میں دھرنوں اور احتجاج کی حامی نہیں لیکن یہ بات ماننا ہوگی کہ 2014ء کے دھرنے میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی‘ عوام کو امید تھی کہ اب تبدیلی آئے گی اور فرسودہ کرپٹ نظام تبدیل ہو گا۔ 2018ء کے جنرل الیکشن میں بہت کانٹے دار مقابلہ تھا، بالآخر اتحادیوں کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان کا وعدہ تو یہی تھا کہ نوے دن میں تبدیلی آئے گی لیکن دو سال ہو گئے‘ تبدیلی کی رفتار بہت دھیمی ہے۔
حکومت کے پہلے سال کی بات کریں تو خارجہ پالیسی میں حکومت کو بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ 2019ء میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران وزیراعظم عمران خان نے امن کی خاطر بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو لوٹا دیا۔ بھارتی جنگی عزائم کو پاکستانی قیادت کی امن پسندی نے پورا نہیں ہونے دیا ورنہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ جاتا۔ وزیراعظم نے کامیاب بیرونی دورے کئے‘ اہم عالمی شخصیات پاکستان آئیں اور پاکستان کی عالمی تنہائی دور ہوئی۔ سعودی عرب، چین، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ غیر ملکیوں کو آن لائن ویزا اور ویزا آن آرائیول کی سہولت دی گئی۔ اگر ہم حکومت کے دوسرے اقدامات کی بات کریں تو فاٹا کا انضمام، صحت انصاف کارڈ، شجرکاری، احساس پروگرام، پناہ گاہ اور لنگر خانے اہم اقدامات تھے۔ غریب افراد کے لئے بنائی گئی پناہ گاہوں کا وزیراعظم نے خود دورہ کیا‘ اس کے ساتھ ہسپتالوں کے بھی اچانک وزٹ کئے؛ تاہم عوام مہنگائی تلے پستے رہے اور آئے روز اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام بلبلاتے رہے۔ حکومت اپنے اقتصادی اہداف حاصل نہیں کر سکی۔ ڈالر کی اونچی اڑان جاری رہی اور روپے کی بے قدری ہوتی رہی۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اتار چڑھائو رہا۔ عوام کو قیمت کم ہونے پر پیٹرول کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن قیمت زیادہ ہوتے ہی یہ مارکیٹ میں موجود تھا۔بجلی اور گیس کی آنکھ مچولی جاری رہی اور عوام کرب میں مبتلا رہے۔ پی ٹی آئی نے 2019ء میں ملکی قرضوں میں 7ہزار 6سو ارب روپے کا اضافہ کیا۔ عوام کیلئے ہائوسنگ سکیم کا افتتاح تو کیا گیا لیکن کام کی رفتار کچھوے سے بھی سست رہی۔
حکومت کے پہلے سال ایسے لگتا تھا کہ حکومت کے پاس حکمت عملی اور لائحہ عمل کا فقدان ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اردگرد غیر منتخب لوگ زیادہ رہے اور منتخب افراد اور پرانے کارکنان کا ان سے رابطہ بہت کم رہا۔ حکومت کی طرف سے ٹیکس ایمنسٹی دی گئی جس کے تحت چار فیصد ٹیکس دے کر بلیک منی کو وائٹ کیا جا سکتا تھا۔پہلے سال میں 3لاکھ نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے۔
عمران خان نے حکومت میں آتے ہی اہم عمارات کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کا کہا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ حکومت نے غیر ضروری اشیا کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا اور گاڑیاں نیلام کرکے 8 کروڑ کمائے اور بھینسیں بیچ کر 23 لاکھ کی آمدنی ہوئی۔ اس پر کافی مذاق بھی بنا کہ حکومت کے پاس کفایت شعاری کے لئے یہی پالیسی ہے۔نوجوانوں کو بغیر سود قرضے اور ووکیشنل ٹریننگ پر عثمان ڈار کام کر رہے ہیں‘ امید ہے کورونا کی وبا کے بعد اس کے ثمرات عوامی سطح پر نظر آئیں گے۔ بات کریں قانون سازی کی تو پی ٹی آئی نے اس پر خاص توجہ نہیں دی۔ تحریک انصاف حکومت نے قومی اسمبلی سے پہلے سال صرف 10 بل منظور کروائے یا بجٹ پاس ہوا۔
اب اگر ہم بات کریں تحریک انصاف کی حکومت کے دوسرے سال کی تو عمران خان کی اقوام متحدہ کی تقریر کو بہت پذیرائی ملی‘ مسئلہ کشمیر پر انہوں نے کھل کر روشنی ڈالی اور اقوامِ عالم کو باور کروایا کہ اس کی وجہ سے ہر دو ممالک میں ایٹمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لاکھ لوگ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو میں ہیں‘ دنیا کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔ اپنی تقریر میں وزیراعظم عمران خان نے نریندر مودی اور آر ایس ایس کے نظریے کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین ملاقات ہوئی تو صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ کرتار پور راہداری کا افتتاح ہوا جس نے عالمی طور پر پاکستان کی امن پسندی کو اجاگر کیا۔ 2019ء میں ڈیجیٹل پاکستان کا آغاز ہوا لیکن کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔
حکومتی صفوں میں توڑ جوڑ جاری رہی، شبر زیدی، تانیہ ایدروس اور ڈاکٹر ظفر مرزا مستعفی ہو گئے۔ وزیراعظم کے معاونین کے اثاثے اور شہریت سامنے آنے پر بہت تنقید ہوئی‘ ارب پتی مشیران میں سے کچھ دہری شہریت کے حامل نکلے۔ کورونا کی وبا کے دوران حکومت تذبذب کا شکار رہی کہ سرحدیں بند کرنی ہیں یا نہیں‘ لاک ڈائون کرنا ہے یا نہیں‘ اور اسی تذبذب میں کورونا پورے ملک میں پھیل گیا۔ پاکستان کا طبی شعبہ اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکا، ادویات کی قیمتیں بے قابو ہوگئیں۔ سینی ٹائزر، ماسک، آکسی میٹر، آکسیجن سلنڈر اور جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہوگئیں اور بلیک میں فروخت ہونے لگیں۔ حکومت اس سارے معاملے میں بے بس نظر آئی‘ مریض خوار ہوتے رہے اور مافیاز اپنی مان مانی کرتے رہے۔ حکومت کی جانب سے فیصلوں میں تاخیر کا خمیازہ عوام نے بھگتا۔ پھر آٹا‘ چینی کا بحران... کہیں ان کی قلت تو کہیں من مانی قیمتیں۔ اس سب میں وفاق اور صوبائی حکومت کی نااہلی واضح تھی۔ جب چینی سکینڈل کی رپورٹ سامنے آئی تو وزیراعظم کے اردگرد بیٹھے لوگ بھی اس میں شامل نظر آئے۔ دو سالہ حکومتی مدت میں احتساب کا عمل جاری رہا؛ تاہم احتساب کا دائرہ صرف پی پی پی اور مسلم لیگ ن تک محدود رہا۔ نہ 50 لاکھ گھر تعمیر ہوئے نہ ہی نئے روزگار کے مواقع ملے بلکہ کورونا کی وبا کے دوران مزید ہزاروں بلکہ لاکھوں بے روزگار ہوئے۔ کراچی کی بارش اور کچرے پر سیاست ہوتی رہی‘ بالآخر وزیراعظم نے این ڈی ایم اے کو احکامات جاری کئے کہ وہ معاملے سے نمٹے۔حکومت کے دوسرے سال بھی روپے کی ناقدری جاری رہی اور ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی، اس کے ساتھ سونا فی تولہ ایک لاکھ سے اوپر ہوگیا۔ آخر کار پشاور بی آر ٹی کا افتتاح ہوا تاہم منصوبے کی شفافیت اور تعمیرات پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
اگر سفارت کاری کی بات کریں تو چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ کی طرح اچھے رہے لیکن خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں خلیج آتے آتے رہ گئی۔ اب آرمی چیف کے دورۂ سعودی عرب سے صورتحال بہتر ہوگئی ہے۔ ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ بھی تعلقات کا نیا دور شروع ہوا۔ اقتصادیات کی بات کریں تو کورونا کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح صفر اعشاریہ چار فیصد رہی۔حکومت آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر پروگرام کی طرف گئی۔ دوسرے سال میں کسی ادارے کو اضافی گرانٹ نہیں دی گئی؛ تاہم احساس بجٹ 192 ارب روپے کیا اور زراعت کے شعبے کیلئے 50 ارب روپے مختص کئے گئے جبکہ ہنگامی بنیادوں پر ٹڈی دل کا سامنا بھی کیا گیا۔ اس دوران حکومت کو فوج کی مکمل معاونت حاصل رہی اور کورونا اور ٹڈی دل جیسی آفات میں فوج حکومت کے شانہ بشانہ رہی۔ سپریم کورٹ کے جانب سے جی ڈی آئی سی کے فیصلے میں متعلقہ کمپنیوں کو چار سو ارب واپس کرنے کا حکم دیا گیا، حالانکہ پہلے حکومت دو سو ارب معاف کر رہی تھی لیکن معاملہ میڈیا میں آگیا۔
ایک نجی تنظیم کے سروے کے مطابق 54فیصد عوام نے حکومت کی کارکردگی کو مایوس کن اور 38 فیصد نے مثبت قرار دیا جبکہ 31 فیصد پُرامید ہیں کہ آگے آنے والے تین سالوں میں حکومت کی کارکردگی اچھی ہو جائے گی۔ 44 فیصد عوام اس بات کے خواہش مند ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ 93 فیصد افراد کے مطابق کورونا کی وبا میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ اب بھی حکومت کے پاس تین سال باقی ہیں‘ حکومت کو چاہیے کہ عوام کی خدمت میں تیزی لائے‘ سیاست بہت ہوگئی‘ اب کچھ عوام کیلئے بھی کر لیا جائے۔