حکومت کے ستارے گردش میں ہیں؟

موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے‘ مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلی باری مل تو گئی‘ لیکن کپتان اور اس کے کھلاڑیوں کو ٹھیک طرح سے کھیلنا نہیں آرہا۔2020ء تو کئی مشکلات لے کر آیا ہے‘ جس میں سرفہرست عالمگیر موذی وباکورونا ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے ‘جس کا علاج تاحال موجود نہیں اور حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ اس وباکو پھیلنے سے روکا جائے۔میں نے پہلے بھی تجویردی تھی کہ 15 دن کا سخت لاک ڈاؤن کیا جائے‘ جس طرح بجلی کے بل گھر گھر پہنچ جاتے ہیں ‘اسی طرح امداد اور کیش بھی غریب عوام تک پہنچایا جائے‘ لیکن حکومت ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن یا جزوی لاک ڈاؤن کی بحث میں الجھی ہوئی ہے۔اس دوران کورونا وائرس ‘ ملک بھر میں پوری طرح پھیل گیا اور ہمارا صحت کا نظام‘ جو پہلے ہی کمزور ہے‘ کورونامریض بڑھنے سے مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔اب‘ ہر گھر‘ ہر خاندان میں کورونا وائرس کے مریض سامنے آرہے ہیں۔کورونا وائرس سے ہونے والی اموات میں کئی لوگ اپنے پیاروں کے چہرے بھی آخری بار نہیں دیکھ پا رہے۔عوام‘ ہسپتالوں میں بیڈز اور وینٹی لیٹرز کے لیے در بدر ہو رہے ہیں ‘ جبکہ ڈاکٹرز اورپیرا میڈیکل سٹاف ‘طبی سامان کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ حکومت ‘ عوام کا درد سمجھنے سے قاصر ہے اورصرف اپنی سیاست میں مصروف ہے۔
اس دوران ذخیرہ اندوزوں‘ منافع خوروں نے بے ایمانی کی انتہا کردی؛ ماسک‘ دوائیاں‘ ہینڈسینی ٹائزرز‘ دستانے‘ انجیکشنز پر عوام کی جس طرح کھال اتاری جا رہی ہے کہ اس کی کوئی نظیر اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آ ئی۔آکسی میڑ دو سے بیس ہزار کا ہوچکا‘ آکسیجن سلنڈرز نایاب ہوگئے ہیں اور تو اور ہرلیب نے کوروناوائرس کے ٹیسٹ کے اپنے ریٹس مقرر کررکھے ہیں؛ کسی نے نو ہزار روپے تو کسی نے بارہ ہزار روپے نرخ مقرر کیا ہوا ہے۔پرائیوٹ ہسپتالوں نے بھی خوب کمائی شروع کر رکھی ہے‘ کورونا کے مریضوں سے ڈیڑھ لاکھ تک یومیہ کمرے کا کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔ایسا ہی حال پلازمہ تھراپی کا ہورہا ہے۔ کچھ لوگوں اور ہسپتالوں نے پلازمہ لاکھوں میں بیچنا شروع کر رکھا ہے۔ اس تمام صورت ِ حال میں مریضوں اور حکومت کی شکست ِ فاش ہورہی ہے۔
دریں اثناگندم و چینی کا بحران آگیا۔ اس پر انکوائری ہوئی تو ذمہ دار وزیر اعظم صاحب کے اردگرد بیٹھے لوگ نکلے‘ بعد ازاں کچھ ان کے اتحادیوں میں سے اور کچھ وفاقی و صوبائی لیول کے وزرا اس بحران کے ذمے دار ٹھہرے۔شوگر مافیا پر جو رپورٹ آئی‘ تو اس میں بھی کچھ ایسی ہی صورت ِ احوال نظر آ ئی‘ لہٰذا تمام شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ ہونا ناگزیر ہے۔سبسڈی دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے‘جنہوں نے گوداموں میں چینی کی ذخیرہ اندوزی کی ان کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ریکوری کرکے پیسے گنے کے کسانوں کو دئیے جانے چاہیے‘اسی طرح آٹا بحران بھی لایا گیا‘ جس میں سیاست دان اور سرکاری افسران ملوث نکلے ؛اس بحران کے نتیجے میں آٹا ستر روپے کلو تک پہنچ گیا۔ آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اس کی ذخیرہ اندوزی کی گئی اور کسانوں بیچاروں کو خوار کیا گیا اور ان کی مجبوری کافائدہ اٹھایا گیا۔آٹا مہنگا کر کے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لینے کی کوشش کی گئی۔جب وزیراعظم عمران خان کے سامنے آٹا بحران کی رپورٹ پیش کی گئی تو اس میں صاف لکھا تھا کہ ملک میں کوئی گندم کا بحران نہیں تھا‘ اس کی وجہ صرف بدانتظامی تھی‘ ملک میں دو اعشاریہ ایک ملین میٹرک ٹن گندم موجود ہے۔اس کے ساتھ ٹڈی دل کا عفریت بھی آیا اور اس نے بھی پاکستان کے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور تاحال ٹڈی دل کے حملے ملک میں جاری ہیں۔ بنی اسرائیل پر جو عذاب مسلط ہوئے‘ ان میں ٹڈیوں کا عذاب بھی شامل تھا۔ یہ پڑھ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں نے دعا کی یا اللہ ہماری قوم پرسے یہ تمام عذاب ختم کردے ‘لیکن وبا کے ان دنوں میں بھی جب لوگ گناہوں سے باز نہیں آرہے ‘ ذخیرہ اندوزی ‘ منافع خوری اور کرپشن کی جا رہی ہے ‘ تو پھر اللہ کے عضب کا شکار تو ہم ہوں گے۔