بطور رپورٹر میں نے دو طیارہ حادثے کوَر کئے‘ ایسا لگ رہا تھا گویا قیامت آگئی ہو‘ آگ‘ دھواں چیخ و پکار ہر طرف سائرن ‘ ایمولینس‘ ڈی ایس این جی کا رش‘ مائیک‘ تاریں‘ سانس لینا مشکل ہورہا تھا ۔مجھے بوجھل دل کے ساتھ سوال پوچھنے پڑھ رہے تھے۔لائیو بیپر دیتے ہوئے ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ سب بار بار آنکھیں صاف کررہے تھے۔ جائے وقوعہ پر نعشیں جسد خاکی نہیں تھیں ‘ صرف انسانی اعضا کے ٹکڑے پڑے تھے۔ جہاز کے اور انسانوں کے ٹکڑے۔ سوچ کر بھی تکلیف ہوتی ہے۔اس سے دردناک مناظر ایئر پورٹ پر تھے جہاں لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش میں دیوانہ وار بھاگ رہے تھے ‘ شاید کوئی زندہ بچا ہو‘ہر کوئی رو رہا تھا۔میں نے جب یہ مناظر دیکھے تو تھوڑی دیر ایک کونے میں بیٹھ کربہت روئی‘ پھر آنسو صاف کرکے دوبارہ رپورٹنگ شروع کی۔ہسپتالوں میں بھی سوگ کی فضا تھی۔ دونوں طیارے جس دن اسلام آباد میں کریش ہوئے اُس روز بہت بارش تھی ‘ایک طیارہ صبح کے وقت کریش ہوا اور دوسرا رات کے وقت ۔دونوں مسافر طیارے تھے‘ جن میں بھاری جانی نقصان ہوا۔جس وقت جولائی 2010 ء میں ائیر بلیو کا طیارہ گرا‘اس دن میری چھٹی تھی‘ دوست کا فون آیا کہ تم خیریت سے تو ہو؟ میں نے پوچھا‘کیا ہوا؟ اس نے کہا: مارگلہ ہلز پر طیارہ گرا ہے ‘اس میں مسافر جویریہ بھی تھی‘ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ائیر ہوسٹس تھیں ۔اس سانحے میں 149 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔میں آفس پہنچی ‘جائے وقوعہ اور ائیرپورٹ پر کوریج کی‘اگلے روز ہسپتالوں کی کوریج تھی تومجھے آفس سے یہ کہا گیا کہ جن کے پیارے اس میں جاں بحق ہوئے ہیں ان کے انٹرویو لیں ‘ان کے گھر جائیں۔جب میں بطور رپورٹر ان کے گھروں میں گئی تو مائیک سامنے کرنے کی ہمت نہیں ہوئی‘ میں تین گھروں میں گئی‘ لیکن دعا کرکے واپس آگئی۔ڈیسک پرموجود سینئر نے میری سرزنش کی ۔میں نے کہا کہ ایسے گھر جہاں ابھی جسدِ خاکی بھی نہیں پہنچے کیونکہ ان کے پیاروں کے مکمل اعضا بھی نہیں مل رہے‘ ڈی این اے سے وہ ہاتھ پیرپہچان کر انہیں دفن کریں گے‘ تو ان لوگوں سے میں مائیک پر کیا بات کرتی؟یہ شاید میری رپورٹنگ لائف کا پہلا ٹاسک تھا جو میں نے مکمل نہیں کیا‘ کیونکہ میں کسی سے یہ نہیں پوچھ سکتی تھی کہ طیارہ کریش ہوگیا‘ آپ کا پیارا دنیا سے چلا گیا تو آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟اگر کوئی خاندان خود بات کرنے کا خواہش مند ہے تو یہ الگ بات ہے‘ لیکن پوری ٹیم لے کر بغیر اجازت کسی روتے شخص کے آگے مائیک کرنا اتنہائی بداخلاقی اور بے حسی ہے۔دوسرا ہولناک سانحہ 2012 ء بھوجا ائیر لائن کا تھا‘ یہ لوئی بھیر میں گرا اور 127 قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔
ہمارے ملک میں جب بھی فضائی حادثے ہوتے ہیں تو سارا ملبہ پائلٹ پر گرا کر سب بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔اب پائلٹ عالم برزخ سے تو نہیں آئے گا اپنی صفائی میں کچھ کہنے کیلئے‘ اس لئے انتظامیہ اور حکومتیں سب کریو ممبران کو ذمہ دار کہہ دیتے ہیں۔2016 ء میں پی آئی اے کی چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی تھی جس میں عملے کے پانچ ارکان سمیت48افراد شامل تھے ۔اس بدقسمت فلائٹ کے پائلٹ صالح جنجوعہ نے اپنا یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا تھا‘ وہ دورانِ پرواز پاکستان کی خوبصورتی کو ریکارڈ کرکے اپنے چینل پر اپ لوڈ کرتے تھے۔ان کے چینل سے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ طیارے کی لینڈنگ میں کتنے ماہر تھے۔2019 ء میں اس حادثے کے حوالے سے تحقیقات سامنے آئی تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ طیارے کے ایک انجن کے پاور ٹربائن کا بلیڈ ٹوٹ گیا تھا جس کے باعث انجن بندا ہوا اور جہاز کریش کرگیا۔ان بلیڈز کی جانچ نہیں کی گئی تھی اور پرواز کی اجازت دے دی گئی۔ پی آئی اے کا ایک طیارہ2006 ء میں ملتان میں کریش ہوا اور45 مسافر جاں بحق ہوگئے۔ان میں ایک میاں بیوی بھی تھے اور ان کے بچوں کی کفالت ان کے ماموں نامساعد معاشی حالات میں کررہے ہیں۔ اکثر وہ سوشل میڈیا پر اس سانحے سے متعلق اپنی بہن اور بہنوئی کے حوالے سے پوسٹس شیئر کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی یادیں تازہ رہیں۔
ماضی قریب میں پاکستان ائیرفورس اور فوجی طیارے بھی کریش ہوئے۔ اس سال 11 مارچ کو اسلام آباد میں 23 مارچ کی پریڈ کی ریہرسل کرتے ہوئے ایف سولہ کریش کرگیا اور ہونہار پائلٹ نعمان اکرم آبادی کو بچاتے ہوئے شہید ہوگئے۔13 اپریل کو آرمی کا تربیتی مشاق طیارہ گجرات کے قریب گر تباہ ہوگیا اور دونوں پائلٹ شہید ہوگئے۔سات جنوری کو پاک فضائیہ کا ایک تربیتی طیارہ کریش کرگیا تھا جس میں دو پائلٹ شہید ہوئے۔19جولائی کو راولپنڈی میں آرمی ایوی ایشن کا چھوٹا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا جس میں 14 شہریوں سمیت دو پائلٹ اور چھ مسافر جاں بحق ہو گئے۔2019 ء میں پاک فضائیہ کا سیون پی جی طیارہ مستونگ میں گر کر تباہ ہوگیا۔2015ء میں نلتر میں پاک آرمی کا ہیلی ایم آئی 17 کریش ہوگیا ‘ جس میں دو پائلٹ شہید اور عملے کا ایک رکن اورپانچ غیر ملکی سفارت کار مارے گئے۔ 2003ء میں کوہاٹ میں پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر 17 افراد سمیت ائیر کریش میں شہید ہوگئے تھے۔17 اگست 1988 ء کو صدر ضیا الحق کا سی ون تھرٹی کریش کرگیا جس میں30جانیں ضائع ہوئیں۔اس کے علاوہ اور بھی متعدد فضائی حادثات ہوئے جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔
22 مئی کو کورونا کے خوف سے نڈھال عوا م نے یہ سنگین خبر سنی کہ کراچی میں پی آئی اے کا طیارہ لینڈنگ سے چند منٹ قبل کریش کرگیا ہے۔ کورونا کی وجہ سے فضائی سفر پر پابندی تھی‘ حال ہی میں کورونا سے بچاؤ کے ایس او پیز کے ساتھ فضائی مشن کا آغاز کیا گیا کہ لاہور سے کراچی جانے والی بدقسمت پرواز لینڈنگ سے چند لمحے پہلے کریش ہوگئی۔یہ طیارہ مکانوں پر گرا اور اس میں عملے سمیت 99 افراد سوار تھے۔اس حادثے کی لپیٹ میں وہ رہائشی بھی آگئے جن کے گھروں پر یہ طیارہ گرا۔یہ خبر سنتے ہی ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے جہاز پرانے ہو چکے ہیں ؟کیا ان کی دیکھ بھال ٹھیک طریقے سے نہیں ہورہی؟پی آئی اے کی ائیر بس 320 کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کپتان نے لینڈنگ گیئر کی خرابی کی اطلاع دی تھی اور طیارہ ریڈار سے غائب ہوگیا۔کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کی آخری گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ لینڈنگ گیئر کام نہیں کررہے اور بغیر پہیوں کے لینڈنگ ہوگی۔اسی دوران طیارے کے انجن فیل ہوگئے اور طیارہ رہائشی آبادی پر گر گیا۔پائلٹ بہت پراعتماد تھے کہ وہ جہاز لینڈ کرجائیں گے لیکن بیلی لینڈنگ سے پہلے ہی طیارے کے انجن فیل ہوگئے اور طیارہ گرگیا۔سول ایویشن اتھارٹی پر یہ سوالیہ نشان ہے کیا طیاروں کی دیکھ بھال میں غفلت برتی جا رہی ہے؟سیاست نے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو تباہ کردیا ہے۔ہر چیز ایڈہاک پر چلائی جارہی ہے۔ من پسند مشیر سیاسی بنیادوں پر افراد بھرتی کئے جائیں تو اداروں کا یہی حال ہوگا۔ ہمارے ملک میں فلائٹ سٹینڈرڈ ڈپارٹمنٹ کو فعال کرنے کی ضرورت ہے‘طیاروں کی مینٹی نینس کے میکنزم کو بہتر بنانا اورپرواز سے پہلے طیارے کو چیک کرنا ضروری ہے۔
جمعۃ الوداع اور عید سے دو روز قبل طیارے کا سانحہ سب کو سوگ وار کرگیا ہے۔ حکومت لواحقین کی مالی مدد کرے اور جن کے مکان اور گاڑیاں اور دیگر اثاثے اس سانحے میں تباہ ہوئے ہیں ان کی بھی فوری مدد کی جائے۔یہاں پر میڈیا اورسوشل میڈیا یوزرز سے بھی گزارش ہے کہ فضائی حادثے کی کوریج میں احساس اور انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھیں‘ کسی نعش کی تصویر مت پوسٹ کریں ‘بغیر تصدیق کسی کے زخمی اور جاں بحق ہونے کی اطلاع نہ دیں اور جائے وقوع پر رش مت لگائیں۔اللہ تعالی ماہ رمضان میں طیارہ سانحے میں گزر جانے والوں کی بخش فرمائے اور زخمیوں کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