عالمگیر وبا کورونا نے اس وقت قریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کا علاج تاحال دریافت نہیں ہوا۔کووڈ 19 ایک سانس کی بیماری ہے ‘جو نظام تنفس پر حملہ کرتی ہے ۔کچھ لوگ اس کے حملے کے بعد صحت یاب ہوجاتے ہیں‘ تاہم کچھ جانبر نہیں ہوپاتے۔کورونا وائرس انسان سے انسان میں پھیلتا ہے‘اس لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن ہے‘ تاہم میڈیا اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔
کورونا کے حوالے سے اس وقت میڈیا سب سے زیادہ کام کررہا ہے‘ کیونکہ میڈیا انڈسٹری کی وجہ سے تمام لوگ اس مرض کے حوالے سے باخبر ہیں۔صحافی ہونا آسان نہیں‘ اکثر صحافی خبر دیتے دیتے خود خبر بن جاتے ہیں۔2020ء میں اب تک 7 صحافی موت کے منہ میں جا چکے ہیں‘ جن میں سندھ کے صحافی عزیز میمن بھی شامل ہیں ۔ الغرض میڈیا پر خطرات کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے تاہم بروقت خبریں پہنچانے کیلئے دنیا بھر کے صحافیوں لو کام کرنا پڑتا ہے۔
ایک خبر اور پروگرام کے پیچھے بہت سے لوگ کام کررہے ہوتے ہیں ‘جن میں ڈائریکٹر نیوز کرنٹ افیرز‘ایڈیٹرز‘کنٹرولز نیوز‘اینکرز‘نیوز کاسٹرز‘ ڈی ایس این جی سٹاف‘پروڈیوسرز‘ڈیسک کا عملہ ‘فوٹوگرافر‘ این ایل ای سٹاف‘ کیمرہ مینز‘رپورٹرز ‘ کاپی ایڈیٹرز‘ ایڈمن عملہ و دیگر شامل ہوتے ہیں۔میڈیا ٹیم کی محنت سے خبرنامے اور کرنٹ افیرز شوز نشر ہوتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں کورونا وبا پھیلی ہوئی ہے اور جزوی لاک ڈاؤن ہے‘تاہم میڈیا بروقت خبریں نشر کررہا ہے اور ہر جگہ سے صحافی رپورٹ کررہے ہیں‘ یعنی صحافی براہِ راست کورونا کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاہور کے ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر کوجب کورونا کی تشخص ہوئی ‘تو وہ میو ہسپتال میں تھے‘ وہاں سے انہوں نے بیماری کے باوجود ناظرین کو حقائق سے آگاہ کیا اور اس بزرگ شہری کی بھی نشاندہی کی ‘جن کے ہاتھ پاؤں کو باندھ دیا گیا تھا۔میڈیا ورکرز اس وقت ہسپتالوں‘قرنطینہ مراکز‘مساجد‘بازاروں‘ اہم قومی تقریبات ‘ راشن ‘ رقوم اور امداد کی تقسیم کی کوریج میں بھی موجود ہے۔
پاکستانی میڈیا اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے ‘تاہم ذمہ دار میڈیا ہاؤسزاپنے سٹاف کو مکمل تنخوائیں دے رہے ہیں اور ان کی حفاظت بھی یقینی بنارہے ہیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ بہت سے میڈیا ہائوسز نے اپنے ورکرز کی حفاظت کے اطمینان بخش انتظامات کر رکھے ہیں۔ایسے علاقے جہاں کورونا پھیل چکا‘ وہاں کے مکینوں سے فوٹیج حاصل کر لی جائے اور اگر کسی امدادی تقریب میں جانا ہو تو میڈیا ٹیم اور رپورٹرز لوگوں سے سماجی فاصلہ رکھیں ‘این نائن فائیو ماسک پہنیں ‘جوتوں پر شوز کور لگائیں اور اپنے سامان کو زمین پر مت رکھیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ درست معلومات کی ترسیل کیلئے میڈیا کوریج نہایت ضروری ہے‘ لیکن میڈیا سے وابستہ افراد کو اپنی حفاظت کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔کوشش کی جائے کہ سکائپ ویڈیو کال اور زوم ایپ کا استعمال کیا جائے ۔