پاکستان میں اکثر اُن چیزوں کو ایشو بنایا جاتا ہے جن کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی لیکن ان پر بات کرنا سب بھول جاتے ہیں‘ جو موضوعات اہم ہیں۔ عوامی مسائل اور قومی سلامتی کے مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں اور صرف چٹ پٹی مسالا دار خبریں زیر بحث رہتی ہیں۔ ٹویٹر پر ایک سینئر صحافی کی طرف سے اس بات پر اعتراض کیا گیا کہ پی ٹی وی پر لڑکا اور لڑکی لائیو شو میں ورزش کیوں کر رہے تھے۔ اس پر ان پر تنقید شروع ہوگئی؛ تاہم بہت سے لوگ ان سے متفق بھی نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور بحث سے بہتر ہے کہ ایسا حل نکالا جائے کہ دونوں مکتب ِ فکر متفق ہو جائیں۔ ورزش کرنا یقینا بہت ضروری ہے کیونکہ سہل پسندی ہمیں بہت سی بیماریوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے بیماریوں کی شدت کو کم کرنے کے لئے ڈاکٹرز وزن کم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ اس کیلئے بھی ورزش بہت ضروری ہے۔ ہفتے میں 5 روز آدھ گھنٹہ واک ہمیں تندرست و توانا رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، سانس کی ورزش ہمیں پُرسکون رکھتی ہے۔ ہفتے میں چار سے پانچ روز ورزش اور واک سے انسان کئی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
ہمارے یہاں بہت سے لوگ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ وزن کس طرح کم کرنا ہے یا صحت کو کیسے برقرار رکھیں، اس لئے اکثر مارننگ شوز میں جم انسٹرکٹرز کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ عوام کو مختلف آسان ورزشیں بتا سکیں اور عوام گھر پر ہی یہ کر لیں کیونکہ مہنگے جم افورڈ کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ سو ٹی وی پر ورزش ان کے لئے ہے۔ یہ انسٹرکٹرز جسم کے الگ الگ حصوں کی ورزش بتاتے ہیں جو بیماریوں کو دور کرنے اور وزن گھٹانے میں مددگار ہوتی ہے۔ جہاں تک لباس کی بات ہے تو ورزش شلوار قمیص میں نہیں ہو سکتی، اس کے لئے مخصوص لباس ہوتا ہے جو آرام سے پھٹتا نہیں اور سرکتا بھی نہیں۔ اسی لئے لوگ اس لباس یا ٹریک سوٹ کو پہن کر ایکسر سائز کرتے ہیں۔ خواتین بھی یہی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ یہاں میں یہ کہتی چلوں کہ ٹی وی پر اگر ٹریک سوٹ میں ورزش کی جائے تو جسم نمایاں نہیں ہوگا۔ اس لئے جم انسٹرکٹرز جب ٹی وی پر آئیں تو ہلکے فیبرک کا ٹریک سوٹ پہن کر آئیں، اس سے ورزش بھی آسانی سے ہو گی اور جسم بھی نمایاں نہیں ہوگا۔ پاکستان کے بہت سے برینڈز نے حجاب کے ساتھ ایکسر سائز کے لئے سوٹ بھی متعارف کروائے ہیں‘ جو خواتین پردہ کرتی ہیں‘ وہ ان کو پہن کر بہ آسانی ورزش کر سکتی ہیں۔
دوسرا جو نان ایشو سوشل میڈیا پر زیر بحث رہا وہ مریم نواز کی مہنگی طلائی گھڑی اور ہرے رنگ کی جوتی تھی‘ جو ایک غیر ملکی برینڈ کی تھی اور اس کی قیمت لاکھوں روپے تھی۔ میرے خیال میں مریم نواز کو ان کے مشیر غلط گائیڈ کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ تقریر کریں اور وہ تقریر موضوعِ بحث بنے لیکن اگر جوتی یا مہنگی گھڑی زیر بحث آ رہی ہے تو یہ ایک غلط موو ہے۔ لباس ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے‘ اس کو زیر بحث نہیں آنا چاہیے لیکن سیاسی شخصیات اور شوبز ستاروں کے کپڑے‘ سٹائل اور نجی زندگی‘ کچھ بھی چھپا نہیں رہتا اور سب زیر بحث آتا ہے۔ اس حوالے سے مضامین لکھے جاتے ہیں تاکہ جو لوگ ان کا سٹائل کاپی کرنا چاہتے ہیں‘ وہ یہ چیزیں خرید سکیں۔ پاکستان مگر ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں لوگ اتنے مہنگے غیر ملکی برینڈز نہیں خرید سکتے لہٰذا لیڈران کو عوام کی خاطر ہی سہی‘ پاکستانی برینڈز کو پرمووٹ کرنا چاہیے اور سستی چیزیں بھی پہننی چاہئیں۔ اگر ہم بات کریں محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کی تو وہ بھی ملکی اور غیر ملکی برینڈز کی دلدادہ تھیں لیکن خاص قومی مواقع پر وہ اجرک اور مقامی لباس پہنتی تھیں۔ انہوں نے امریکی صدر کے ساتھ عشائیے میں ہرے رنگ کا کڑھائی والا لہنگا پہنا اور جب ہلیری کلنٹن اسلام آباد آئیں تو بلیو رنگ کی پشواز پہنی۔ ایسے ہی اہم مواقع پر ہم پاکستان کی ثقافت کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ اس لئے اہم قومی شخصیات کو غیر ملکی برینڈز سے زیادہ لوکل برینڈز پر فوکس کرنا چاہیے۔
شہزادی کیٹ جب پاکستان آئیں تو ان کا لباس‘ پرس اور جیولری پاکستانی برینڈز کے تھے اور ان کے کچھ لباس اور جیولری تو ایسے تھے کہ ہر کوئی انہیں خرید سکتا ہے۔ مجھے ان کی یہ بات بہت پسند آئی کہ جب وہ پاکستان آئیں تو انہوں نے ہماری ثقافت کا احترام کیا اور شہزادی ہوتے ہوئے بھی مہنگے برینڈز کے بجائے سادہ مگر پُروقار کپڑے‘ جوتے‘ دوپٹے اور جیولری پہنی۔ انہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک دن ایک لوکل برینڈ کے ٹاپس پہنے جن کی قیمت صرف 800 روپے تھی۔ سو ہمیں بھی معاشرتی طور پر اس چیز سے باہر آنا چاہیے کہ ہم صرف مہنگی چیز اور مہنگے برینڈز میں ہی اچھے لگ سکتے ہیں، انسان کا اخلاق‘ اس کا کردار اس کی پہچان ہونا چاہیے نہ کہ نمود و نمائش۔
اس کے بعد جو چیز حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر زیرِ بحث آئی وہ ایک فیک ٹرینڈ تھا جو را اور نام نہاد ''بلوچ‘‘ جو درحقیقت بھارت میں بیٹھے ہوئے افراد کی طرف سے تیار کیا گیا۔ جتنا لوگ جوتے‘ گھڑی اور ورزش پر بات کرتے رہے، اتنا انہوں نے اس ٹرینڈ پر توجہ نہیں دی۔ ایک جھوٹی خبر پر ٹرینڈ 'بلوچستان از برننگ‘ شروع ہوا کہ بلوچستان میں اداروں کی طرف سے آگ لگائی گئی ہے، حالانکہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ بھارتی اور نقلی بلوچ یہ کہتے رہے کہ کیچ کے دشت میں آگ لگائی گئی ہے حالانکہ جو تصاویر پوسٹ کی گئیں وہ برازیل میں لگنے والی آگ کی تھیں۔ ایک جھوٹی خبر پھیلا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ٹرینڈ جھوٹا تھا اور زیادہ تر ٹویٹ کرنے والے وہ بھارتی تھے جنہوں نے کبھی کیچ یا بلوچستان دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ پاکستان چونکہ اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اس لئے پاکستان کے خلاف اس طرح کی جھوٹی مہمات کا سلسلہ بڑھ گیا ہے اور آئندہ دنوں میں مزید سامنے آنے کا اندیشہ ہے۔ اس کے پس منظر میں بدنام زمانہ را اور بھارت سرکار ملوث ہے۔ اس ٹرینڈ پر چند ایک اکائونٹس پاکستان سے بھی ٹویٹ کر رہے تھے‘ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہوئے جنگ زدہ شام کی تصاویر کو بلوچستان کا کہہ کر ٹویٹ کر رہے تھے۔ اس پر ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایکشن لینا چاہیے۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر نہایت زہریلا اور خوفناک پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے جو دراصل سی پیک منصوبے کو متنازع بنانے کی ناکام کوشش ہے؛ تاہم اس کا سدباب کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے محب وطن اکائونٹس نے ان فیک اکائونٹس کا پردہ چاک کیا اور اصل تصاویر شیئر کیں کہ جو تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں وہ جعلی ہیں۔ آفیشل حکومتی اکائونٹس کو ایسے ٹرینڈز اور ٹرینڈز چلانے والے اکائونٹس کو فوری طور پر سپیم رپورٹ کرنا چاہیے۔
اب اگر ہم بات کریں بھارتی میڈیا کی تو وہ گلگت بلتستان کو زیر بحث لا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو بٹھا کر گفتگو کر رہا ہے جن کا تعلق نہ تو گلگت بلتستان سے ہے نہ ہی وہ پاکستان میں ہیں، بلکہ یہ غیر ممالک میں مقیم را کے تنخواہ دار ہیں۔ بھارتی میڈیا گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے پر ہونے والے غور و خوض پر خوب تلملا رہا ہے اور روز اس پر شوز کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان کا الگ صوبہ بننا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہاں پر ڈیم کی تعمیر ہو رہی ہے‘ سی پیک کا روٹ یہاں سے ہے‘ اس کو انتظامی طور پر صوبہ بنانے سے ترقیاتی منصوبوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اگر پاکستان کے اندر یا باہر بیٹھے افراد‘ اس منصوبے کی مخالفت کریں گے تو ان کی ہمدردی دشمن کے ساتھ ہی ہو گی‘ ملک کے ساتھ نہیں۔
دوسری جانب جہاں ہمیں ریپ کی وجوہات‘ اس کے سدباب پر بات کرنی چاہیے، جہاں بچوں کو محفوظ رکھنے، ریپسٹ کو سنگسار کرنے کی بات کرنی چاہیے، جہاں سود ختم کرنے کی بات کرنی چاہیے، انسدادِ پولیو مہم کو زیر بحث لانا چاہیے اورملک کے خلاف ہونے والی سازشوں پر بات کرنی چاہیے‘ وہاں ورزش‘ جوتوں اور جھوٹی خبروں پر بحث ہو رہی ہے اور اس کا فائدہ دشمن اٹھا کر پاکستان کے خلاف منظم مہم چلا رہا ہے۔ اس وقت پاکستانی میڈیا کو بلوچستان اور گلگت‘ بلتستان کے امور پر توجہ دینا ہوگی اور ہر اُس چیز کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ملکی مفاد کے خلاف ہے۔