نظام شمسی میں تمام سیارے سورج کے گرد مدار کے دائروں میں گھومتے ہیں۔زمین بھی صدیوں سے دائروں میں سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ جب ایک چکر مکمل ہوتا ہے‘ تو ایک سال مکمل ہوجاتا ہے۔ زندگی بھی اسی طرح دائروں میں سفر کا نام ہے۔انسان جنم لیتا ہے‘ رشتوں میں بندھتا چلا جاتا ہے‘ تعلیم حاصل کرتاہے‘ کام کرتا ہے‘ شادی کرتا ہے اور نسل ِانسانی کوآگے بڑھتا ہے۔ زندگی ان ہی دائروں میں رہتی ہے۔ کبھی زندگی کا مقصد مل جاتا ہے‘ تو کبھی ناکامی ہوتی ہے اورآخر میں انسان لحد میں اترجاتا ہے‘ یعنی انسان ‘کسی مشین کی مانند ‘ان دائروں میں زندگی کا سفر کرتا رہتا ہے۔
انسان کی زمین پر زندگی ایک جہد ِمسلسل ہے‘ تاہم کوئی قدرتی آفت آتی ہے اور انسان کو عظیم تر معنویت کی طرف لی جاتی ہے۔کچھ اس میں ختم ہوجاتے ہیں ‘کچھ اس سے ڈر جاتے ہیں‘ کچھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں تو کچھ زمین پر زندگی کی بقاء کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لیتے ہیں۔انسان ‘وبا میں خود کو تنہا ‘بے بس محسوس کرتا ہے اور ایک انجانا خوف اس کے ذہین پر سوار رہتا ہے۔وہ پیار‘ ہمدردی اور شفقت کا متلاشی بن جاتا ہے۔کیاحادثہ ہونے والا ہے؟ یہ احساس و خوف‘ انسان کو اس کے دائرے سے بھٹکا سکتا ہے۔ کبھی دائروں کاسفر رک جاتا ہے ‘تو کبھی پھر سے شروع ہوجاتا ہے۔کچھ لوگ وبا میں اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ دعا کرتے ہیں تو کچھ اس دوران بھی جرائم کرکے مزید گناہ مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔اس وقت بھی دائروں کا سفر رک سا گیا ہے۔ہم سب وبا سے متاثر ہیں۔ ہر کوئی مصیبت میں ایک دوسرے سے کٹ گیا ہے اور کورونا وائرس جیسی مہلک وبا نے انسان کو انسان سے جدا کردیا ہے۔یہ وباہی ایسی ہے اورکہا جا رہا ہے کہ کسی سے نہ ملیں‘ہاتھ نہ ملائیں اور گھروں سے نہ نکلیں ‘ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔کھڑکی سے باہر دیکھو تو چرند پرند بالکل ویسے ہی موجود ہیں ‘تازہ ہوا ‘بہار کی آمد کی نوید سنا رہی ہے ‘آسمان پہلے سے زیادہ صاف ہے‘ لیکن انسان نظر نہیں آ رہے۔
جرمنی کے صوبائی وزیر خزانہ تھامس شیفر نے کورونا وائرس کی وجہ سے آمدہ بحران کے خوف سے خود کشی کرلی۔ ان کی ریاست میں کورونا وائرس کی وجہ سے شدید معاشی بحران پیدا ہوگیا تھا ‘وہ شدید پریشان تھے اور اپنی جان لے لی۔لندن میں ایک جوان خاتون نے سیلف آئسولیشن کی وجہ سے خود کشی کر لی‘ کیونکہ وہ اس صورت ِ حال سے ڈر گئی تھی۔کراچی میں سرفراز نامی نوجوان نے کورونا وائرس کے لاحق ہونے کے خوف سے خود کشی کرلی‘وہ پٹرول پمپ پر کام کرتا تھا‘ لیکن لاک ڈاؤن کے بعد بے روزگار ہوگیا‘ تواس کو کسی نے کہا کہ اس کو کورونا وائرس ہو گیاہے ‘وہ اس سے اس قدر ڈر گیا کہ نفسیاتی دباؤ میں آکر خود کشی کربیٹھا۔اس وقت انسان کوروناوبا‘بیروزگاری ‘ موت کا خوف ‘ بھوک‘غیر یقینی صورت ِحال اور تنہائی کا مقابلہ کررہا ہے‘جو گھر کی چاردیواری کے اندر بستر پر لیٹا ہے‘ وہ بھی اتنا خوف کا شکار ہے ‘جتنا ہسپتال کے کورونا وارڈ میں لیٹا مریض بے چین ہے اور جتنا قرنطینہ میں بیٹھا 14 دن گزارنے والا مسافر ٹیسٹ کے مثبت آنے کے بعد خوف زدہ ہے۔الغرض ‘زندگی اپنے اپنے دائروں میں رک سی گئی ہے اور سب انسان‘ جسمانی‘ ذہنی اور تخیلاتی طور پر تکلیف کا شکار ہیں۔
کچھ لوگ سر میں درد‘ سینہ پر بوجھ اور بے خوابی کی شکایت کررہے ہیں‘جو پہلے سے ذہنی امراض کا شکار ہیں‘ وہ مزید دباؤ میں آگئے ہیں۔زندگی کا دائرہ مزید تنگ ہوگیا ہے‘ دنیا بھر کے انسان ڈپریشن ‘ ذہنی دباؤ‘چیچڑاپن‘کنفیوژن ‘غصہ‘اداسی ‘ناامیدی کا شکار ہیں اور ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے ذہنی امراض میں مبتلا افراد خود کشی بھی کرسکتے ہیں۔بہت سی جسمانی علامات جیسے معدے کا خراب ہونا‘سینے میں درد ہونا‘سانس لینے میں تکلیف ہونا‘پٹھوں میں کھچاؤ محسوس ہونا‘جسمانی کمزوری‘خوف اور پریشانی وغیرہ کورونا وبا کے خوف کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔آج کل کورونا وبا کی وجہ سے ڈپریشن ‘انگزائٹی‘ گھبراہٹ اورواہما بہت عام ہورہا ہے۔ نفسیاتی امراض کا علاج دوائی اور کونسلنگ سے ہوتا ہے۔انگزائٹی سے انسان کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اوروہ سمجھتا ہے کہ مجھے کورونا کا مرض لاحق ہورہا ہے‘جبکہ اس کوانگزائٹی اور پین اٹیک ہوتا ہے۔انگزائٹی میں خوف بھی محسوس ہوتا ہے کہ مجھے سانس نہیں آرہا ‘دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے یا بے ترتیب ہوجاتی ہے ‘معدے میں درد اور تیزابیت بڑھ جاتی ہے ‘ توانسان کو لگتا ہے کہ میں مرنے والا ہوں اور وہ بے چین ہوجاتا ہے۔ اس لیے کورونا وائرس کے خوف میں مذکورہ علامات بڑھ گئی ہیں۔ اس لیے ان علامات میں گہرے سانس لیں‘ اضافی آکسیجن انسان کو پرُسکون کرتی ہے‘ناک سے سانس اندر کھینچیں اور منہ سے باہر نکلالیں۔اس مشق کو دو سے تین منٹ کریں‘آپ پرُسکون محسوس کریں گے۔علاوہ ازیںاس خوف ومایوسی کے ماحول میں عبادت کے بعد جو چیز مدد دے سکتی ہے‘ وہ بات چیت کرنا یا اپنا دکھ درد دوسرے سے شیئر کرنا اہم ہے۔چھت پر کھلی فضا میں چائے پینا‘ فون کو ایک طرف رکھ کر اہل خانہ سے باتیں کرنا‘رشتہ داروں کو فون کرکے خیریت دریافت کرنا‘برقی مراسلہ ای میل ان دوستوں اور رشتہ داروں کو کرنا‘ جن سے ایک عرصہ سے آپ کا رابطہ نہیں ۔اس حوالے سے اپناٹائم ٹیبل بنائیں‘گھر کے کام کاج کریں‘متوازن غذا کھائیں اورکسی گھریلومشغلے کو اپنانا نہایت مفید و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو کسی ماہر نفسیات سے فون پر رابطہ کریں‘تاہم پاکستان میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ماہر نفسیات اور دماغی امراض کے ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ نمبر شیئر نہیں کرتے اور نہ ہی آن لائن سروس پر دستیاب ہیں کہ مریض ان کو آن لائن فیس دیے کر کونسلنگ سیشن کر سکیں۔کورونا وائرس اتنے لوگ کو نہیں مارے گا‘ جتنا نفسیاتی امراض اور خوف لوگوں کو مفلوج کرے گا‘لہٰذااس امر کی ضرورت ہے کہ حکومت ایک مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن‘ویب سائٹ یا ایپ متعارف کروائے‘ جس پر ذہنی دباؤ کے شکار افراد ڈاکٹرز اور ماہرین ِ نفسیات سے رابطہ کرسکیں۔ہیلپ لائن بناتے وقت ذہنی امراض کا شکار افراد کو فون ای میل لائیو چیٹ‘ سکائپ اور ٹیکسٹ کی سہولت دی جائے۔یہ ہیلپ لائن24 گھنٹے کام کرے۔جب کورونا کا مسئلہ کم ہوجائے تو ہوم وزٹ بھی شروع کیے جائیں‘ تا کہ ڈاکٹر ‘مریض کو گھر جاکر کونسلنگ کر سکیں‘ اس سے نفسیاتی مریض ڈر کے دائرے کو توڑ کی زندگی کے اس دائرے میں واپس آ سکتے ہیں‘ جہاں وہ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔اس ہیلپ لائن کا فیس بک پیچ ‘ویب سائٹ‘ یوٹیوب اکاونٹ ‘ ٹویٹر اور انسٹا گرام اکاؤنٹ بھی ہونا چاہیے۔
میٹنل ہیلتھ ہیلپ لائن سے نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوگے۔ ڈاکٹرز اور ماہرین ِ نفسیات گھر سے ہی مریض سے بات کرسکیں گے اور مریض اپنا مسئلہ رازداری سے بیان کرکے آن لائن کارڈ یا موبائل ایپ سے فیس ٹرانسفر کردیں گے۔ اس سے حکومت ‘ ڈاکٹرز ‘ میڈیکل سٹورز اور مریضوں سب کا فائدہ ہو گا۔دماغی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد پہلے ہی لوگوں سے ملنے سے کتراتے ہیں ‘گھر سے کم باہر نکلتے ہیں ‘شرم اور خوف ان کو بات چیت سے روکتا ہے‘ اس لیے اگر آن لائن مدد کے لیے ایپ اور ہیلپ لائن بنا لی جائے تو کتنے ہی لوگ اپنے زندگی کے دائروں میں رواں دواں ہوسکیں گے۔اس وقت ٹی وی ‘واٹس ایپ ‘فیس بک ‘ ٹویٹر‘ ہر جگہ صرف اور صرف کورونا وبا کی بات ہورہی ہے ‘جس کی وجہ سے خوف پھیل رہا ہے۔اگر کسی کو موسمی کھانسی ‘نزلہ یا زکام ہورہا ہے‘ تو اس کو خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ اسے کورونا وائرس‘ تو نہیں ہوگیا ؟
ہسپتالوں اور قرنطینہ میں جن لوگوں کو کورونا کی وجہ سے رکھا گیا ہے‘ ان کو ٹی وی ‘ واٹس ایپ کے ذریعے کونسلنگ کی جائے‘ تاکہ وہ زندگی کے دائروں کے سفر میں شامل ہو سکیں‘ کیونکہ ان دائروں میں سفر‘ انسان کیلئے ناگزیر ہے۔