دورِ طالبعلمی میں جب ناول ''مراۃ العروس‘‘ پڑھا تو بہت حیرت ہوئی کہ اصغری جیسی تمیز دار بہوئیں بھی اس معاشرے میں ہوتی ہیں ؟ڈپٹی نذیر احمد کے مذکورہ ناول میں دو بہنوں کی کہانی ہے؛ اکبری پھوہڑ ہوتی ہے اور اصغری سلیقہ شعار ہوتی ہے اور اپنی سلیقہ شعاری سے سسرال کو جنت بنادیتی ہے۔
متوسط طبقے کے افراد آج بھی اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں اور ان کو سلیقہ شعاری سیکھائی جاتی ہے۔جب یہ لڑکیاں بیاہ کر سسرال جاتی ہیں تو ماں باپ ان کو کہتے ہیں کہ اب تمہارا جنازہ ہی یہاں سے واپس آنا چاہے۔بس ‘ یہاں سے مشکلات کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے‘ جو کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بہو پر گھر کا سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور ملازمین کی چھٹی کرادی جاتی ہے۔ نئی نویلی دلہن صبح سے جو کچن میں جاتی ہے تو ناشتے کے بعد دوپہر کا کھانا پکانے اور برتن دھونے کے بعد ہی باہر آتی ہے۔اس کے بعد گھر والوں کے کپڑے دھونا اور انہیں استری کرنا بھی اس کے ذمے ہوتا ہے۔ شام کی چائے کا وقت ہوتا ہے‘ تو پکوڑے ‘ سموسے بھی بنانا ضروری ہیں‘پھر رات کے کھانے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے‘ جب شوہر واپس آتا ہے تو نئی نویلی دلہن لہسن‘ پیاز اور پسینے میں شرابور ہوتی ہے۔وہ اس کو دھتکار کرکہتا ہے کہ تم کتنی گندی رہتی ہو تم سے بو آرہی ہے۔اس دوران سسرالی اکثر تماشا دیکھتے ہیں اور کوئی بہوکی خدمت گزاری کی تعریف نہیں کرتا ہے۔
سسرال میں موجود غیر شادی شدہ نندوں کو مہمان کہہ کر صرف آرام کروایا جاتا ہے کہ کل کو یہ سسرال چلی جائیں گی تو کام ہی کرنا ہے‘ ابھی ان کو بھابھی کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت نہیں۔جب شادی شدہ نند آجائے تو اس کو بھی خوب آرام کروایا جاتا ہے اور بہو کو حکم دیا جاتا ہے کہ کھانے میں پانچ چھ ڈشز بنالو۔اس سب صورت ِ حال میں بہو اپنے میکے سے بات نہیں کرپاتی‘ یہاں تک بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کاموبائل بند کرکے رکھ دو اور میکے والوں کو کہو کہ لینڈ لائن پر فون کیا کریں‘ تاکہ دوسری لائن سے سسرال والے ساری گفتگو آرام سے سن سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شریف لڑکیوں کے ہاتھ میں موبائل فون اچھا نہیں لگتا ‘ لیکن یہ حکم صرف بہو کیلئے ہوتا ہے‘ اپنی بیٹیاں دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے موبائل یوز کرتی ہیں۔بہو پھل یا دودھ استعمال کرے تو اس کو کفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے‘ جو لڑکی سارا دن کام کرے ‘کیا وہ اچھی غذابھی نہیں کھا سکتی ؟گھر کا کام کرتے وقت اس کو گھر کی مالک کہا جاتا ہے‘ لیکن کچھ کھانے کیلئے ساس کی اجازت درکار ہوتی ہے۔بیٹا جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے‘ بہوکی برائیاں شروع ہوجاتی ہیں اور وہ دن بھر کی تھکی ہاری بیوی سے مزید متنفرہوجاتا ہے۔ بہو روتی رہتی ہے ‘کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ نہ سسرال اس کا ہے ‘نہ میکہ اس کا ہے۔اس دوران بچے بھی ہوجاتے ہیں اور بہو کی صحت بھی گر جاتی ہے‘ لیکن کام کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔بوڑھے ساس سسر کی خدمت ‘ شوہر کے کام ‘ گھریلو ذمہ داریاں اور بچے عورتوں کو جسمانی طور پر کمزور کردیتے ہیں ‘وہ آئرن‘ کیلشیم کی کمی شکار ہوجاتی ہے اور تھکاوٹ درد محسوس کرتی ہے‘پر اس کا دکھ درد سننے والا کوئی نہیں‘ وہ تکیے پر خاموشی سے آنسو بہا کر سو جاتی ہے یا کبھی سجدے میں رو پڑتی ہے‘ لیکن کبھی کسی کیلئے بدعا نہیں کرتی‘ کیونکہ اس پر ظلم کرنے والے اس کے اپنے پیارے ہوتے ہیں۔
