حوا کی بیٹی

اُس کے منہ پر جب شوہر کی طرف سے پہلا تھپڑ پڑا تو اس کو پتا چل گیا کہ آگے کی زندگی کتنی دردناک گزرے گی۔ وہ خوبصورت تھی‘ خوش شکل تھی‘ تعلیم یافتہ تھی اور خوش مزاج بھی۔ جب ہنستی تھی تو آواز پورے کالج اور گھر میں گونجتی تھی۔ اس کی دادی اس کو ٹوکتی کہ اتنا نہیں ہنستے‘ آگے جاکر رونا پڑتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی:دادی آپ کن وقتوں کی باتیں کرتی ہیں؟ کوئی مجھے ایک آنسو رلائے گا‘ میں اس کو سو آنسو رلائوں گی۔ دادی کہتی: یہ مردوں کا معاشرہ ہے‘ ہم عورتوں کی کہاں چلتی ہے؟ وہ ہنستے ہوئے ٹال دیتی‘ اس کے بڑے بڑے خواب تھے‘ اسے بہت کچھ کرنا تھا۔ ایک سیمینار میں اُس سے ملاقات ہوئی تو اپنا دل ہار بیٹھی‘ سب کو بہت مشکل سے منایا‘ شادی ہوگئی۔ شروع کے چند دن تو اچھے رہے لیکن پھر اس کو اپنے شوہر کا اصل رنگ نظر آنا شروع ہوگیا۔ پہلا تھپڑ اس کو اس بات پر پڑا کہ رات کو شوہر کی ایک آواز پر نہیں اٹھی۔ وہ حیران ہوگئی کہ وہ سوئی ہوئی تھی اور اس کے منہ پر شوہر نے طمانچہ رسید کر دیا کیونکہ اس کو چائے کی طلب ہو رہی تھی‘ اس کے سر میں درد تھا۔ وہ آنسو بہاتے ہوئے چائے بنانے لگی‘ اس کا سر بھی دبایا۔ جب وہ سو گیا تو دوسری طرف منہ کرکے ساری رات بنا آواز کے آنسو بہاتی رہی۔
اس کے بعد تو معمول بن گیا‘ کبھی کھانے میں نقص نکال کر وہ اس کو مارتا‘کبھی اس کے گھر والوں کی برائیاں کرکے اس کو مارتا‘ اس کو آگے پڑھنے کی بھی اجازت نہیں دی‘ یہاں تک کہ وہ اس کو بتائے بنا بازار اور میکے تک بھی نہیں جا سکتی تھی۔ ہر روز کے لڑائی جھگڑے سے اس کی طبیعت خراب رہنے لگی‘ وہ اچانک بیہوش ہو جاتی‘ کچھ کھایا پیا نہیں جاتا تھا۔ اس کے شوہر نے اس پر مزید ظلم کرنا شروع کر دیے‘ پھر ایک دن خبر آئی کہ اس کو کرنٹ لگ گیا ہے اور وہ مرگئی ہے۔ وہ مر گئی یا مار دی گئی‘ اس کا کسی کو نہیں پتا اور اس کے شوہر نے ایک ماہ بعد ہی دوسری شادی کر لی۔ جب بھی وہ اپنے میکے آتی تھی ایک زندہ لاش لگتی تھی‘ جیسے ہنسنا اور بولنا بھول گئی ہو‘ پھر اس نے ہمت کرکے اپنی بھابھی کو سب کچھ بتایا لیکن اس کی بھابھی نے کہا: عورت ہی گھر سنوارتی اور بگاڑتی ہے‘ تم صبر کرو‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر تھوڑی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ وہ صبر کرتے کرتے مرگئی۔
ہمارے ہاں ایک رواج ہے کہ اگر لڑکا خراب ہے‘ لاابالی ہے‘ آوارہ ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی شادی کر دو‘ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ارے! لڑکی کیا کوئی ہسپتال ہے جہاں مریض ٹھیک ہوجائیں گے؟ ہرگز نہیں! ایک کم سن لڑکی پر ایک ایسا آدمی لاد دیا جاتا ہے جس میں دنیا کی ہر برائی موجود ہوتی ہے اور وہ اس لڑکی کو اپنی ملکیت سمجھ کر مار پیٹ شروع کر دیتا ہے۔ جس طبقے سے میں تعلق رکھتی ہوں‘ وہاں لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں‘ اپنے پیروں پر کھڑی ہیں‘ لیکن ان میں سے کچھ اپنی زندگی میں وہ ذلت اٹھا رہی ہیں کہ اللہ کی پناہ! جس کے شوہر نے اس کو پیسے‘ دولت کے حوالے سے خوشحال رکھا ہے وہ اس کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہے‘ مارتا ہے‘ نوکروں کے سامنے گالیاں دیتا ہے‘ اس کے میکے والوں کو ذلیل کرتا ہے‘ تو کسی کو شوہر یہ کہتا ہے کہ جو کما رہی ہو سب کچھ میرے ہاتھ پر رکھو۔کسی کا شوہر متعدد شادیاں کر چکا ہے تو کسی کا شوہر ویسے ہی دوسری خواتین سے دوستیاں رکھے ہوئے ہے۔
اس سب صورتحال میں یہ لڑکیاں اپنے بچوں‘ گھروالوں کی وجہ سے مجبور ہو جاتی ہیں اور اسی وحشی درندے کے ساتھ زندگی گزار دیتی ہیں۔ ایسی صورت میں لڑکیاں زندہ لاشیں بن جاتی ہیں‘روز میک اپ سے زخم چھپاتی ہیں‘ بچوں‘ ماں‘ باپ اور بہن بھائیوں کو 'سب ٹھیک ہے‘ کہہ کر جھوٹ بولتی ہیں۔ جو پڑھی لکھی ہیں‘ امیر ہیں‘ وہ یوگا‘ ورزش‘ سائیکو تھراپی‘ دینی درس سے اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔کچھ سوشل میڈیا پر اپنے دکھ‘ شاعری کی صورت میں پوسٹ کرتی ہیں تو کچھ چپ چاپ ہی مر جاتی ہیں۔ جب یہ مر جاتی ہیں تو ان کے ظالم شوہروں کو دوسری بیوی لانے کی پڑ جاتی ہے۔
انسان کو درندہ بننے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ حاکمیت‘ مردانگی کا تفاخر‘ دین سے دوری‘ تربیت کی کمی‘ بے جا آزادی ان کو بگاڑ رہی ہے۔ اس وقت بیٹیوں سے زیادہ بیٹے کی تربیت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کو یہ مت کہیں کہ اب تمہاری لاش ہی سسرال سے واپس آئے گی‘ ان کو کہیں کہ تمہیں گھرگھرہستی میں کوئی بھی مشکل پیش آئے تو یاد رکھنا ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ لیکن اگر کوئی تمہیں مارے پیٹے تو یاد رکھو کہ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں‘ اسی وقت واپس آ جانا کیونکہ انسانوں کے ساتھ رہا جاتا ہے‘ درندوں کے ساتھ نہیں۔
گزشتہ دنوں ایک نوجوان لڑکی صدف زہرا اپنی جان کی بازی ہار گئی‘ دس دن تک تو خبر دبی رہی لیکن پھر سوشل میڈیا پر اس کے رشتہ دار انصاف کی دہائی دینے لگے۔ صدف زہرا نقوی کی بہن کے مطابق مرحومہ کا شوہراس کو مارتا تھا‘ گالیاں دیتا تھا‘ اس کے شوہر کے دیگر خواتین کے ساتھ بھی تعلقات تھے ‘ وہ اور بھی بہت سی خواتین کو بلیک میل کر رہا تھا۔ صدف کے علم میں جب یہ باتیں آئیں تو اس نے شوہر کو منع کیا اس کے بعد سے شوہر کا رویہ مزید برا ہوگیا۔ مارپیٹ گالم گلوچ روز کا معمول بن گیا۔ مقتولہ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کا شوہر سوشل میڈیا پر متعدد فیک اکائونٹس چلا رہا ہے اور لوگوں کو بلیک میل کر رہا ہے۔ تین سال کی شادی میں چونکہ ایک بیٹی بھی ہوگئی تھی اس لئے صدف الگ ہونے کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہی‘ جب تمام چیزیں بیٹی کی پیدائش کے بعد بھی جاری رہیں تو وہ روٹھ کر میکے چلی گئی لیکن شوہر منا کر واپس لے آیا اور کچھ دن بعد صدف کی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش ملی۔ صدف کا شوہر اس وقت جیل میں ہے اور صدف کے گھر والے سوشل میڈیا پر انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔ 'جسٹس فار زہرا‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔مرحومہ صدف زہرا کی بہن مہوش زہرا نے یہ کہا کہ ان کی بہن کے جسم پر تشدد کے نشان تھے‘ جب اس کو اطلاع دی گئی تو بہن کو مرے آٹھ گھنٹے ہوچکے تھے۔ اس نے کہا کہ اس کی بہن کے شوہر نے ہی اس کی بہن کو قتل کیا ہے۔ جب میں نے مرحومہ صدف زہرا کی ٹویٹر ٹائم لائن دیکھی تو پن ٹویٹ دیکھ کر بہت افسوس ہوا‘ اس نے گھریلو تشدد پر پورا تھریڈ لکھا تھا۔ کاش کہ وہ اُس وقت یہ بھی بول دیتی کہ یہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کاش کہ وہ اس شادی کو ختم کر دیتی تو آج زندہ ہوتی۔ اس نے سب کچھ اپنے گھر والوں کو بتایا مگر بہت تاخیر سے۔ کاش وہ جلد فیصلہ کر لیتی لیکن ہمارا معاشرہ زانی‘ شرابی‘ جواری اور چور کو تو معاف کردیتا ہے لیکن طلاق کو ڈگری کی طرح عورت کے گلے میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں طلاق ہوئی تو وہاں عورت پر طلاق یافتہ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ میری حیرت کی اس وقت انتہا نہیں رہتی جب کوئی خاتون نادرا میں طلاق کے بعد اپنا شناختی کارڈ تبدیل کرانے جاتی ہے تو اس کے ڈیٹا میں اسے طلاق یافتہ لکھ دیا جاتا ہے‘ حالانکہ اس کے بجائے اسے سنگل لکھا جانا چاہیے۔کیا وہ مرد‘ جس کی طلاق ہوتی ہے‘ اس کے ساتھ بھی طلاق یافتہ لکھا جاتا ہے؟
اس وقت ملک میں بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں‘ اس کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایسے شوہر جو بیویوں پر تشدد کرتے ہیں‘ ان کو گالیاں دیتے ہیں‘ ان کو خرچ نہیں دیتے‘ ان کی جاب‘ تعلیم پر پابندی لگاتے ہیں‘ ان کو سزا اور جرمانے ہونے چاہئیں۔ جو اپنی بیویوں کی موجودگی میں دوسری خواتین سے مراسم رکھتے ہیں‘ ان کو خاص طور پر شرعی سزائیں ملنی چاہئیں۔ جو خواتین سے جہیز کی ڈیمانڈ کریں‘ ان سے زیورات چھین لیں اور ان کے والدین سے ناجائز مطالبے کریں‘ ان کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت اور پولیس‘ ہیلپ لائن بنائے تاکہ خواتین کو مدد ملے لیکن جب تک یہاں بات میڈیا اور سوشل میڈیا پر نہیں آتی‘ انصاف نہیں ملتا۔خواتین پر نفسیاتی‘ جذباتی اور جسمانی تشدد جرم ہے‘ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں