بے حسی کی وبا اور مہرآبادی کی زینت

شہر کے بڑے بیوٹی پارلر میں کچی بستی مہر آبادی کی زینت (فرضی نام ) بھی کام کرتی ہے۔ قدرتی طور پر اس کے ہاتھ میں ایسا ہنر ہے کہ وہ بہت ساری امیر خواتین کو پسندہے‘ وگرنہ امیر بیگمات کچی بستی اور اس کے ساکنوں کے تو پاس سے بھی نہیں گزرتی۔زینت کو ہیئر ڈائی‘ ہیر سٹائلنگ اور میک اپ پر مکمل مہارت حاصل ہے۔سیلون کے یونیفارم میں وہ صبح سے شام تک مشین کی طرح کام کرتی ہے۔زینت روزانہ تین سے چار دلہنیں تیار کرتی ‘لیکن کبھی اپنے چہرے پر شکن نہ لاتی کہ وہ تھک چکی ہے یا اس کی تنخواہ بہت کم ہے۔
مجھے یاد ہے میں نے اس کو پہلی بار جب دیکھا تو وہ پارلر میں کٹنگ کے بعد والے بالوں کر جھاڑو لگا کر صاف کر رہی تھی۔محنت اور جلد کام سیکھنے کی وجہ سے وہ فیشل اور میک اپ سیکشن میں آگئی۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ مسیحی برداری سے تعلق رکھتی ہے اور یتیم ہے‘اس کے رشتہ داروں نے اس کو یہاں ملازم رکھوایا ہے ‘ کیونکہ وہ اس کا خرچ نہیں اٹھا سکتے‘ سارا دن یہاں کام کرتی ہوں‘ پھر واپس جا کر رشتہ داروں کے گھر کا کام بھی کرتی ہوں۔آہستہ آہستہ اس نے میک اپ اور کٹنگ بھی سیکھ لی اور ہر خاتون کی یہ کوشش ہوتی کہ زینت ہی اس کاکام کرے۔ میری بھی اس سے دوستی ہوگئی‘ پھر اس کا رشتہ طے کردیا گیا۔ میں نے سوچا زینت کی شادی تو گاؤں میں ہوئی ہو گئی‘ کیوں نہ میں اس کو مہرآبادی جاکر مل آؤں اور مبارک باد دے آؤں۔مہر آبادی ‘اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف الیون کے ساتھ واقع ہے۔ ایک طرف کروڑوں مالیت کے بنگلے ‘دوسری طرف کچی بستی‘ صرف ایک سڑک پار کرکے ہم دوسری دنیا میں آجاتے ہیں۔ ہر طرف غریبی بھوک اور افلاس‘جلتے کچرے کی بو‘تنگ گلیاں‘ کھلی نالیاں اورمکھیاں ومچھر ۔زینت کا گھر ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ ایک کمرے میں ہی باتھ روم ‘فرش پر کچھ برتن‘ مٹی کا چولہا اور زمین پرایک دری تھی۔میں زمین پر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ہم نے خوب باتیں کیں۔ میں نے اس کو سلامی دی اور واپس چلی آ ئی۔اس نے بھی کچھ دن بعددوبارہ پارلر جوائن کرلیا اور کام میں مشغول ہوگئی۔میں ایک دن پارلر پر گئی تو اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا ۔میں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایاکہ اس کا خاوند کچھ نہیں کماتا اور اس پر تشدد کرتاہے۔اب وہ جو بھی کماتی ہے‘ خاوند کے ہاتھ پر رکھ دیتی ہے۔ ان دنوں زینت ماں بننے والی تھی‘ لیکن پارلر اور گھر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے اس کا بچہ ضائع ہو گیا اور اس کو ڈی این سی کروانی پڑی ۔پارلر کی امیر مالکن نے اس کو دھمکی دی کہ فوری طور پرپارلرآئے‘ کیونکہ بہت سی دلہنوں نے اس سے تیار ہونے کی فرمائش کی تھی‘ لہٰذا دو دن بعد وہ کام پر آ گئی تھی۔اس سے صحیح طرح سے کھڑا بھی نہیں ہواجارہا تھا۔ بچے کو کھو دینے کے بعد‘ کسی نے اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں دیکھی۔وہ اب‘ ایک روبوٹ کی طرح کام کرتی ہے۔حالات نے اس کی خوبصورتی ‘مسکراہٹ اور زندہ دلی چھین لی ہے۔
زینت کی زندگی میں پہلے کم عذاب تھے کہ پھر اچانک کورونا وبا آ گئی۔یکدم سب کچھ بند ہوگیا۔امیروں نے تو سال بھر کا راشن جمع کرلیا۔ ان کے گھروں پر ویڈیوزگیمز چل رہی ہیں‘ پکوان بن رہے ہیں‘ وہ فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنی ویڈیوز لگا رہے ہیں اورسب کو گھر رہنے کی تلقین کررہے ہیں‘ لیکن غریب کیا کریں؟ روٹی کہاں سے کھائیں؟پارلر میں کام کرنے والا عملہ ایک ماہ سے بیروزگار ہے اور تنخواہ کے بغیر ہے۔