اب ‘جب سے کورونا وائرس آیا ہے‘ پاکستانی اصغری بہووں پر کام کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔بہت سے پاکستانی خاندان اس کو پکنک کے طور پر لے رہے ہیں تو گرمی میں یہ بہوئیں سارا دن چولہے کی آگ کے آگے کھانے بناتی رہتی ہیں۔ایک اصغری جیسی بہو کو میں جانتی ہوں‘ جس کے سسر اور شوہر کو کورونا ہوچکا اور وہ حاملہ ہونے کے باوجود کام کررہی ہے۔ اس کے ساس ‘دیور‘ نند ‘ خود گاؤں کے گھر میں شفٹ ہوگئے ہیں اور سب کام اس پر چھوڑ گئے۔اس کادم گھٹتا ہے‘ لیکن اس کو ماسک پہننا پڑتا ہے۔ اس کو بار بار الٹیاں آتی ہیں‘ لیکن وہ نیک دل اور خدمت گزار ہے۔وہ صبح اٹھ کر مریض شوہر اور سسر کیلئے پرہیزی کھانا بناتی ہے۔ان کو نیوبلائزر اور سٹیمر سے بھاپ دے رہی ہے۔ڈاکٹر کے ساتھ فون پر رابطے میں ہے ‘ یعنی سارا دن کام کرتی ہے‘ رات کوکبھی وقت ملے تو مجھے فون کرکے روتی ہے کہ وہ دو ماہ سے حاملہ ہے‘ لیکن ڈاکٹر کے پاس نہیں جاسکی‘ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں‘ سارا دن ماسک پہن پہن کر منہ پر نشان پڑ جاتے ہیں اور گلوز سے ہاتھوں پر خارش ہوتی ہے ۔
وہ مجھے پوچھنے لگی کہ ہم جتنا بھی کام کرلیں‘ سسرال والے ہمیں اپنا کیوں نہیں سمجھتے ؟کیا ہماری حیثیت صرف ایک نوکرانی کی سی ہے؟ ہمیں اپنی بیٹی کیوں نہیں سمجھتا جاتا ؟۔میں نے معاشیات میں ڈگری کر رکھی ہے‘لیکن ایک نرس کی طرح کام کررہی ہوں اور ایک ایسے مریضوں کی خدمت کررہی ہوں‘ جن کا مرض مجھے بھی لاحق ہو سکتا ہے۔میں نے اس کو تسلی دے کر کہا کہ پیاری دوست‘ تمہیں اجر اللہ تعالیٰ دے گا۔میری دوست کی خدمت سے اس کا شوہر اور سسردونوں صحت یاب ہورہے ہیں ‘وہ سخت گرمی میں کھانا بنارہی ہے‘ مریضوں کو ٹھنڈ لگتی ہے تووہ اے سی بھی نہیں چلاسکتی ‘اس کا پورا سسرال خود تو اپنی جان بچانے کی خاطر گاؤں چلاگیا اور وہ اکیلے سارا گھر چلا رہی ہے۔کھانے پینے کی اشیا اور پھل فروٹ ‘دوائیاں آن لائن آرڈر کرتی ہے اور پے منٹ بھی آن لائن کرتی ہے‘ تاکہ کسی دکاندار کو جراثیم نہ لگ جائیں۔ڈلیوری بوائے کو کہتی ہے کہ گھر کے کونے پر سامان رکھو‘ گھر کے پاس مت آنا ‘پھر خود وہاں سے اس سامان کو اٹھا کر گھر لاتی ہے۔شوہر اورسسر بستر پر ہیں ‘کسی کو اس کی پروا نہیں کہ اس کو بھی کورونا ہوسکتا ہے‘ وہ حاملہ بھی ہے‘ وہ اتنی نیک دل ہے‘ اپنے میکے والوں کو کہا کہ یہاں میری مدد کیلئے مت آنا ‘میں سب کرلو ں گی کہ کہیں تم لوگ بیمار نہ ہوجاؤ۔جو دونوں بیمار پڑے ہیں ‘انہوں نے لاک ڈاؤن میں خوب میل جول کیا‘ دوستوں سے ملتے رہے اور دعوتیں اڑاتے رہے‘ نتیجہ اب بھگت رہے ہیں۔اصغری بہو نے دبے لفظوں میں منع کیا تو اس کی سرزنش کی گئی کہ چپ رہو اور کچن تک محدود رہو‘ یہ کورونا ورونا کچھ نہیں ۔اب‘ وہ ہی دونوں بستر پر پڑے ہیں اور صرف وہ بہو کام کررہی ہے‘ جس کو ہمیشہ ذلیل کیا گیا۔
کورونا وائرس واقعی مذاق نہیں‘ اصل بیماری ہے‘ لہٰذا خود کو گھر تک محدود رکھیں‘ غیر ضروری باہر نہ نکلیں‘ ماسک پہنیں‘اگر علامات ظاہر ہوں تو خود کا ٹیسٹ مثبت آنے پر قرنطینہ کرلیں اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ہسپتال داخل ہوں اوریہ مرض لوگوں میں نہ پھیلائیں ‘ نیزجو اصغری بہو ئیں‘آپ کے گھروں میں کام کررہی ہیں‘ ان کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں ‘وہ آپ کی نوکرانی نہیں‘آپ کی بیٹیاں ہیں‘ لہٰذاان کو اپنے گھروں کی شہزادیوں کا درجہ دیں!