وہ ایک چھوٹی بچی تھی‘ ایک بار گھر سے کھیلنے کے لیے باہر نکلی تو ایک انجان شخص اس کو پکڑ کر زبردستی ایک سنسان سی جگہ پر لے گیا۔اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ لوگ وہاں آ گئے تو اس آدمی کی گرفت ڈھیلی ہو گئی اور بچی بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اس نے اپنا لباس ٹھیک کیا اور گھر آ کرایک کونے میں چھپ گئی اور رونے لگی۔ روتے روتے وہ سوچنے لگی کہ یہ سب کیا تھا کیونکہ 5 سال کی عمر میں اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ وہ بچی اب بڑی ہوگئی ہے لیکن اب مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا ہے۔ دوائیاں کھاتی ہے‘ تھراپی کراتی ہے لیکن خوف نے اس کی شخصیت مسخ کر دی ہے، ڈاکٹرز بچپن میں ہونے والے واقعے کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ایک غلیظ اور مکروہ شخص کی غلط حرکت اس بچی کی ساری زندگی تباہ کر گئی۔
بچے اللہ کی سب سے پیاری نعمت ہیں‘ انہیں اچھا مستقبل فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ ان کی حفاطت کرنا‘ اچھا ماحول مہیا کرنا‘ ان کی تعلیم اور صحت‘ یہ سب ماں باپ کیساتھ ساتھ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔ مگر ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں نہ بچوں کیلئے اچھی تعلیم ہے‘ نہ ہی ان کو صحت کی سہولتیں میسر ہیں‘ ان کیلئے گھر کے اندر یا باہر کھیل کود کے مواقع بھی کم ہیں۔ تاہم اگر یہ چیزیں ایک طرف رکھیں تو سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ان پر جنسی تشدد کرکے انہیں قتل کیا جا رہا ہے اور جو بچے بچ جاتے ہیں‘ وہ بھی کون سا زندہ رہتے ہیں؟ وہ اتنی زیادہ ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ باقی تمام عمر ایک اچھی اور نارمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو اخلاقیات کی اشد ضرورت ہے۔
صرف زیادتی ہی جنسی تشدد میں نہیں آتی‘ کوئی بھی شخص اگر کسی بچے کے پوشیدہ اعضاء کو ہاتھ لگائے یا اپنے اعضاء بچے پر ظاہر کرے‘ بچے کی برہنہ وڈیو بنائے‘ اس کو بلیک میل کرے، بچے کو نازیبا وڈیوز بھیجے یا ایسا مواد دیکھنے پر مجبور کرے‘ بچے سے ذومعنی گفتگو کرے تو یہ سب کچھ بھی جنسی تشدد ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
ہمیں بچوں کو مکمل آگاہی دینا ہوگی‘ انہیں ہم کم سنی میں بہت تفصیل سے تو نہیں بتا سکتے لیکن انہیں یہ تو سمجھایا جا سکتا ہے کہ ان کے جسم کے پوشیدہ حصے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اگر انہیں کوئی ایسے چھوئے جس سے انہیں برا محسوس ہو یا کوئی ان کے جسم کے پوشیدہ حصوں کو ہاتھ لگائے تو وہ فوری طور پر شور مچا دیں اور اپنے والدین یا بڑوں کو بتائیں‘ اگر سکول میں کوئی ایسا کرتا ہے تو فوراً اپنے ٹیچرز کو مطلع کریں۔ بچوں کو اپنی جسمانی حفاظت کے حوالے سے مکمل آگاہی دیں کہ وہ کسی بھی ملازم یا رشتہ دار کے کمرے میں جانے بالخصوص اکیلے ساتھ جانے سے گریز کریں، والدین کو بھی چاہیے کہ دیگر لوگوں کو منع کریں کہ وہ ان کے بچوں کو بلاوجہ گود میں نہ لیں۔ جب کوئی ملازم، رشتہ دار یا کوئی خوانچہ فروش بچے کو مفت میں کوئی چیز دے تو درحقیقت اس کا مقصد بچے کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے‘ اس لیے بچوں کو یہ بات بتائی جائے کہ گھر کے افراد کے علاوہ کسی سے کوئی چیز نہ لیں۔ کم سن بچوں کو گھریلو ملازمین سے بھی دور رکھیں اور اپنی نگرانی میں ہی سکول سے لیں، ٹیوشن یا قرآن پڑھاتے وقت بھی اپنے بچوں کو ایسے کمرے میں اساتذہ کے ساتھ بٹھائیں جہاں سے آپ ان پر نظر رکھ سکیں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو ہرگز کمرے میں اکیلا نہ چھوڑیں‘ نہ ہی گلی یا پارک میں ان کو اکیلا جانے دیں۔ اگر والدین خود مصروف ہیں تو دادا دادی یا نانا نانی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر اس عمر میں بچہ کسی جسمانی تشدد یا جنسی زیادتی کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات بچے کی اعصابی اور نفسیاتی صحت پر زندگی بھر کے لیے مرتب ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا‘ بچے جنسی زیادتی کے بعد قتل ہو رہے ہیں اور معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اگر معاملہ میڈیا تک آ جائے تو بچوں کے لواحقین کو یہ ڈھارس ملتی ہے کہ شاید اب ان کی شنوائی ہو جائے گی وگرنہ بہت سے واقعات دب کر رہ جاتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق 2019ء میں جو 1304 کیس رپورٹ ہوئے ان 56 فیصد لڑکیاں اور 44 فیصد لڑکے شامل تھے اور 35 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ صرف بچیوں کے لئے خطرہ نہیں ہے‘ بچے بھی اتنے ہی غیر محفوظ ہیں۔ بچے کو خطرہ صرف گلی، مارکیٹ، سکول، مدرسے یا کھیل کے میدان میں نہیں ہے بلکہ یہ خطرہ گھر میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے بچوں کو ہم دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں؛ ایک جو گھر میں رہتے ہیں، دوسرے جو غربت‘ ملازمت یا یتیمی کے باعث گھر سے محروم ہیں۔ ان دونوں طرح کے بچوں کے لئے ہر طرف خطرات موجود ہیں۔ شرپسند مجرم ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور ایسے بچوں کو پکڑ کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ محض ذہنی مریض نہیں ہوتے‘ بلکہ بہت چالاک‘ سفاک اور مجرمانہ ذہنیت کے مالک بھی ہوتے ہیں۔
قصور شہر کی زینب کے سانحے پر ہر انکھ اشکبار تھی‘ پورے پاکستان میں احتجاج ہوا‘ میڈیا و سوشل میڈیا پر ہر کوئی زینب کیلئے دکھی تھا اور مجرم کیلئے سخت سزا کا مطالبہ کر رہا تھا‘ پھر مجرم پکڑا گیا‘ اس کو پھانسی بھی ہوگئی لیکن آج بھی بچے محفوظ نہیں ہیں۔ معصوم زینب کے قتل کے بعد ٹی وی‘ ریڈیو اور سوشل میڈیا پر بچوں کی حفاظت کے حوالے سے بہت بات کی گئی لیکن بچے آج بھی خطرے میں ہیں کیونکہ بچے اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتے ہیں نہ کسی طاقتور سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
خیرپور میں سارنگ شر نامی ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے‘ وہ بچوں کو پڑھاتا تھا اور موقع پاتے ہی ان کے ساتھ زیادتی بھی کرتا اور وڈیو بھی ریکارڈ کرتا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ استاد جیسا معتبر اور محترم رشتہ بھی یہ مکروہ فعل انجام دے سکتا ہے‘ بچوں کے ساتھ یہ گناہ کرنا پھر ان کی وڈیوز بنانا‘ ہمارا معاشرہ آخر کس طرف جا رہا ہے؟ کیا معاشرہ اسلام اور اخلاقیات سے اتنا دور ہوگیا ہے کہ مکروہ اور حرام کام کرتے ہوئے اس گناہ کو ریکارڈ کرنے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتا؟ میڈیا و سوشل میڈیا پر لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ اس مکروہ شخص کو دنیا کے سامنے نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آگے کوئی شخص ایسا کرنے کا سوچے بھی نہیں۔
ملک میں اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ بچوں پر ہونے والے جرائم کے مجرموں کو شرعی سزائیں دی جائیں تاکہ کسی کی ہمت نہیں ہو کہ وہ بچوں پہ میلی نظر ڈال سکے۔ اس کے ساتھ نصاب میں بھی طالب علموں کو اس حوالے سے پڑھایا جائے تاکہ انہیں صحیح اور غلط کی پہچان ہو سکے۔ چھوٹے بچوں کے نصاب میں جسم کی حفاظت کے حوالے سے باب شامل کئے جائیں۔ مساجد میں اور ٹی وی پر بچوں کی حفاطت کے حوالے والدین کو آگاہی دی جائے۔ جنسی تبدیلیوں اور تولیدی صحت پر بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دورِ بلوغت سے گزرنے والے بچوں کو ماں باپ کی خصوصی ضرورت ہے‘ انہیں جسمانی تبدیلوں کے بارے مکمل اگاہی دیں‘ ان کی سرگرمیوں کو بھی اپنے علم میں لائیں کہ کہیں ان کو کوئی بلیک میل تو نہیں کر رہا۔ اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