زیادہ ترلڑکیاں پارلرز میں اس لئے کام کرتی ہیں کہ خواتین کے ماحول میں وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہیں اور یوں باعزت طریقہ سے وہ پیسے کمالیتی ہیں‘ لیکن بہت سے پارلر مالکان‘ جو بد دماغ ہوتے ہیں‘ ان کے ملازمین ان کے زیر عتاب رہتے ہیں‘ انہیں محنت کا معاوضہ کم ملتا ہے اور اگر کوئی ملازم اپنے حق کی بات کرے تو اس کو ذلیل کرکے نکال دیا جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ زینت کے ساتھ ہوا۔ وہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اپنا بچہ تو پہلے ہی کھو چکی تھی ‘ اب چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی۔پھرلاک ڈاؤن شروع ہوا‘ تو اس کی پارلر والی باجی تو اپنے فارم ہاؤس پر اپنے گھر والوں اور پالتو جانوروں کے ساتھ انجوائے کررہی ہے‘ لیکن سٹاف زینت کی طرح فاقے کررہا ہے۔ خواتین گھروں پر بھی پارلر والی لڑکیوں کو نہیں بلارہی ہیں‘ کیونکہ انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں کورونا نہ لگ جائے‘ یوں اس شعبے سے منسلک لڑکیوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہوچکی ہے۔
میری سہیلی رابعہ جو ماہر نفسیات بھی ہے‘ مہر آبادی کی طرف راشن تقسیم کررہی تھی ‘ میں نے اس کو فون کرکے کہاکہ زینت کے گھر بھی راشن دے آنا۔اس نے کہا کہ تم ساتھ آجاؤ ‘کیونکہ مجھے اس کے گھر کا علم نہیں۔اس کا ایک کمرے والا گھر مزید خستہ ہوچکا تھا۔ہم جب گھر میں داخل ہوئیں‘ تو دیکھا کہ زینت بخار میں جھلس رہی تھی اور اس کا نقاہت سے برا حال تھا۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ ایک ماہ سے وہ صرف پانی اور اچار کے ساتھ روٹی کھا رہی ہے۔رابعہ نے جلدی جلدی راشن کھولا‘ لکڑی کے چولہے پر چائے بنائی ‘لکڑی کے دھوئیں سے مجھے سانس لینا مشکل ہورہا تھا‘ لیکن اس کی مدد کرنا لازم تھا۔ ہم نے اس کو چائے کے ساتھ بسکٹ دئیے‘تو اس کی نقاہت کچھ کم ہوئی اور اس کی جان میں جان آئی۔فون پر ڈاکٹر سے اس کیلئے دوائی پوچھی۔میں نے اس سے کہا کہ ہمیں فون کیوں نہیں کیا؟ اس نے دھیمی آواز میں کہا: باجی بیلنس نہیں تھا۔میں نے پھر کہاکہ میرے گھر کیوں نہیں آئی؟ تواس نے کہا کہ کمزوری کی وجہ سے چلنے کی ہمت نہیں تھی اور شوہر بھی کئی دنوں سے گھر سے غائب ہے۔میری سہیلی رابعہ نے زینت کے فون میں بیلنس شیئر کیا اور اس کو طریقہ بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کے احساس پروگرام سے کیسے امداد لے سکتی ہے۔ہم نے اس کو تسلی دی اور واپس آ گئیں‘ لیکن میرادل بہت اداس تھا۔ اگر پارلرز کے امیر مالکان‘ آدھی تنخواہ دے دیتے تو زینت اوراس جیسی بہت سی پارلر میں کام کرنے والی لڑکیاں یوں فاقوں کا شکار نہ ہوتیں۔ کچھ لڑکیاں اور عورتیں‘ راشن لینے کیلئے لائنوں میں جانے سے کتراتی ہیں کیونکہ ان کو رش سے ڈر لگتا ہے۔
میں نے کچھ دن بعد زینت کو فون کیااور اس سے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ اس نے احساس ایمرجنسی کیش کیلئے میسیج کیا؟ تو اس نے بتایا کہ باجی 19 اپریل کو اس کی رجسٹریشن بند ہوگئی۔زینت نے مجھے کہا کہ باجی! آپ وزیر اعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کو کہیں کہ جیسے بجلی کے بل گھر آتے ہیں ‘اس طرح امداد اور پیسے بھی ہمارے گھروں تک کیوں نہیں پہنچ جاتے؟میں ایس ایم ایس بار بار نہیں کرسکتی‘ احساس راشن پورٹل کیلئے انٹرنیٹ کہاں سے لاؤں ؟میں گھر سے صرف کام پر جاتی تھی‘ مجھ میں اکیلے باہر جانے کا حوصلہ نہیں۔ اب‘ سوچ رہی ہوں کہ کیا کام کروں؟ جس سے گھر چل سکے۔زینت کی ایک بات بار بار میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ہمیں کورونا نہیں‘ شاید بھوک‘ غریبی اور اپنوں کی بے اعتنائی ماردے گی۔کورونا ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا ‘ ہمیں انسانوں کے رویے اور بے حسی کے نشتر زیادہ لگ رہے ہیں۔انسان ‘اگر ان وبا کے دنوں میں بھی نہیں سدھرا تو پھر کب سدھرے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں