ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے پاس پریس کانفرنسز اور اجلاس کرنے کے علاوہ کچھ کام نہیں‘ خاص طور پر کورونا وائرس کو لے حکومت ایک مؤثر حکمت علمی لانے میں ناکام رہی ہے۔ کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کووڈ19 نظامِ تنفس کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خشک کھانسی اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کو سانس لینے میں تکلیف شروع ہوجاتی ہے۔تاہم ابھی تک اس کی کوئی دوائی‘ کوئی ویکسین دسیتاب نہیں‘ اس لئے احتیاط ہی اس بیماری کا واحد علاج ہے۔
ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ یہاں سنگین چیزوں کو بھی مذاق میں اڑا دیا جاتا ہے‘یہی کورونا کے معاملے میں بھی ہورہا ہے‘ جتنی خوفناک یہ بیماری ہے اتنا ہی پاکستان میں اس کو غیر سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ جو لوگ الیکشن لڑ کر آتے ہیں وہ تو مقامی مسائل سے واقف ہوتے ہیں لیکن حکومتی مشیران میں سے اکثر باہر کے ممالک سے آتے ہیں ‘وہ زمینی حقائق سے واقف نہیں ہوتے‘ اور ان کے غلط مشوروں سے جمہوری حکومتیں سبکی کا سامنا کرتی ہیں۔ان میں اکثر حکومت کے جاتے ہی اپنے اصل ملک کی طرف رختِ سفر باندھ لیتے ہیں اور ان کے غلط فیصلے پیچھے پارٹیاں اور منتخب ارکان کو مہنگے پڑتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان بھی اس وقت زیادہ مشیران کے قریب ہیں اور منتخب ارکان ان کے گرد کم ہی نظر آتے ہیں۔وزیر اعظم شروع دن سے کورونا کے خلاف حکمت علمی کو لے کر تذبذب کا شکار رہے اور اس طرح سے فیصلے نہیں کرسکے جیسے ان سے امید کی جارہی تھی۔ان کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کورونا کے خلاف حکمت عملی میں بہت کلیئر تھے۔ ان کو یہ معلوم تھا کہ کیا اور کس طرح سے کرنا ہے‘ لیکن ملک میں مؤثر لاک ڈاؤن نہیں ہوا تو سندھ کی مؤثر حکمت عملی کو بھی نقصان پہنچا۔اگر مؤثر لاک ڈاؤن ہوجاتا تو صورتحال اتنی گمبھیر نہ ہوتی جتنی آج ہے۔میں معتدد بار پہلے بھی کہہ چکی ہو کہ جب بجلی کے بل گھر گھر پہنچ جاتے ہیں‘ ووٹ کی پرچی گھر گھر پہنچ جاتی ہے تو امداد کیوں نہیں گھر تک پہنچ سکتی؟اس کے ساتھ ساتھ صاحبِ ثروت افراد بھی دل کھول کر غریبوں کی مدد کرتے اور پندرہ دن مکمل لاک ڈاؤن کردیا جاتا۔مگر جب پاکستانی اشرافیہ ہی سماجی فاصلہ قائم نہیں کررہی‘ ماسک نہیں پہن رہی تو عوام کیا خاک کسی احتیاطی تدبیر پر عمل کریں گے؟
پاکستان کے آدھے عوام پہلے ہی کورونا کو سازش اور جھوٹ گردانتے ہیں‘ ان کو لگتا ہے یہ کورونا سب جھوٹ ہے‘ یہ ان کے خلاف سازش ہے‘ انہیں کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔اس دوران میں حکومت صرف معیشت اور سرمایہ کاری کی بات کرتی رہی اور عوام کی صحت کو بالکل بھول گئی ‘یہ خیال نہ رہا کہ عوام کی زندگی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔حکومت نے سب کچھ عوام پر چھوڑ کر اپنا دامن جھاڑ لیا ہے ۔ابھی تو ٹڈی دَل بھی آگیا ‘ڈینگی بھی آنے کو تیار ہے‘ گرم مرطوب علاقوں میں ہیٹ وویو بھی آئے گی تو کیا تب بھی حکمران سب ذمہ داری عوام پر ڈال کرخود محلات میں پریس کانفرنس اور اجلاس کرتے رہیں گے؟
یہ امید تھی کہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد کچھ ایسے اقدامات کئے جائیں گے جن سے عوام کو کورونا سے بچانے کی نوید سنائی دے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک طرف سکول بند ہونے کے باوجود والدین فیس ادا کرنے پرمجبور ہیں‘ دوسری طرف بہت سے اساتذہ کو سکول بلایا جارہا ہے اور ان کی تنخواہ پر بھی کٹ لگا دیا گیا ہے۔92 فیصد کورونا اس وقت مقامی طور پر پھیل رہا ہے تو اس دوران کیا سماجی فاصلہ ضروری نہیں؟اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک مکمل لاک ڈاؤن ہو جس سے اس کے مقامی پھیلاؤ پر بریک لگ جائے۔اگر صرف سات دن بھی حکومت مکمل لاک ڈاؤن کرجاتی تو کورونا اتنا نہیں پھیلتا جتنا اس وقت پھیل گیا ہے۔ وزیر اعظم تو خود میڈیا پرسنز کے ساتھ ٹی وی پر لائیو ہوتے رہے تو باقی عوام بھی میل ملاپ میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے۔
اس وقت ملک کے ہسپتال کورونا کے مزید مریض لینے سے انکار کررہے ہیں‘جبکہ پرائیوٹ ہسپتالوں کا ایک دن کا خرچ اتنا زیادہ ہے کہ عام انسان وہاں داخل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ بہت سے سنجیدہ حلقے اس بات کا تقاضا کرتے رہے ہیں کہ جس طرح ووہان میں چین نے عارضی ہسپتال کورونا کے لیے قائم کیا تھا اسی طرح دو تین قومی عمارتوں کو کورونا ہسپتال میں تبدیل کردیا جائے اور باقی ہسپتالوں میں دیگر بیماریوں کے مریض جائیں۔اس وقت دل کے مریض ‘ کینسر کے مریض‘ حاملہ خواتین بہت شدید مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔نرسز اور ڈاکٹر کام کی زیادتی کا شکار ہیں ۔کورونا کا خوف‘ سارادن گرمی کے باوجود حفاظتی لباس میں رہنا‘ ان پر یہ خطرے کی تلوار ہر وقت لٹک رہی ہے کہ وہ کس وقت اس جان لیوا بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ڈاکٹرز بار بار اپیل کررہے ہیں کہ گھر پررہیں‘ سماجی فاصلہ اختیار کریں‘مگر عوام تو کہتے ہیں یہ سازش ہے اور ہم کورونا کا شکار نہیں ہوں گے۔ وہی کہانیاں بیچی جارہی‘ جیسے پولیو کے بارے میں تھیں۔ساری دنیا سے یہ بیماری ختم ہوگئی لیکن پاکستان سمیت دو ملکوں میں باقی رہ گئی۔
دوسری طرف سیاحتی مقامات کھولنے کی تیاری جاری ہے‘ اب کورونا شمالی علاقوں میں بھی پنجے گاڑ لے گا۔لاک ڈ اؤن میں نرمی سے جو جانیں جائیں گی ان کا ذمہ دار کون ہوگا؟ عوام یا حکومت؟ کیونکہ حکومت کا تو یہ مؤقف ہے کورونا تو یہاں ہی رہے گا‘ لوگ بھی مریں گے تو عوام کو چاہیے کہ احساسِ ذمہ داری سے احتیاط کریں اور حکومت پر تکیہ نہ ہی کریں۔ مارکیٹ صرف ضرورت کے تحت جائیں اور ماسک‘ گلوز اور شو کور پہن کر واپسی پر ان کو تلف کردیں۔گھر آکر لباس تبدیل کریں‘ ورک فرام ہوم کریں‘ غیر ضروری میل جول سے پرہیز کریں۔اگر آپ کا باہر سے کام کرنا ناگزیر ہے تو ماسک‘ گلوز کا استعمال کریں اور بار بار ہاتھ منہ دھویں۔دفاتر میں ڈس انفیکٹ سپرے روز ہو۔ انتظامیہ دکانوں اور دفاتر کو چیک کریں۔ہجوم میں مت جمع ہوں اور جو لوگ گھر سے کام کرسکتے ہیں وہ دفتر نہ جائیں۔
جس وقت تمام ملک اپنے بارڈر سیل کررہے تھے‘ ہمارے ملک میں بارڈر کھول دیا گیا ‘جس وقت کورونا کے کیسز شدت سے سامنے آرہے ہیں حکومت نے لاک ڈاؤن کھول دیا ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ امداد گھروں میں پہنچائی جائے‘ سخت لاک ڈاؤن کیا جائے۔ملک میں وینٹی لیٹر زکی شدید کمی ہے‘ اس کو پورا کیا جائے۔ ہسپتالوں میں طبی عملے کے لیے حفاظتی اشیا کی کمی نہ ہو۔ یہ سب کیسا ہوگا؟حکومت اپنے خرچے کم کرے ‘ سب گھر سے کھانا اور چائے نوش فرما کر آئیں ‘کم بجلی کا استعمال کیا جائے‘ کم پروٹوکول لیا جائے اور دیگر غیر ضروری خرچے کم کرکے حکومت وہ پیسے کورونا کے خلاف جنگ میں لگائے۔حکومت کا کام پالیسی واضح کرنا ہے سب کچھ عوام پر چھوڑ کر نیرو کی طرح بانسری بجانا نہیں۔