میری ایک واقف کار کو کال آئی کہ آپ کا انعام میں ٹی وی نکل آیا ہے‘ آپ کو صرف اس ٹی وی کی ٹرانسپورٹیشن کے پیسے دینے ہیں‘ دو لاکھ کا ٹی وی ہے‘ آپ صرف دس ہزار فون پر ٹرانسفر کر دیں۔ انہوں نے کہا: یہ کیسے ہوا کہ میرا انعام کیسے نکل آیا؟ جواب ملا کہ فلاں میلے میں آپ نے ایک کوپن بھرا تھا۔ وہ جھانسے میں آگئی اور پیسے ٹرانسفر کر دیے‘ اس کے بعد کال منقطع ہو گئی۔ جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی‘ وہ نوسربازوں کا شکار بن چکی تھی۔ اسی طرح ایک اور دوست کو کال آئی کہ ہم بینک سے بات کر رہے ہیں‘ آپ کا اے ٹی ایم کارڈ بلاک کیا جا رہا ہے‘ اگر آپ اسے بحال رکھنا چاہتی ہیں تو اپنا کارڈ نمبر اور پِن کوڈ بتائیں۔ اس نے انجانے میں یہ خفیہ معلومات بتا دی‘ غلطی کا احساس تب ہوا جب کارڈ سے کسی نے ہزاروں روپے کی شاپنگ کرلی۔ بینک کبھی بھی آپ سے سی وی سی (کارڈ ویریفکیشن کوڈ) نہیں پوچھتا۔ مجھے خود ایک بار کال آئی کہ آپ کا فلاں گیم شو کا پاس نکال آیا ہے‘ میں نے فون کاٹ دیا لیکن زیادہ حیرت اس دن ہوئی جس دن مجھے ایک کال آئی اور کہا گیا کہ میں پاک آرمی کا صوبیدار بول رہا ہوں‘ مردم شماری کے حوالے سے آپ کی معلومات درکار ہیں، میں نے جواباً کہا: کون لوگ ہو تم؟ ہر جگہ جھوٹ بول کرعوام کو بے وقوف بنارہے ہو۔ اس بندے نے ڈر کر کال کاٹ دی اور میں نے نمبر بلاک کر دیا اور متعلقہ حکام کو اس بابت آگاہ بھی کیا۔
بعض عیار لوگ ایسے حربوں سے عام عوام کو بیوقوف بنا کر پیسے اینٹھ لیتے ہیں۔ کبھی فون آتا ہے کہ آپ کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 25ہزار روپے ملنے ہیں تو کبھی یہ پیغام آتا ہے کہ آپ کا احساس پروگرام میں کیش نکلا ہے، فلاں نمبر پر رابطہ کر لیں۔ کبھی میسج آتا ہے کہ میں فلاں لڑکی ہوں‘ ہسپتال میں ہوں‘ مجھے بیلنس بھیج دیں، کبھی کوئی بینک کا نمائندہ بن کر بات کرتا ہے۔ سائبر کرائمز کا سلسلہ طویل ہے‘ یہ معاملہ فون سے لے کر سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ، آن لائن بینکنگ، موبائل پیمنٹ اور آن لائن خریداری تک پھیلا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ہیکنگ ہوتی ہے‘ یہ سوشل میڈیا اکائونٹس کی بھی ہوتی ہے‘ وٹس ایپ کی بھی اور آن لائن بینک اکائونٹس بھی ہیک ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نام پر جعلی اکائونٹس بھی بنائے جاتے ہیں جو ان کے لیے شدید پریشانی اور ذہنی دبائو کا باعث بنتے ہیں۔ ہیکرز فیک آئی ڈیز، انسٹاگرام‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب اور فیس بک پرجعلی اکائونٹ بنا کر لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگ سیلیبرٹیز کی تصاویر کے ساتھ فیک اکائونٹ بنا کرعام لوگوں سے نمبر لے لیتے ہیں، ان سے دوستی کی جاتی ہے اور پھر ان سے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک معروف اینکر نے سائبر کرائم میں شکایت کی کہ ان کے نام پر فیک اکائونٹ چل رہا ہے، تحقیقات پر علم ہوا کہ اس کے نام پر بنا فیک اکائونٹ ایک نوجوان لڑکا چلاتا تھا جس کی عمر محض پندرہ سال تھی اور وہ اس اینکر کا نام استعمال کرکے لوگوں سے پیسے بٹور رہا تھا۔ حال ہی میں ترک اداکاروں اور پاکستانی سٹیج آرٹسٹوں کے فیک اکائونٹس بنے جو سیاسی ٹویٹس کر رہے تھے۔ حالیہ کچھ عرصے میں کئی اداکاروں کے اکائونٹس ہیک ہوئے۔ گلوکارہ رابی پیرزادہ کا پرسنل ڈیٹا لیک ہوا اور اداکارہ علیزے شاہ کا بھی کچھ پرائیویٹ ڈیٹا لیک ہوا، اس کے علاوہ پاکستانی ٹک ٹاکرز کی کچھ اخلاقی تصاویر منظرعام پر آئیں۔ کچھ پاکستانی کرکٹرز کے انسٹاگرام اکائونٹس بھی ہیک ہوئے ہیں۔
اسی سے متعلقہ ایک اہم مسئلہ نجی تصاویر کے لیک ہونے کا بھی ہے۔ لوگ فون بیچ دیتے ہیں لیکن اپنا ڈیٹا کلیئر نہیں کرتے‘ جو دوسروں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ نجی تصاویر کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ میموری کارڈ میں بھی تصاویر اور وڈیوز وغیرہ ہوتی ہیں‘ یہاں سے بھی ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے۔ کچھ کیسز میں ای میل بھی ہیک ہو جاتی ہیں اور وہاں سے پرسنل ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے۔ بینکنگ میں بھی فراڈ ہوتا ہے‘ کچھ اے ٹی ایم مشینوں کو ہیک کیا گیا اور لوگوں کی رقوم نکال لی گئیں۔ اسی طرح آن لائن بینکنگ میں بھی کچھ صارفین کے پیسے غائب ہوئے۔ میرے ساتھ خود ایسے ہو چکا ہے‘ میرے اکائونٹ سے رقم غائب ہوئی ، جب میں نے شکایت کی تو پتا چلا کہ یہ بینک کے سسٹم کی غلطی تھی اور مجھے رقم واپس مل گئی۔
نجی وڈیوز اور گھریلو تقریبات کی وڈیوز بھی لیک ہو جاتی ہیں جن کو لوگ غلط طریقے سے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ خواتین کی تصاویر کو غلط طور پر ایڈٹ کرکے ان کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ جرائم پیشہ لوگ بچوں کی تصاویر کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کرتے ہیں‘ اس تصاویر کی بنیاد پر بچوں اور عورتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین عموماً ایک بڑی غلطی کرتی ہیں‘ وہ پیار محبت میں اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے پاسورڈ، بینکنگ پاسورڈ، غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز وغیرہ لڑکوں کو دے دیتی ہیں۔ اس طرح وہ مشکل میں پڑ جاتی ہیں کیونکہ یہ ڈیٹا کوئی بھی ڈیلیٹ نہیں کرتا۔ یہ تصاویر بسا اوقات غیر اخلاقی ویب سائٹس، فیس بک اور وٹس ایپ پر پہنچ جاتی ہیں جہاں سے نوبت لڑکی کی خودکشی تک پہنچ جاتی ہے۔ خواتین سے اکثر ان کے بوائے فرینڈزایسی چیزوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ کچھ کیسز میں ریپ یا ہراساں کرتے وقت ان کی بھی وڈیو بنا لی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ کیسز ایسے بھی سامنے آئے کہ جہاں درزی، بوتیک یا شاپنگ مالز کے ٹرائی روم میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے۔
آن لائن شاپنگ میں بھی بعض اوقات کارڈ سے پیمنٹ کرتے ہوئے کارڈ ہیک ہو جاتا ہے۔ ایک اور ڈاکا جو آن لائن مارا جاتا ہے‘ وہ انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس پر ہے۔ کوئی بھی آپ کی وڈیو، آرٹیکل اور شاعری کو چوری کرکے اپنا بنا کر اَپ لوڈ کر دیتا ہے۔ حال ہی میں نے ایک آرٹیکل لکھا ''مجاہدین افلاک اور امدادی سرگرمیاں‘‘ یہ ایئر فورس کی خدمات پر تھا، اس آرٹیکل کو من و عن کاپی کرکے سات لوگوں نے اپنے نام سے پوسٹ کر دیا۔ بڑی کمپنیوں کی جانب سے تو سوشل میڈیا پر کاپی رائٹس کا خیال رکھا جا رہا ہے مگر لوکل سطح پر کاپی رائٹس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ناول نگار شازیہ چودھری (مرحومہ) کی فیملی کے مطابق‘ ان کی اجازت کی بغیر ان کے ناولز پر ڈرامے بنائے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ لوگوں کو نفرت آمیز ایس ایم ایس، وٹس ایپ یا میسنجر پر غیر ضروری اور فحش پیغامات بھیجنا بھی سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ وائرس زدہ لنک بھیج کر لوگوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس اور فون ہیک کر لیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دھوکے سے لوگوں کے شناختی کارڈ اور انگوٹھے کا پرنٹ حاصل کر لیتے ہیں پھر اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ایک دہشت گردی کے واقعے میں ایک عورت کے نام پر جاری سم استعمال ہوئی‘ جس کا اسے ذرہ بھر بھی علم نہ تھا کہ کب کس نے‘ کیسے اور کس طرح اس کے نام پر سم ایشو کروا لی۔
فیک نیوز اور نفرت آمیز مواد پھیلانا بھی سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے آج کل یہ سلسلہ بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کو پروموٹ کرنا، ملک کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کو سوشل میڈیا پر نشر کرنا بھی سائبر کرائم ہے۔آن لائن پیسوں کی سروس اور فون بیلنس کے حوالے سے بھی بعض سائبر کرائم ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ویری فائڈ ایپس کے علاوہ کوئی ایپ فون میں ڈائون لوڈ نہیں کریں۔کچھ کیسز میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ہیکرز دوسروں کے سمارٹ ٹی وی، ویب کیم اور وائی فائی ہیک کرلیتے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق ملک میں سائبر کرائم کا گراف بڑھ رہے ہیں، ملک بھر میں گزشتہ برس 56ہزار 996 شکایات درج ہوئیں۔ گزشتہ برس جنسی ہراسانی، بلیک میلنگ اور پورنوگرافی کے کیسز زیادہ سامنے آئے۔ملک میں 7کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، کورونا کی وبا کے دوران لوگ زیادہ تر گھر سے کام کر رہے ہیں اور ان کے کام کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔ اس لئے انٹرنیٹ کا استعمال مزید بڑھ گیا ہے۔ ہمیں انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہوگا‘ اس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے۔ (جاری)