بہت سی جگہوں پر جائے بغیر بھی کام ہوسکتا ہے‘۔ بعض خبریں گھر سے بھی فائل کی جا سکتی ہیں‘ کالم اور فیچر ای میل کیا جاسکتا ہے۔ٹی وی چینل ہو‘ ریڈیو ہو‘ اخبار ہو یا نیوز ویب سائٹ‘ بہت سا سٹاف ورک فرام ہوم کرے اور صرف ضروری سٹاف آفس آئے ‘جو سٹاف ضعیف ہے یا بیمار ہے‘ ان کو کام میں رعایت دی جائے۔کوشش کی جائے کہ زیادہ تر کام ای میل ‘فون اور ویڈیو کال پرکرلیا جائے۔آفس میں بھی ورکرز چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔دفاترمیں جراثیم کش سپرے کروایا جائے اور باہر ڈس انفیکشن کرنے والا خصوصی واک تھرو گیٹ نصب کروایا جائے‘ تو مناسب ہوگا‘جس وقت میڈیا کا عملہ گھر واپس جائے‘ تونہا کر دوسرے کپڑے پہن لیں اور جوتے بھی باہر رکھ دیں۔گاڑی‘ کمپیوٹر اور فون کو بھی جراثیم کش محلول سے صاف کریں۔جسمانی صحت کے ساتھ اس وقت نفسیاتی صحت کا خیال کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ غصہ نہیں کریں‘ بلکہ تعاون کریں۔میڈیا آفس اپنے ملازمین کیلئے ویڈیو لنکس کے ذریعے ‘ ماہرین ِ نفسیات کے ساتھ سیشنزکروائیں‘ نیزتمام میڈیا ہاؤسز اپنے ملازمین کے ٹیسٹ کروائیں ‘تاکہ یہ مرض ان کے اداروں میں نہ پھیل سکے۔
بہت میڈیا ہاؤسز میں صحافی معمول کے مطابق ‘فرائض انجام دے رہے ہیں۔اسلام آباد کی انتظامیہ نے تمام میڈیا ہاؤسز کو اپنے کارکنوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے کیلئے کہا ہے‘ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام میڈیا کارکن دوران کوریج پروٹیکشن کٹ ‘دستانے‘ فیس ماسک استعمال کریں‘ چاہیے وہ فیلڈ میں ہو یا سٹوڈیو میں ہو۔
کہا جاتا ہے کہ وبا کے دنوں میں نفسا نفسی اور ہنگامی حالات ہوجاتے ہیں‘ اس لئے خود کو فاصلے پر رکھیں کہ آپ کسی پریشانی کی زد میں نہ آجائیں۔رپورٹنگ کرتے وقت یہ بات یاد رکھیں کہ یہ عالمی وبا ہے ‘ اس لیے آپ نے کوئی سنسنی نہیں پھیلانی۔کورونا وائرس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سٹوری ہے‘ لیکن اس کی کوریج جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔کوشش کریں کہ کورونا زدہ جگہ پر Personal Protective Equipment (PPE) کٹ استعمال کریں‘اگر طبیعت خراب ہو تو سات دن گھر پر رہیں اور ساتھیوںسے دورر ہیں۔اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ میڈیاورکرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی مریض کا نام منظر عام پر نہیں لائیں۔علاوہ ازیں واٹس ایپ سوشل میڈیا کی خبروں کو سچ مت سمجھیں۔کسی کی قومیت‘ ذات پات اور مذہب کی بناء پر اس کو نشانہ مت بنائیں۔
کورونا ایک بیماری ہے‘ یہ کسی رنگ ‘ نسل ‘فرقے ‘امیر و غریب کو نہیں دیکھتی‘ یہ کسی کو بھی ہوسکتی ہے‘ لہٰذامریضوں کے نام اور تصاویرمنظرعام پر مت لائیں۔رمضان المبارک کاآغاز ہوچکا ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ جو ہمارے میڈیا کے ساتھی اور دیگر افراد‘ اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو صحت ِکاملہ عطا فرمائیں(آمین)۔