مجھے یاد ہے‘ میں سکول میں پڑھتی تھی جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر خود ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جمہوریت کے یوں لپیٹے جانے پر مجھے بہت دکھ ہوا‘ اگلے روز میں سکول میں چپکے چپکے اپنے آنسو صاف کرتی رہی لیکن میری مرحومہ استاد‘ اللہ ان کو غریق رحمت کرے، مسز نقوی نے دیکھ لیا اور میرے پاس آکر پوچھا: بیٹا طبیعت ٹھیک ہے؟ کیا ہوا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں منتخب حکومت کے جانے پر رو رہی ہو لیکن باقی سب لوگ اتنے نارمل کیوں ہیں۔ وہ مسکرا کر کہنے لگیں: بچوں کو ان چیزوں سے ابھی اتنا لگائو نہیں‘ آپ چونکہ تقاریر کرتی ہیں اور لکھتی ہیں‘ اس لیے آپ کا رجحان اس طرف زیادہ ہے اور جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم اپنی زندگی میں پہلے بھی دو مارشل لا دیکھ چکے ہیں، کچھ نہیں ہوگا‘ یہ ملک اسی طرح چلتا رہے گا۔ مجھے انہوں نے تسلی دی اور پھر ہم روٹین کا کام کرنے لگے۔
اس وقت میاں اظہر ملک کی سیاست پر ابھرے‘ میں اخباروں کا مطالعہ بہت شوق سے کرتی تھی‘ مجھے لگتا تھا کہ وہی وزیراعظم بنیں گے مگر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔ پھر جب وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر استعفا دے کر گئے تو مجھے لگا اب شاید مسلم لیگ قاف کے کسی مرکزی رہنما کو وزیراعظم بنایا جائے گا لیکن چودھری شجاعت حسین جیسے زیرک سیاستدان کو محض ایک نگران کے طور پر وزیراعظم بنایا گیا اوراصل قرعہ نکلا شوکت عزیز کے نام۔ جو امریکا سے آئے تھے‘ پہلے وہ ملک کے معاشی امور دیکھتے رہے پھرانہوں نے وزیراعظم کی مسند سنبھال لی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری اشرافیہ کسی احساسِ کمتری کا شکار ہے‘ جس کسی کے ساتھ کسی باہر کے ملک کا ٹیگ لگا ہوتا ہے‘ اس کو یہ سر پر بٹھا لیتے ہیں اور مقامی سیاسی قیادت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ ایسی مثال شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ملتی ہو کہ کچھ عرصے کیلئے کوئی باہر سے آئے‘ ملک کے سب سے اہم اور حساس عہدے پر براجمان ہو اور پھر اقتدار ختم ہوتے ہی اپنے اصل ملک لوٹ جائے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب 2004ء میں کانگریس نے بھارت میں الیکشن جیتا تو لگتا تھا کہ سونیا گاندھی وزیراعظم بنیں گی لیکن ان کے اطالوی نژاد ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا اور وزیراعظم منموہن سنگھ بن گئے۔ حالانکہ سونیا گاندھی نے 1983ء میں اپنی اطالوی شہریت سرنڈر کر دی تھی لیکن پھر بھی بھارتی جمہوریت نے انہیں وزیراعظم کی کرسی پر نہیں بیٹھنے دیا۔ لیکن پاکستان میں سب چلتا ہے۔ پرویز مشرف کی کابینہ میں کچھ اور بھی ارکان دہری شہریت کے مالک تھے۔ اس سے پہلے معین قریشی‘ جو پاکستان کے نگران وزیراعظم رہے‘ وہ بھی امپورٹ کئے گئے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے عہدوں پر رہے‘ کچھ عرصہ پاکستان کے معاملات دیکھتے رہے اور پھر اپنے اصل وطن یعنی امریکہ لوٹ گئے اور 2016ء میں وہیں انتقال کرگئے۔ مجھے دہری شہریت کے حامل افراد کی قابلیت پر کوئی شک نہیں‘ لیکن کیا اس ملک میں محض پاکستانی شہریت رکھنے والے قابل نہیں؟ جب جمہوری حکومتیں آئیں‘ تب بھی یہی تماشا جاری رہا، کوئی دہری شہریت کا مالک نکلا تو کوئی اقامہ ہولڈر۔ اور ہم دنگ رہ گئے ان کی استادیوں پر کہ پاکستان کی آمریت اور جمہوریت میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔
میمو گیٹ ہوا‘ پاکستان کا امریکہ میں سفیر ہی پاکستان کے خلاف کام کرتا رہا‘ خواجہ آصف اور احسن اقبال اقامہ ہولڈر نکلے‘ نواز شریف اسی بنیاد پر سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے‘ مریم نواز کہتی تھیں کہ ان کی لندن تو کیا‘ پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں مگر پھر خود ہی اعتراف کیا کہ وہ ایک ارب کے اثاثوں کی مالکن ہیں۔ پاناما کیس میں نواز شریف جو اس وقت وزیراعظم تھے‘ کے بیٹوں نے جواب جمع کروانے کے بجائے کہا کہ وہ غیر ملکی شہری ہیں۔ یہ سب پاکستان میں عام بات ہے۔ اشرافیہ اپنے مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ جہاں عام پاکستانی شہری کو بنا شناختی کارڈ اہم قومی عمارات کے پاس سے بھی نہیں گزرنے دیا جاتا وہاں ملک کے حساس اداروں میں غیر ملکیوں اور دہری شہریت والوں کو رسائی حاصل ہے۔ ایسی مناققت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے لیکن اب انہیں حکومت میں دو سال ہو گئے ہیں‘ اب تک نئے پاکستان کو بالکل پرانے پاکستان کی طرح چلایا جا رہا ہے اور سب سے پہلے پرانے کارکنان کو ایک طرف کیا گیا۔ اب وزیراعظم کے اردگرد صرف ان کے دوست اور مشیران ہی نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے حلقوں سے بھاری ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکانِ اسمبلی کو وزیراعظم تک آسانی سے رسائی حاصل نہیں۔ وہ اکثر گلہ کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کے اردگرد زیادہ تر غیر منتخب لوگ ہیں اور عوامی عہدوں پر انہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔بہت عرصے سے صحافتی اور سیاسی حلقے یہ مطالبے کر رہے تھے کہ وزیراعظم کے مشیران کے اثاثے اور ان شہریت پبلک کی جائے۔ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان برملا یہ کہتے رہے کہ جب ارکانِ اسمبلی کے اثاثے پبلک ہیں تو مشیران کے اثاثے پبلک کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ سینئر صحافی ارشد شریف نے وزیراعظم عمران خان سے ستمبر 2019ء میں ایک خط کے ذریعے درخواست کی تھی کہ ایڈوائزرز اور سپیشل اسسٹنٹس کے اثاثے اور شہریت پبلک کی جائے۔ کابینہ میں بھی منتخب ارکان کی یہ دبی دبی خواہش تھی کہ غیر ممالک سے آنے والے مشیران کی شہریت اور اثاثے پبلک کئے جائیں کیونکہ یہ تو اقتدار کی منتقلی کے بعد نکل جائیں گے‘ لیکن اپنے حلقوں اور میڈیا کے سامنے تو ہم جواب دہ ہوگے۔ قانون کی رو سے ارکانِ قومی اسمبلی اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں اور دہری شہریت والے ایوان زیریں و بالا کے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اس طرح کے اصول مشیران پر بھی لاگو ہونا چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کچھ قریبی دوستوں کو حکومت میں شا مل کیا اور کچھ وہی چہرے انکے ساتھ آ ملے جو ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں جبکہ اصل محنت کرنے والے کارکنان منہ دیکھتے رہ گئے۔
اب جب بہت تردد اور انتظار کے بعد مشیران کے اثاثے اور شہریت پبلک ہوئی ہے تو انقلاب کے نعرے مزید سرد پڑ گئے ہیں۔ ایک تو مشیران کروڑ پتی اور دوسرے دہری شہریت کے حامل۔ ایک طرف تو عام آدمی کے لیے تمام دروازے بند ہیں اور دوسری طرف غیر ملکی شہری ملک کے داخلی اور خارجی معاملات کو چلا رہے ہیں اورہر طرح کی معلومات تک ان کی دسترس ہے۔ تحریک انصاف کا منشور تو یہی بتاتا ہے کہ یہ حضرات یا تو فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفا دیں یا دوسرے ملک کی شہریت کو چھوڑ دیں۔ لگتا ہے ملک پر ایسٹ انڈیا کمپنی والا فارمولا لاگو ہے‘ آپ دوسرے ملک کے شہری ہیں لیکن حکمرانی اِس ملک پر کر رہے ہیں اور جیسے ہی مدت پوری ہو گی‘ اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر اپنے اصل ملک سدھار جائیں گے۔ یہ اصل محنت کرنے والے سیاسی کارکنان‘ ووٹرز اور سپوٹرز کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر عمران خان اب بھی تبدیلی کے داعی ہیں تو اپنے مشیران کو کہیں کہ اپنے اثاثے پاکستان منتقل کریں، یہاں سرمایہ کاری کریں اور غیر ممالک کی شہریت سے سرنڈر کریں۔ عمران خان بار ہا کہہ چکے ہیں کہ کشتیاں جلا کر آنے والوں کو ہی یہاں سیاست کرنی چاہیے‘ دوسرے ملک کا پاسپورٹ رکھنے والوں کو تو حلف لینا پڑتا ہے‘ ان کو اس ملک کی پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھنا چاہیے‘ یہاں سیاست وہ کریں جن کا جینا مرنا یہاں ہے۔ لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں‘ یہ سب باتیں بھول گئے ہیں۔ بھلا ایک غیر منتخب گروہ کیسے ملکی‘ دفاعی اور معاشی معاملات کے بارے میں فیصلے کر سکتا ہے۔یہ صورتحال متقاضی ہے کہ وزیراعظم عمران خان دہری شہریت کے معاملے پر صاف اور واضح فیصلہ کرتے ہوئے دہری شہریت والے تمام مشیران کو فارغ کر دیں۔