میں طالب علم تھی جب قومی اسمبلی بطور رپورٹر جوائن کی اور قومی اسمبلی سے پارلیمنٹ ڈائری پروگرام آف دی فلور کی میزبانی کے فرائض انجام دیتی تھی۔اسمبلی میں سائرہ نام کی ایک رپورٹر نظر آئی جو بہت خوش لباس اور خوش اخلاق تھی۔میں نے سوچا ان سے بات کی جائے‘ لیکن میں چونکہ سب میں جونیئر تھی تو تھوڑی جھجک بھی تھی۔اگلے روز جب وہ اسمبلی آئیں تو میں نے سوچا کہ ان سے آج ضرور بات کروں گی‘ وہ بہت خوش نظر آرہی تھیں ‘بات بات پر قہقہے لگا رہی تھیں‘ بہت اچھا تیار تھیں ۔میں نے سوچا جیسے ہی میرے نیوز پروگرام کے انٹرویوز مکمل ہوں گے ان سے آج ضرور ملوں گی‘لیکن میرا کام ختم ہونے سے پہلے وہ چلی گئیں ۔ان کوجاتے وقت تک میں دیکھتی رہی‘اس کے بعد میں ان کو کبھی نہ دیکھ سکی۔ اگلے روز انہوں نے اپنے شوہر کو گولی مار کر خودکشی کرلی ۔میں اتنا دکھی اور پریشان رہی‘ ان کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگا سکتی تھی کہ وہ خودکشی کرنے والی ہیں۔ اس واقعے کے بعد میں اپنی فیملی اور دوستوں سے مزید قریب ہو گئی۔ مجھے ایسا لگنے لگا کہ ہمیں اپنے مسائل‘ غم‘ دکھ اور پریشانیاں چھپانی نہیں چاہئیں۔ ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ سب کچھ شیئر کرنا چاہیے‘ اپنے پیاروں کو بھی سننا چاہیے ۔جتنا ہم ایک دوسرے کے قریب ہوںگے اتنا ہی ذہنی مسائل سے بچ سکیں گے۔جہاں خاندانوں اور دوستوں میں دوریاں آجائیں وہاں ذہنی اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے حادثات انسانوں کو پیش آنے والے سانحات کی وجہ سے بھی جنم لیتے ہیں اور کچھ کیسز میں موروثیت بھی کارفرما ہوتی ہے۔ اگر خاندان میں خودکشی ماضی میں ہوئی ہو تو دوسری نسل میں بھی اس کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ خودکشی کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ محبت میں ناکامی ‘امتحان میں فیل ہو جانا‘ بیماریاں‘ معاشی مسائل ‘ ڈر خوف‘ ذہنی بیماریاں ‘ جینیاتی تبدیلیاں‘ موروثیت‘ڈپریشن ‘ طلاق‘انزائٹی‘اکیلا محسوس کرنا‘ صدمات‘ گھریلو ناچاقی‘خود کو بوجھ محسوس کرنا‘ منشیات کی عادت اور کسی پیارے کی وفات بھی اس کی وجہ بن سکتی ہے۔
حال ہی میں بھارت کے ایک اداکار نے خودکشی کی جس نے اس بحث کو جنم دیا کہ کامیاب اور معروف ہونے کے باوجود اگر کوئی انسان خودکشی کرلے تواس کے پیچھے کیا وجہ ہوسکتی ہے؟سوشانت سنگھ سے پہلے بھی بہت سے اداکار خودکشی کرچکے ہیں جن میں نفیسہ جوزف‘کوشل پنجابی‘سلک سمیتا‘جیا خان شامل ہیں۔یہاں پر ایک اور خودکشی کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ اداکارہ پراتوشا بنیرجی تھیں جو ڈرامہ آرٹسٹ تھیں وہ گھریلو تشدد کا شکار تھیں ‘انہوں نے اپنی جان لے لی۔اس کے ساتھ ہالی وڈ دیکھیں تو روبن ولیمز ساری زندگی دنیا کو ہنساتے رہے مگر انہوں نے بیماری کے باعث خودکشی کرلی۔حسین ترین اداکارہ مارلن منرو نے خودکشی کی ‘جارج ریوس‘مائکل رف‘جوناتھن برنڈیز‘مینڈی میکریڈی‘کرٹ کوبین‘لوسی جارڈن دیگر شامل ہیں۔اس کے ساتھ معروف ڈیزائنر ایلگزنڈر میکین اور کیٹ سپیڈ نے بھی دولت اور شہرت ہونے کے باوجود خودکشی کرلی۔پاکستان میں ماڈلز انعم تنولی اور عینی علی خان نے خود کشی کی۔پاکستان کی ابھرتی ہوئی اداکارہ نازش نے بھی انسٹاگرام پر پوسٹ کیا تھا کہ دو بار خودکشی کا ارادہ کیا ۔وہ دس برس سے ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں‘ تاہم انہوں نے اس کا مقابلہ کیا۔ اداکاروں کے علاوہ دیگر شعبوں کے لوگ بھی خودکشی کرتے ہیں‘ لیکن اداکاروں کے لاکھوں مداح ہوتے ہیں تو ان کی موت کی خبر بہت عرصہ گردش کرتی رہتی ہے۔ششانت سنگھ کی خودکشی نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر خودکشی کے حوالے سے بحث چھیڑ دی ہے اور لوگ ذہنی صحت کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔صدر عارف علوی نے ٹوئٹر پر2018 ء میں مینٹل ہیلتھ ایپ کی بات کی تھی جس سے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی مدد ہوگی‘ لیکن صدر بن کر وہ یہ بھول گئے۔اب کورونا کے بعد سب لوگ مشکل محسوس کررہے ہیں‘ گھروں میں لڑائی جھگڑوں میں اضافہ ہورہاہے‘لوگ ایک ایسی بیماری کے ڈر کے ساتھ جی رہے ہیں جس کا علاج موجود نہیں اور یہ کسی کو بھی لگ سکتی ہے۔اس دوران اگر آپ اپنے اردگرد کسی کو دیکھیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے ‘تنہائی پسند ہوگیا ہے ‘ لوگوں سے نہیں ملتا‘ گندا رہتا ہے‘ تیار نہیں ہوتا‘ باہر نہیں جاتا‘ روزمرہ کے کام نہیں کرپاتا‘اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے‘ روتا ہے‘سو نہیں پاتا ‘ کھانا کم کردیا ہے‘تقریبات میں نہیں جاتا‘ وصیت کرنے لگتا ہے‘ سوشل میڈیا پر دکھی پوسٹ لگاتا ہے‘بے چین ہوتا ہے ‘ایسی علامات کسی گھر کے فرد یا دوست میں دیکھیں تو اس کی مدد کریں۔اس سے بات چیت کی جائے ‘اس کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ اکیلا نہیں۔اس کو طبی مدد دی جائے ‘ ماہر نفسیات سے ملوایا جائے‘ دوا اور تھراپی سے وہ اچھا محسوس کرسکتاہے‘تاہم گھر کے حالات کو بھی اچھا ہونا چاہیے اور گھر کا ماحول پرسکون ہونا چاہیے۔ذہنی دباؤ کے شکار افراد پر طنز نہ کریں‘ طعنے نہیں دیں اور برابھلا نہ کہا جائے۔ذہنی بیماریاں بھی جسمانی بیماریوں کی طرح ہیں۔اس وقت کورونا کے باعث سب گھر وں میں محبو س ہیں تو اس وقت ضرورت ہے کہ آن لائن ایپ اور فون ہیلپ لائن بنائی جائے جس پر لوگ اپنے مسائل کا حل طبی ماہرین سے ڈسکس کر کے حل معلوم کرسکیں۔اس کے ساتھ نفسیات کے ڈاکٹرز کو بھی آن لائن کونسلنگ دینا چاہیے۔ مریض ویڈیو کال سے بھی رابطہ کرسکیں اور دوااور تھراپی حاصل کرسکیں۔