ٹڈی دل نے بلوچستان سندھ اور پنجاب کے بہت سے کھیت کھلیان چٹ کرلئے اور کسان کنگال ہوچکے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ آگے چل کر یہ صورت ِ حال غذائی بحران کی شکل اختیار کرلے گا۔ادھرعید الفطر سے دو دن قبل پی آئی اے کا طیارہ گرگیا۔ لواحقین روتے پیٹتے رہے‘ ڈی این اے کے نام پر طویل انتظار کروایا گیا‘ لیکن جب انکوائری رپورٹ آئی تو پائلٹوں پر سب الزام دھر دیا گیا اور باقی سب بری الذمہ ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ ان معاملات ومسائل کو کس نے حل کرنا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے‘اسی طرح رواں سال متعدد ٹرین حادثات میں کئی مسافر چل بسے‘ لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ سب حادثات کیسے ہوئے؟لواحقین ابھی تک منتظر رہے کہ شاید حکومت اس بابت بھی کوئی انکوائری کروائے گی‘ لیکن تاحال ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس تمام صورت ِ حال میں اگرجناب وزیر اعظم ‘منتخب افراد کے قریب ہوتے تو ان کوزمینی حقائق زیادہ معلوم ہوتے اور وہ کھل کر فیصلے کرتے اور ہیرو کہلاتے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں۔کورونا وائرس کو ہی لے لیجئے‘ لاک ڈاؤن لگانا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ بر وقت نہ ہو سکا اور اب کورونا وائرس ہر طرف پھیل چکا ہے۔ 
ادھرکسی کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو کسی کی ملازمت ختم ہو چکی‘ لیکن اقتدار کے ایوانوں کی اونچی دیواروں کے پار عوام کی رسائی نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ ہو سکے گی۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ منظم طریقے سے وزیراعظم کو منتخب ارکان اسمبلی سے دور کردیا گیا ہے‘ ان کے دائیں اور بائیں غیر منتخب مشیران اور معاونین زیادہ ہیں اور وہی فیصلہ ساز ہیں‘ لہٰذا وہ زمینی حقائق سے اس طرح واقف نہیں‘ جس طرح ووٹ لے کر منتخب ہونے والاایک رکن ہوتا ہے۔ان تمام معاونین اور مشیران کی شہریت اور اثاثے پبلک کئے جائیں اور میرے نزدیک دُہری شہریت والو ں کو اہم قومی معاملات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔دہری شہریت والوں کو کابینہ اجلاس سکیورٹی معاملات میں بیٹھے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ کیونکہ اگر انہیں الیکشن لڑنے کا حق حاصل نہیں تو انہیں طاقت کے ایوانوں میں آنے کا بھی حق حاصل نہیں ۔ اس حوالے سے ایک وزیر نے بجا کہا ہے کہ پارٹی کے اندورنی جھگڑوں سے بہت نقصان ہوا۔ وزیر اعظم بہترین لوگوں کو عہدے دیں اور کمزور لوگوں کو نہیں‘ کیونکہ فیصلہ سازی کمزور نہیں بہترین اور ذہین لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں پٹرول سستا ہوا ‘ تونایاب ہوگیا ‘ تاہم اب وفاقی حکومت نے پٹرول مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر25روپے 58پیسے تک کے اضافہ کی منظوری دیدی ہے۔ ملک میں کاروباری مندی‘بے روزگاری اور بے قابو ہوتی مہنگائی کی موجودگی میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں یک لخت اس قدر اضافے نے عوامی سطح پر حکومتی فیصلے پر شدید ناراضی اور تنقید کا دروازہ کھول دیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق‘ پٹرول کی نئی قیمت 100روپے 10پیسے مقرر کی گئی ہے۔ ڈیزل کی قیمت 21روپے 31پیسے فی لٹر اضافے کے بعد 101روپے 46پیسے‘ مٹی کے تیل کی قیمت ساڑھے 23روپے فی لٹر اضافے کے بعد 59روپے 6پیسے مقرر کی گئی ہے۔ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17روپے 84پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ عوام اس پٹرول بم پرپریشان ہیں اور صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘وزیر اعظم عمران خان اور اسد عمر صاحب کے پرانے ٹویٹس نکال نکال کر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناجا رہا ہے کہ کس طرح وہ پہلے ان اقدامات پر تنقید کرتے تھے اور اب وہی اقدامات خود کررہے ہیں۔حکومت عوام سے ایک لیٹر پٹرول پر قریباً46 روپے ٹیکس وصول کررہی ہے‘ کورونا کی وبا میں ریلیف دینے کی بجائے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔عوام کی طرف سے شدید احتجاج اور قیمتوں میں اضافے کے طریقہ کار کے غیر شفاف ہونے کے باعث یہ فیصلہ حکومتی نظرثانی کا متقاضی ہے۔ آخر میں صرف اتنا کہوں کہ مذکورہ بالا تمام صورت ِ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ستارے گردش میں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں