سرد موسم میں سیاسی سرگرمیاں بھی مانند پڑ جاتی ہیں۔ اب جیسے جیسے برف پگھل رہی ہے‘ تو سیاسی کھلاڑی دوبارہ میدان میں آرہے ہیں اور دما دم مست قلندر ہونے کی نوید سنار ہے ہیں۔2020ء کے لندن پلان کے تحت شہباز شریف وطن واپس آرہے ہیں اور ان کی جماعت مارچ سے حکومت کے خلاف متحرک ہوگی ‘ تاہم اس وقت ان کے پارٹی ارکان‘ تحریک ِ انصاف کے ناراض کارکنوں اور خفا ہونے والے اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری چیئرمین پیپلزپارٹی بھی جارحانہ موڈ میں ہیں اور حکومت کے خلاف مارچ کا اعلان کرچکے ہیں۔گو‘اس اعلان کے بعد انہیں نیب میں پیشی کا نوٹس مل گیا۔
ذرائع کے مطابق‘ بلاول بھٹو زرداری نیب حکام کو تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ‘تاہم پیشی کے بعد انہوں نے باہر دھواں دھار تقریر کی۔ بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ہم نے ملک کی معاشی صورتحال اور پی ٹی آئی‘ آئی ایم ایف ڈیل کے خلاف جہدوجہد کا آغاز کیا تو فوری پیشی کا نوٹس آگیا۔میں تو اس وقت پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں تھا‘ کیا مجھے بلا کر سوال کرنا بنتا ہے؟ میں بے گناہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دباؤ کے باوجود پیپلز پارٹی کا کوئی کارکن پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔انہوں نے اس موقع پر ایک بڑا اعلان کیا کہ اگر میری گرفتاری ہوئی تو آصفہ بھٹو میری آواز ہوگی ۔ میری نظر میں اس اعلان کے بہت دور رس نتائج نکلیں گے‘ کیونکہ آصف علی زرداری بہت عرصے سے بلاول کے ساتھ ساتھ آصفہ کی بھی سیاسی تربیت کررہے ہیں اور اب وہ تیار ہیں کہ پارٹی کی باگ ڈور اپنے والد اور بھائی کے ساتھ سنبھالیں۔اگرآصفہ نے مارچ کو لیڈ کیا تو سندھ کی حد تک اس کے کامیاب ہونے کی نوید ہے‘ کیونکہ آصفہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جھلک نظر آتی ہے ۔
واضح رہے کہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی ہی نہیں ‘جمعیت علمائے اسلام بھی حکومت پر گرج برس رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ نااہل اور ناجائز حکومت کا جانا اب ٹھہرگیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یکم مارچ کو اسلام آباد میں قومی کنونشن کا اعلان کردیا۔مولانا فضل الرحمن‘ مسلم لیگ (ن )سے شدید ناراض ہیں۔ انہوں نے نیا اتحاد بنالیا ہے‘ جس میں جمعیت اہلحدیث‘نیشنل پارٹی ‘پختونخوا ملی عوامی پارٹی اورقومی وطن پارٹی شامل ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) ‘ پی پی پی اور اے این پی کے ساتھ مشاورتی عمل بالکل ختم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے اگر خاموش رہنا ہے تو لندن جائیں اور اپنے والد صاحب کی خدمت کریں ‘بڑی جماعتوں نے عوام کو مایوس کیا۔انہوں نے اِن ہاؤس تبدیلی کی طرف بھی اشارہ دیا۔ شاید لندن پلان 2020ء کے بعد ایسا ممکن ہوجائے ‘لیکن فی الحال اِن ہاؤس تبدیلی کے کوئی آثار نہیں ۔
ادھرحکومت بھی اس بار معاف کرنے کے موڈ میں نہیں اور دھرنے و جلسے برداشت نہیں کرے گی ۔ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکومت مارچ میں اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو نظر بند یا گرفتار کرلے گی۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے‘ دوسری طرف معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بھی مولانا کو آڑے ہاتھوں لیا اور ٹویٹ کیا کہ مولانا فضل الرحمن کی بہکی بہکی باتیں ان کی مایوسی کا واضح اظہار ہیں ۔محسوس ہوتا ہے کہ آزادی مارچ کی ناکامی کا صدمہ مولاناصاحب برداشت نہیں کرپائے۔ انہوں نے دوسرے ٹویٹ میں کہا کہ مولاناصاحب‘ آپ آزادی مارچ میں حکومت ختم کرنے نکلے تھے‘ لیکن حکومت مزید مضبوط ہوگئی۔ آپ کا کندھا استعمال کرنے والے لندن پہنچ گئے‘ آپ ایک سیٹ کی خاطر کیوں خود کو رسوا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی‘ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور گورنر محمد سرور سے ملاقات کے بعد بلدیاتی انتخابات پر فوکس کررہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا کیسے ختم ہوا‘ اس معاہدے کی بات امانت ہے‘ بتا کر خیانت نہیں کرسکتا۔اپوزیشن کی تحریک کو کوئی نہیں پوچھتا ‘اپوزیشن کا کام ہی شور شرابہ کرنا ہوتاہے اور حکومت کا کام ریلیف دیناہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اورمسلم لیگ(ق) ایک پیج پر ہیں۔تمام بحرانوں کا مقابلہ مل کر کریں گے ۔آج وزیراعظم عمران خان نے ایم کیوایم کے وفد سے ملاقات کی اور ان کے تحفظات اور مطالبات پر غور کیا ۔جنوری میں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وزار ت چھوڑ دی تھی‘ انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ وزارت میں بیٹھنا بے سود ہے ‘تاہم آج پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں۔الغرض چاہے پرویز الٰہی سے ملاقات ہو یا خالد مقبول صدیقی سے اسد عمر نے ان ملاقاتوں کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا۔حکومت اس وقت اپنے کارڈ بہت سمجھداری سے کھیل رہی ہے اور آہستہ آہستہ راج نیتی میں شہ اور شہ مات کرنا سیکھ رہی ہے ۔
اس وقت نواز شریف ‘چوہدری نثار اور چوہدری شجاعت تینوں لندن میں موجود ہیں اور علاج کی غرض سے وہاں مقیم ہیں۔ کیا 2014 ء والا لندن پلان اپنی تاریخ دہرائے گا؟پاکستان عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈا پور نے یہ اعتراف کیا تھا کہ2014ء کے دھرنے کے پیچھے لندن پلان تھا۔وزیر اعظم عمران خان‘ پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت نے لندن میں ملاقات کی‘ جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے ۔کیا اب لندن پلان 2020ء ‘ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرے گا؟ کیونکہ مولانا فضل الرحمن پھر تحریک چلانے کے لیے بیتاب ہیں‘ لیکن ان کی فلائٹ سولو ہے‘ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف‘ لندن میں خاموش ہیں ‘ جبکہ مریم نواز جاتی امرامیں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔شہباز شریف کو چوہدری شوگر ملز میں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور بلاول بھٹو زرداری پر نیب کی تلوار لٹک رہی ہے‘ ان حالات میں کیا اپوزیشن متحد ہوپائے گی؟ کیا اپوزیشن مل کر مارچ میں مارچ کرسکے گی ؟حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک شروع ہوسکے گی یا نہیں یہ تو ہم مارچ میں دیکھ لیں گے‘ لیکن اس وقت اپوزیشن تقسیم کا شکار ہے‘ ان میں اتحاد کا فقدان ہے‘ جس کا فائدہ براہِ راست حکومت کو ہو رہا ہے۔
ادھرمولانا فضل الرحمن اس وقت بند گلی میں ہیں۔ اپوزیشن کا بیانیہ تو ایک ہے‘ لیکن ایک پلیٹ فارم پر وہ متحد نہیں۔تین بڑی جماعتیں ان کو اسلام آباد کے دھرنے میں دھوکہ دے چکی ہیں ‘لیکن حکومت کو فوری طور پی ٹی آئی کے اصل کارکنوں اور لیڈران کو سامنے لانا ہوگا ‘کیونکہ پرانے چہرے اچھی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں ۔عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ۔دال‘سبزی‘ آٹا پھل متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو رہے ہیں ۔یوٹیلٹی بلز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔لوگوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں ‘ جو کام کررہے ہیں‘ ان کی تنخواہوں میں تاخیر ہوتی ہے۔موجودہ حکومت نے ڈیڑھ سال کی مدت میں 11ہزار 6سو ارب روپے کا قرضہ لیا‘ جوکہ جی ڈی پی کے 60فیصد سے زائد ہے اور 84اعشاریہ پر پہنچ چکا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت معیشت کو پٹری پر لائے ‘جس میں نئی نوکریاں ہو اور مہنگائی میں کمی ہو‘ اگر ایسا نہیں ہوا‘ تو پھر اپوزیشن کا مارچ میں مارچ کامیاب بھی ہو سکتا ہے۔