یاد رکھیں‘ آپ کے دو بُرے بول کسی کی زندگی برباد کرسکتے ہیں اور آپ کے دو اچھے بول کسی کو خودکشی سے روک سکتے ہیں۔ اس لئے اپنے اندر نرمی پیدا کریں‘ کسی کے ساتھ بدتمیزی مت کریں‘کسی کا دل نہ توڑیں‘ لوگوں کے خلاف سازشیں مت کریں‘ ان کے گھر اورکیرئیر مت خراب کریں۔ہر کسی کی مدد کریں‘ ان کیلئے مددگار ثابت ہوں۔اگر کسی کو بیمار دیکھیں تو اس کویہ نہ کہیں کہ وہ گناہ گار ہے۔ اس کو الزام مت دیں‘ بلکہ اس کے ساتھ پیار سے پیش آئیں۔دینِ اسلام میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیاہے‘ کیونکہ زندگی‘ انسان کا جسم اور روح اللہ کی ملکیت اور امانت ہیں ‘اس لئے انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو نقصان پہنچائے۔زندگی بہت بڑی نعمت ہے‘ زندگی اور موت کا مالک اللہ تعالی ہے‘ لیکن جسمانی اعضا ء کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ جب بھی کسی کو تکلیف میں دیکھیں تویہ کوشش کریں کہ اس کی مدد کریں‘ اس کیلئے مسئلے کا حل نکالیں‘نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد بہت جلدی اپنے مسائل نہیں بتا پاتے‘ ان کو پیار محبت اور اعتماد دیں‘اس کے ساتھ جو لوگ رشتوں میں تکلیف دیکھتے ہیں ان سے صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ جس نے آپ کی زندگی میں قدر نہیں کی وہ آپ کے مرنے کے بعد کیا قدر کریں گے؟ اس لئے کسی کیلئے جان مت دیں۔
ورزش کریں ‘ چہل قدمی کریں ‘ مثبت لوگوں سے ملیں‘ کونسلنگ کروائیں ‘ ادویات کھائیں ‘قرآن پاک پڑھیں ‘ تلاوت سنیں اور نماز پڑھیں اس سے آپ کو دلی سکون ملے گا۔ اب توبہت سے ماہرین نفسیات نے کلینکس میں ساتھ اسلامک سکالرز بھی بیٹھا لئے ہیں‘ وہ مذہبی تعلیمات کے ذریعے سے علاج کرتے ہیں۔ انسان کا روحانی علاج اور طبی علاج ساتھ ساتھ ہوجاتا ہے ۔اس وقت بہت سے لوگ کورونا کی وجہ سے ذہنی دباو ٔکا شکار ہیں ‘اس بیماری کے باعث ان کے پیارے جاں بحق ہو گئے اور وہ ان کا آخری دیدار بھی نہ کرسکے‘وہ گھر وں میں قرنطینہ کررہے ہیں‘ خوف‘ پریشانی اور ڈر ان کو تباہ کررہا ہے۔ کسی کے کندھے پر وہ سر رکھ کر نہیں رو سکتے تو اس کیلئے ٹی وی ‘ سوشل میڈیا ‘فون اور موبائل ایپس کے ذریعے مدد دیں‘ ایک مفت ہیلپ لائن ہونی چاہیے جس پر رازداری سے لوگ اپنے مسائل شیئر کرسکیں۔اس وقت آن لائن کونسلنگ بہترین ہے‘ کورونا کے وارڈ میں ماہرین نفسیات کو کونسلنگ کیلئے بھیجنا پر خطر ہوسکتا ہے ‘اس لیے ویڈیو لنک یا فون بہترین ہے۔صدرعارف علوی صاحب‘ 2018ء میں آپ نے کہا تھا کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کیلئے مینٹل ہیلتھ ایپ ہونی چاہیے‘ اب آپ صاحبِ اختیار ہیں‘ مینٹل ہیلتھ ایپ بنائیں ‘اس کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں مزید ماہرین نفسیات ہائر کئے جائیں۔ کورونا کی وجہ معاشی‘ذہنی اورنفسیاتی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کو جینے دیں۔