کراچی کا کوئی پرسانِ حال نہیں

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ میرا کافی عرصہ پہلے جب کراچی جانا ہوا تو سب سے پہلے ساحلِ سمندر دیکھنے کی خواہش تھی۔ لیکن جب وہاں گئی تو بہت مایوسی ہوئی۔ ساحل بہت آلودہ تھا‘ ہر طرف کچرا‘ پائوں پانی میں رکھا تو الرجی ہوگئی۔ مری ہوئی مچھلیاں، کھانے پینے کی اشیا کے خالی پیکٹ، پھلوں کے چھلکے اور بچوں کے ڈائپرز تک ساحل پر پڑے تھے۔ یہ سب دیکھ کر طبیعت مکدر سی ہونے لگی۔ میں نے واپس جانے میں ہی عافیت سمجھی اور دوبارہ سمندر دیکھنے کی خواہش نہیں کی۔ کراچی میں مَیں نے بہت سے علاقوں میں کچرا جلتے دیکھا، ہر طرف پانی کھڑا تھا، کہیں کالے لفافے اڑ رہے تھے، روشنیوں کے شہر میں اس قدر آلودگی دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر انتظامی طور پر تباہ ہوچکا تھا۔کراچی سے میرا ایک لگائو ہے‘ یہ میرے قائد کا شہر ہے‘ میرے والد کا جنم یہاں ہوا‘ میں خود بھی یہیں پیدا ہوئی اور میرے دادا‘ دادی بھی یہیں مدفون ہیں؛ تاہم میرے والدین دہشت گردی، لسانیت اور سٹریٹ کرائمز کے باعث کراچی چھوڑ کر نوے کی دہائی میں اسلام آباد جا کر آباد ہو گئے تھے لیکن وہ اسلام آباد میں بھی ہمیشہ کراچی کو یاد کرتے رہے۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی لیکن کچھ عکس ذہن پر نقش ہیں‘ ٹائروں کو آگ لگی تھی‘ بہت سے کراچی کے لیڈران کے بل بورڈز پر جوتوں کے ہار تھے‘ کون کس کا دشمن تھا‘ سمجھ نہیں آرہی تھی‘ کراچی کے بیٹے آپس میں لڑ رہے تھے اور اس میں نقصان صرف کراچی کا ہوا۔اس کے بعد جب بھی خاندان کی غمی‘ خوشی میں کراچی جانا ہوا تو مجھے وہ منظر یاد آ جاتا ہے جب کراچی میں ہنگاموں کے دوران ہم ایئرپورٹ گئے تو میں سب کو کہتی کہ کوئی جیولری نہیں پہنے گا، فون بھی گاڑی میں چھپا کر رکھیں گے‘ جانے کب کون کنپٹی پر بندوق رکھ کر سب لے جائے۔ میرے کراچی کے کزنز کہتے کہ ہم نے دو فون رکھے ہوتے ہیں، ایک اپنے لئے اور ایک سٹریٹ کرائمز والوں کے لئے۔ کراچی کے حالات طویل عرصہ خراب رہے‘ پھر رینجرز کے آپریشن کے بعد امن و امان صورتحال بہت بہتری ہوگئی۔ مگر انتظامی طور پر کراچی بدحالی کا شکار تھا‘ اور ہے۔ یہاں پر آبادیاں بغیر پلاننگ کے بنتی گئیں، ناجائز تجاوزات، چائنہ کٹنگ اور جانے کیا کیا... یہ سب شہری انتظامیہ کی اشیرباد کے ساتھ ہوا، اب کسی علاقے میں پانی نہیں‘ کسی میں نکاسی کا کوئی نظام نہیں تو کوئی کچرا کنڈی کی صورتحال پیش کر رہا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بہت اہم ہے‘ جہاں لاہور‘ اسلام آباد میں میٹرو جیسی آرام دہ سروس شہریوں کے لئے موجود ہے وہاں کراچی کے شہری پرانی ٹوٹی پھوٹی بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر میں رہائش کا مسئلہ سنگین ہوتا گیا‘ لوگ گھر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے جمع پونجی سے فلیٹ خرید لئے۔ بلڈرز نے ناقص میٹریل کے ساتھ فلیٹ بنائے اور اب یہ زمین بوس ہو رہے ہیں‘ آئے دن کراچی میں عمارتیں زمین بوس ہونے سے قیمتی جانی و املاک کا نقصان ہوتا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔اگر کہیں آگ لگ جائے تو فائر بریگیڈ کے پاس بلند و بالا بلڈنگوں میں آگ بجھانے کی سہولت نہیں۔ بہت بڑی تعداد میں درخت کاٹ دیے گئے جس سے کراچی کے درجہ حرارت میں کافی اضافہ ہوگیا۔ اس سے ہیٹ سٹروک کا ایشو پیدا ہو گیا اور ہر سال درجنوں بلکہ سینکڑوں شہری ناقابلِ برداشت گرمی سے ہلاک ہونے لگے۔ کچھ کو تو سورج کی تپش نے نگل لیا تو کچھ لوڈشیڈنگ کے باعث جان سے گئے۔ بجلی کا مسئلہ تو اتنا سنگین ہے کہ آندھی آئے‘ بارش ہو‘ گرمی زیادہ ہو‘ کچھ بھی ہو‘ بجلی غائب۔یہاں پر بارانِ رحمت بھی شہریوں کے لئے زحمت بن جاتی ہے۔ ندی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ محض متوسط طبقے کا نہیں بلکہ پوش علاقوں میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ گھروں میں بیسمنٹ اور گرائونڈ فلور پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے جس سے لاکھوں روپے کا سامان برباد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بارشوں کے باعث کرنٹ لگنے کے بھی بہت سے واقعات پیش آتے ہیں جن میں بچوں سمیت درجنوں شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بار کی بارشوں میں نہ صرف پانی گھروں میں داخل ہوا، سڑکیں اور علاقے زیر آب آ گئے بلکہ بارش کا پانی قیمتی گاڑیوں کو بھی ساتھ بہا کر لے گیا۔دوسری طرف سوشل میڈیا پر یہ بحث چلتی رہی کہ بارش سے نقصان ہوا ہے یا نہیں، پی پی پی کے لیڈران اور ہمدرد یہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوا‘ کراچی بالکل خشک ہے جیسے یہاں بارش ہی نہیں ہوئی۔ جبکہ شہری، صحافی، سوشل میڈیا صارفین کچھ اور ہی منظرنامہ پیش کرتے رہے۔ کچرے کے دریا رہائشی علاقوں میں بہہ رہے تھے۔ اس دوران جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن نے اپنی مدد آپ کے تحت شہریوں کو پانی کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ چھوٹی بچیوں کو بچانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔اُس وقت جب شدید بارش ہو رہی تھی اور لوگ پریشان تھے‘ ان کو ریکسو یا ریلیف کے بجائے سندھ حکومت ٹویٹر پر مصروف تھی۔ کراچی کو اس وقت ایک مضبوط شہری حکومت کی ضرورت ہے جس میں مقامی نمائندوں کو فنڈز اور سیاسی خودمختاری دی جائے۔ جب تک مقامی حکومت اور منتخب نمائندوں کو اختیارات نہیں ملیں گے تب تک کراچی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
اس وقت کراچی کے انتظامی امور پی پی پی کے پاس ہیں‘ اس کے ساتھ تحریک انصاف کی 14 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں‘ صوبائی نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔ میئر کراچی ایم کیو ایم سے ہیں؛ تاہم ان تین جماعتوں کے درمیان اتفاق و اعتماد کا فقدان ہے جس کاخمیازہ کراچی کے عوام بھگت رہے ہیں۔کراچی کی بدحالی کا ذمہ دار تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم اور پی پی پی کو ٹھہراتی ہے اور پی پی پی سوشل میڈیا پر سب اچھا کہہ کر بال وفاق کے کورٹ میں پھینک دیتی ہے۔ اس الزامات کی سیاست میں کراچی کا یہ حال ہوگیا ہے کہ شہر میں گندگی‘ کچرے اور مچھروں کی بہتات ہے، ہسپتال کروڑوں کی آبادی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں، رہائش، پارکنگ، گھروں تک پانی کی رسائی نہیں، ساتھ ہی ٹریفک جام شہر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے گرمی زیادہ پڑتی ہے تو لوڈشیڈنگ شروع ہو جاتی ہے‘ جب بارش زیادہ ہوتی ہے تو بھی بجلی کا ترسیلی نظام بیٹھ جاتا ہے۔ سڑکیں‘ دریا اور تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں اور شہریوں کو لاکھوں‘ کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور کہیں ان کی شنوائی بھی نہیں ہو پاتی۔سندھ حکومت نے بارشوں کی تباہ کاریوں نے نمٹنے کے لئے 30 ملین کی گرانٹ کراچی کے لئے جاری کی تھی۔ ورلڈ بینک کے پروگرام کے تحت نالے صاف اور پکے کئے جانا تھے لیکن پھر بھی کراچی گندے پانی اور کچرے میں ڈوب گیا۔ اب عید قربان کا موقع ہے‘ بارشوں کے ساتھ خون اور آلائشیں بھی کچرے میں شامل ہو جائیں گی‘ اس کے تدارک کے لیے سندھ حکومت کو فوری طور اقدامات کرنا چاہئیں ۔
اس وقت کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھ کی مرمت کی ضرورت ہے، نیز ندی‘ نالوں سے ناجائر تجاوزات ختم کی جائیں، سیوریج سسٹم ٹھیک جائے، پلوں‘ چورنگیوں کی طرف توجہ دی جائے، پیدل چلنے والوں کے لئے پل بنائے جائیں، بارشوں سے پہلے ندی‘ نالوں کی صفائی یقینی بنائی جائے، چائنہ کٹنگ کا خاتمہ کیا جائے، کچرے کو تلف کیا جائے، تفریحی مقامات کو صاف کیا جائے، ساحل سمندر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، کراچی کے لئے اچھی ٹرانسپورٹ سروس شروع کی جائے، ریلیف اور ریسکیو کے لئے فعال ادارے بنائے جائیں۔ کراچی کے لوگ صاف پانی سے محروم ہیں اور ٹینکر مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں‘ اس کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ کراچی کے عوام کے ساتھ بہت ناانصافی ہو چکی‘ اب ان کے مسائل کا حل جلد نکالا جائے۔ یہاں پر صرف سندھ حکومت نہیں‘ وفاق کی بھی ذمہ داری ہے کہ مل جل کر عوام کو درپیش مسائل حل کریں اور الزام کی سیاست ترک کرکے خدمت کی سیاست کا آغاز کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں