خبر، انسانیت اور حساسیت

جب سانحات، حادثات اور واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں تو ہم تک ان کی اطلاع خبر کی صورت میں پہنچتی ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے ایک ٹِکر، ایک بریکنگ نیوز اور اخبار کی ایک سرخی میں وہ درد چھپا ہوتا ہے جو کچھ لوگوں کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل جاتا ہے۔ خبر آتی ہے‘ دس لوگ جاں بحق، پندرہ زخمی، یہ محض اعداد نہیں ہوتے‘ جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں، جن کے ساتھ بہت سے رشتے اور زندگیاں جڑی ہوتی ہیں۔ پاکستان کے تمام بڑے نشریاتی ادارے اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ انتہائی احتیاط کے ساتھ خبر دیں لیکن سوشل میڈیا پر بے ہنگم خبروں کا ایک سیلاب صارفین کے لئے باعثِ پریشانی ہے۔ لائکس‘ ہٹس‘ کلکس اور شیئر کی دوڑ میں لوگ انسانیت کو بھول جاتے ہیں اور ہر چیز کو منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ''ایسا کیا ہوا کل رات کہ آپ حیران رہ جائیں گے‘‘ مزید جاننے کے لیے لنک پر کلک کریں، غرضیکہ دیواروں پر لکھی جانے والی باتیں اب سوشل میڈیا پر لکھی جا رہی ہیں۔
ٹی وی چینلز اور اخبارات خبر دیتے وقت کوشش کرتے ہیں کہ سانحے یا حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی تصاویر نشر و شائع نہ کی جائیں، ان کی نجی معلومات عام نہ کی جائے لیکن سوشل میڈیا پر جلی ہوئی نعشوں سے لے کر، نیم برہنہ میت اور کٹے ہوئے اعضا تک‘ سب کچھ بلا سوچے سمجھے اَپ لوڈ کر دیا جاتا ہے، میرے نزدیک یہ سب جاں بحق ہونے والے شخص کی بے حرمتی کے زمرے میں آتا ہے۔ جب انسان زندہ ہوتا ہے تو اپنی سب سے اچھی تصویر گھر کی دیواروں پر لگاتا ہے‘ جس تصویر میں وہ سب سے اچھا لگ رہا ہو‘ وہ تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہے لیکن جب وہ انسان کسی حادثے یا سانحے میں مر جائے تو کیا کسی دوسرے شخص کے یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اس کی لاش کی تصویر کو سوشل میڈیا پر پھیلا دے؟ بس حادثہ ہو جائے، ٹرین پٹری سے اتر جائے، کار ٹرالر سے ٹکرا جائے یا کوئی اور واقعہ، وٹس ایپ سے لے کر ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور دیگر ویب سائٹس تک‘ حادثے کی ہر اینگل سے لی گئی تصاویر پھیلا دی جاتی ہیں۔ جب یہ تصاویر لواحقین تک پہنچتی ہیں‘ تو ان کو جیتے جی زندہ درگور کر دیتی ہیں۔ پتا نہیں کیوں پھولوں، باغات، تتلیوں، قدرتی نظاروں کی تصاویر وائرل نہیں ہوتیں، لوگ سوشل میڈیا پر مسالا دار خبریں پڑھنے اور پھیلانے میں کیوں لگے رہتے ہیں۔ جب ملک میں ریپ کا کوئی واقعہ ہو‘ جس میں خواتین‘ بچوں یا بچیوں کو اس درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہو تو ان واقعات کو بہت احتیاط سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم پولیس سے لے کر سوشل میڈیا تک‘ بحیثیت مجموعی اس میں ناکام نظر آتے ہیں۔ لوگوں کے لئے ریپ بھی ایک ایسی خبر ہے جس سے وہ ہٹس‘ لائکس اور شیئر کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی اس سفاکیت کا اثر متاثرہ شخص پر کیا ہوگا‘ وہ اس چیز کی پروا بھی نہیں کرتے، بس ان کو کسی بھی حال میں یہ ریس جیتنا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ریپ کرنے والا اور اس کی خبر کو پھیلا کر مزے لینے والا‘ دونوں ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ اکثر ریپ کیسز میں کسی بھی عورت‘ بچے یا بچی کی تصویر لگا کر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جبکہ اصل انسان کوئی اور ہی ہوتا ہے اور جس کسی کی تصویر غلطی سے یا جان بوجھ کر نشر کی جاتی ہے‘ وہ اور اس کے گھر والے سخت پریشانی کی زد میں آ جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ ریپ کے واقعات کے حوالے سے مختلف کہانیاں منسوب کر دی جاتی ہیں جس سے یہ لگے کہ جس کا ریپ ہوا ہے‘ وہ اس کا حقدار تھا۔ یہ بہت بے حسی ہے‘ ریپ اس لئے نہیں ہوتا کہ کوئی گھر سے باہر کیوں نکلا یا اس نے کیا پہن رکھا تھا، اس کی عمر کیا تھی، وقت کیا ہوا تھا، یہ سب محض عذر ہیں، ریپ اس لئے ہوا کہ ایک درندرہ صفت سفاک شخص نے ایک معصوم کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ 
ریپ کے حوالے سے جب بھی خبر نشر کی جائے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ متاثرہ فرد کی شناخت، تصویر، ایڈریس حتیٰ کہ نام بھی منظر عام پر نہ آئے۔ کسی صورت میں متاثرہ انسان کو تنگ نہیں کیا جانا چاہئے نہ ہی اس کے خاندان کو اذیت پہنچنی چاہئے۔ ان سے بار بار یہ نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ اُس روز کیا ہوا تھا۔ ایسی حساس خبر رپورٹ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ جس شخص کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہوتا ہے‘ وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر شدید کرب کا شکار ہوتا ہے۔ اس لئے بہت احتیاط کے ساتھ خبر دی جانی چاہیے اور اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ کسی بھی پہلو سے متاثرہ شخص کی تضحیک نہ ہوتی ہو، نیز واقعے کی تفصیلات کو کھول کھول کر بھی نہیں بیان کرنا چاہیے۔ ریپ ایک سنگین جرم ہے‘ اس کا مذاق مت بنائیں‘ نہ ہی اس کے حوالے سے لطیفے اور میمز شیئر کریں۔ 'عزت لٹ گئی‘ جیسے الفاظ کا استعمال بھی میرے نزدیک غیر مناسب ہے، یا تو اسے ریپ کہنا چاہیے یا پھر جنسی زیادتی۔ اگر اس ساری صورتحال میں کوئی بدنامی کا حقدار ہے یا کسی کی عزت گئی تو وہ صرف وہ شخص ہے جس نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔ عزت صرف ریپسٹ کی گئی ہے‘ بدنام صرف وہ ہوا۔ اب تک گجرپورہ سانحے کا مجرم فرار ہے، کہاں ہے وہ؟ اس پر بات کریں‘ سوال پوچھیں۔ ایسے واقعات پر متاثرہ خاتون‘ بچے یا بچی کے انٹرویو کی کوشش مت کریں، اگر کچھ کرنا ہے تو انصاف کیلئے آواز اس کے بغیر بھی اٹھائی جا سکتی ہے۔
اگر ہم بات کریں پیار‘ محبت‘ عشق‘ طلاق یا علیحدگی وغیرہ کی‘ تو کسی بھی انسان کے لئے بہت حساس معاملہ ہوتا ہے‘ اس کو خبر بنا دینا قطعاً مناسب نہیں ہے؛ تاہم شوبز کے ستارے، سیاستدان اور پبلک فگر اس سے بچ نہیں پاتے اور ان کی نجی زندگی بھی زیر بحث آ جاتی ہے۔ لیکن یہ ان کی مرضی ہے‘ جب چاہیں شادی کریں‘ جب چاہیں اعلان کریں‘ بچے کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگائیں یا ناں‘ ان کی ذاتی زندگی میں دخل مت دیں۔ اسی طرح معروف شخصیات کی زندگی پر ویڈیوز‘ میمز اور لطائف بن جاتے ہیں جو میرے نزدیک مناسب نہیں ہیں، ہر شخص کی نجی زندگی کا احترام ضروری ہے۔ آپ کا کوئی بھی ٹویٹ‘ کوئی بھی تبصرہ کسی کو ساری زندگی بھر کے لئے بدنام اور رنجیدہ کر سکتا ہے۔ اس لئے کچھ بھی پوسٹ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ اگر یہ بات آپ کی زندگی سے جڑی ہوئی ہوتی تو آپ کو کیسا محسوس ہوتا۔ کسی کی بھی زندگی کا مذاق بنانا بہت افسوس ناک امر ہے، اس لئے نجی زندگی کو نجی رکھا جانا چاہئے اور صرف پروفیشنل معاملات کو زیر بحث لانا چاہیے۔ اب اگر ہم بات کریں ان لوگوں کی جو صرف ایسی خبریں پھیلاتے ہیں جس سے معاشرے میں منافرت پھیلے تو انہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ رویہ بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ان خبروں کی وجہ سے لوگوں کی جان اور مال خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ 
ٹویٹر‘ فیس بک پر کچھ پوسٹ کرنے یا خبر دینے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ اِس کا اُس شخص اور معاشرے پر کیا اثر پڑے گا، کیا آپ کی بات مثبت پہلو سامنے لائے گی یا نفرت پھیلانے کا سبب بنے گی۔ لازم نہیں کہ سارا دن بس اداکاروں کو ٹارگٹ کیا جائے۔ کرنے کو بہت سی باتیں ہیں‘ ان کو موضوع کیوں نہیں بنایا جاتا؟ سود کا نظام کیسے ختم ہوگا، جہیز کی لعنت کیونکر معاشرے میں اب تک موجود ہے؟ مہنگائی روز بروز کیوں بڑھتی جا رہی ہے، ایسے معاملات پر بات کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں بس سیاستدان اور اداکار زیر بحث رہتے ہیں؟ اس سے ہٹ کر بھی زندگی ہے‘ جس میں پیار ہے، خوبصورتی ہے۔ شاعری پر بات ہو سکتی ہے، مصوری، موسیقی، ادب، کھیل‘ یہ سب بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ لائکس اور ریٹنگ کی دوڑ میں ہم زندگی جینا بھول گئے ہیں۔ لوگ خبر نہیں اور نہ ہی زندگی کوئی ریس ہے۔ زندگی کو محبت اور احترام کے ساتھ بسر کریں اور کوشش کریں کہ آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں