھے کو بھینسوں کا چرواہا سمجھتے ہیں لیکن میرے لیے وہ اعلیٰ و ارفع منزل ہے۔
ڈرامے کا پہلا اور آخری سین بُلھے شاہ ؒ کا جنازہ ہے۔ مفتی ٔ شہر کا فیصلہ ہے کہ بلھے شاہؒ چونکہ کفر کے کلمات بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انہیں قصور شہر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا ان کی تدفین شہر سے باہر ہوتی ہے لیکن آج بُلھے شاہؒ کا مزار شہر کا حصہ ہے اور مرجع خاص و عام ہے جبکہ اس وقت کے حاکم کو عام لوگ آج قعطاً نہیں جانتے۔ صوفی انتقال کو موت نہیں وصال کہتے ہیں۔ یہ اللہ کے قرب کی آخری منزل ہے۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں