بچپن میں اہم قومی شخصیات سے ملاقات

ہمارا خاندان ماشاء اللہ سے بڑا بھی ہے اور بہت جمہوری بھی۔ الیکشن کے دوران سب الگ الگ جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو قائل بھی کرتے رہتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ سیاستدان سب سے اچھا ہے۔ جب میں پیدا ہوئی تو میرے اردگرد بہت سے پیارے رشتے موجود تھے‘ جن کے لاڈ پیار میں ہم بڑے ہوئے؛ تاہم میں نے بہت جلد یہ بات محسوس کرلی کہ سب کے نظریات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں‘ مگر سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ میرے دادا نے جب یہ دیکھا کہ میری خبروں میں دلچسپی ہے تو مجھے گود میں بٹھا کر خبرنامہ دیکھا کرتے اور اخبارات بھی میرے سامنے رکھتے۔ مجھے اس وقت زیادہ کچھ سمجھ تو نہیں آتی تھی لیکن دادا ابو کے پیچھے الفاظ دہراتی۔ انہوں نے ہی مجھے فنِ تقریر سکھایا۔ پورا خاندان شام کو ساتھ کھانا کھاتا تھا تو وہ مجھے ٹیبل پر کھڑا کر دیتے اور میں بس دو تین جملے بول کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیتی۔ سب بہت خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے لیکن دادا ابو‘ جن کو ہم سب ابّا کہتے تھے‘ سب سے زیادہ خوش ہوتے تھے۔
میرے ماموں اس وقت نوجوان تھے اور پکے جیالے تھے۔ انہوں نے مجھے پاکستان زندہ باد کے نعرے کے بعد جیے بھٹو سکھا دیا۔ پھر ایک بار جب دادا نے مجھے تقریر کیلئے کھڑا کیا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے تقریر کے آخر میں جئے بھٹو کا نعرہ لگایا، سب مسکرانے لگے‘ ان کو بابر ماموں کی شرارت سمجھ آ گئی تھی۔ میرے دادا صدر ضیا اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودی کو بہت پسند کرتے تھے‘ وہ مذہبی رجحان کے حامل تھے‘ انہوں نے ماموں کو پیار بھری ڈانٹ پلائی۔ جب ہم کراچی سے بھوربن شفٹ ہوئے تو میرے دادا ایئر پورٹ پر مجھے گود میں اٹھا کر زار و قطار رو رہے تھے۔ وہ بہت دراز قد انسان تھے اور ان کا رعب بھی بہت تھا۔ سب نے پہلی بار ان کو روتے دیکھا تھا۔ انہوں نے میری ماما کو کہا کہ جویریہ کو مت لے کر جائو، اس پر میری امی بھی رونے لگیں۔ میں بس ان کے آنسو صاف کرتی رہی۔ 
میں نے جن شخصیات کو دیکھا بھی نہیں تھا‘ ان کے افکار بھی مجھ پر لاگو کئے جا رہے تھے۔ مجھے دو‘ تین سال کی عمر میں یہ نہیں پتا تھا یہ کون ہیں‘ بعد میں کتابوں میں ان شخصیات کے بارے میں پڑھا اور خاندان کے بڑوں سے ان کے قصے سنے۔ خاندان کے کچھ افراد مسلم لیگ تو کچھ جماعت اسلامی اور پی پی پی کے ووٹرز اور سپوٹرز تھے۔ سیاست میں عملی طور پر حصہ نہیں لیتے تھے لیکن اخلاقی اور مالی مدد کرتے تھے۔ اس وقت کراچی میں ایم کیو ایم ابھر کر سامنے آئی اور کچھ کزنز ان کے نظریات کو پسند کرنے لگے؛ تاہم بعد میں یہ جماعت اپنا مقام کھو بیٹھی۔ میرے چچا بشیر نے جب یہ دیکھا کہ مجھے بچوں کے رسالے پسند ہیں تو وہ ہر ماہ مجھے بہت سے رسالے لا کر دیتے‘ ان میں کئی تو دینی مطبوعات ہوتی تھیں کہ نماز کیسے پڑھنی ہے اور دین کے دیگر احکامات وغیرہ۔ انہی کتابوں سے مجھے اور انبیاء کرام اور صحابہ کرام کے بارے میں بہت کچھ پتا چلا ۔پہلی کتاب جو مجھے میرے ابو نے تحفے میں دی تھی‘ وہ محسنِ انسانیت تھی۔ یہ میرے پاس آج بھی موجود ہے۔
اسلام آباد میں بھی مجھے بچپن میں سیاسی سرگرمیاں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ مختلف جماعتوں کے جلسوں‘ میٹنگز اور سیمینارز وغیرہ میں شرکت کی کیونکہ خاندان کے افراد ہمیں ہر جگہ ساتھ لے جاتے تھے۔ امی‘ ابو ہمیں لازمی الیکشن میں لے کر جاتے تاکہ ہم جمہوری روایت سے آگاہ ہوں۔ ایک بار ہم بچے خاندان کے بڑوں کے ساتھ مسلم لیگ ہائوس گئے تو وہاں موجود پارٹی عہدیدران کے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگ گئے۔ ہم چھپن چھپائی کھیل رہے تھے، اچانک مجھے خیال آیا کہ مجھے تھوڑا دور جاکر چھپنا چاہیے۔ میں بھاگتی ہوئی گئی اور ایک بڑے کمرے کا دروازہ پوری قوت سے ٹھوکر مار کر کھول دیا۔ وہاں کوئی میٹنگ چل رہی تھی‘ تقریباً بیس لوگ کمرے میں موجود تھے۔ سبھی مجھے دیکھ کر حیران رہ گئی اور میں ان سب کو دیکھ کر جم سی گئی۔سب افراد مجھے دیکھ رہے تھے‘ اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے۔ چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی، اعجاز الحق اور دیگر افراد بھی میٹنگ میں موجود تھے۔ مجھے سخت شرمندگی ہو رہی تھی کہ بغیر اجازت‘ وہ بھی دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے‘ میں کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ مجھے پکا یقین تھا کہ شدید ڈانٹ پڑے گی۔ وہ امن و امان کا دور تھا‘ اتنی سکیورٹی نہیں ہوتی تھی، البتہ کالے کپڑوں والے ایک‘ دو سکیورٹی گارڈز سیاستدانوں کے ساتھ ہوتے تھے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ پہلی ڈانٹ وزیراعظم سے پڑے گی یا گارڈ سے یا فیملی ممبرز سے لیکن جوکچھ ہوا وہ بہت حیرت ناک تھا۔
مجھے کسی سے ڈانٹ نہیں پڑی بلکہ چودھری شجاعت حسین نے مجھے پاس بلایا‘ سر پر ہاتھ رکھا۔ میں نے اعتماد پاتے ہی وزیراعظم نواز شریف کے آگے ہاتھ بڑھا دیا اور ان سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا اور دوڑ لگا دی اور لان میں آکر اپنا سانس بحال کیا۔ اس کے بعد چودھری پرویز الٰہی باہر آئے اور ملازمین کو ہدایت کی کہ جتنے بھی بچے آئے ہیں‘ ان کو ڈائننگ ایریا میں لے جائیں، وہاں پر ہم سب بچوں نے ٹی پارٹی انجوائے کی۔ چودھری برادران کی میزبانی کا تو ویسے بھی کوئی ثانی نہیں۔ اس کے بعد وزیراعظم نواز شریف جب جانے لگے تو ایک بار پھر ہم سب کی ان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہمیں دل لگا کر پڑھنے کی تلقین کی۔
اس کے بعد ایک بار ہم بچے اپنے چچا کے ساتھ جماعت اسلامی کے اجتماع میں گئے‘ پورا ایک شہر بسایا گیا تھا جس کو قرطبہ سٹی کا نام دیا گیا تھا۔ ہم ڈیڑھ دن وہاں رہے اور وہاں سے بہت ساری اسلامی کتابیں خریدیں۔ جماعت اسلامی اتنی منظم جماعت ہے کہ ہر چیز کا انتظام بہت احسن طریقے سے کیا گیا تھا۔ خواتین اور مردوں کا انتظام الگ الگ تھا اور اجتماع میں ہر سہولت موجود تھی۔ وہاں پر پہلی بار ہم بچوں کی ملاقات قاضی حسین احمد مرحوم سے ہوئی۔ ان کی بیٹی سمیحہ راحیل قاضی ان کو آغا جان کہتی تھیں‘ اس لئے ہم بچے بھی ان کو آغا جان کہہ رہے تھے۔ وہ بہت شفقت سے بچوں سے بات کر رہے تھے، انہوں نے ہم سب کو باقاعدگی سے نماز پڑھنے کی تلقین کی۔ آج بھی ان سے ملاقات میرے ذہن پر نقش ہے‘ اللہ ان کو جنت عطا فرمائے، آمین!
اسلام آباد کا ایک جریدہ بچوں کو مدعو کرتا تھا کہ وہ سیاسی شخصیات کا انٹرویو کریں وہاں میاں اسلم، چودھری طارق فضل، نواز کھوکھر، بشیر بلور، ناہید خان، طاہرہ اورنگزیب، جاوید ہاشمی، احسن اقبال، آیت اللہ درانی اور تہمینہ دولتانہ سمیت متعدد شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمارے معصومانہ اور شوخ سوالوں کا جواب وہ لوگ مسکرا کر دیتے تھے۔ میرے گھر والے سمجھتے تھے کہ میں لکھنے لکھانے کے ساتھ سیاست کی طرف بھی آ جائوں گی لیکن میں نے صحافت کو بطور کیریئر منتخب کیا۔ میری خواہش ہے کہ آگے چل کر میں ایسا ادب تخلیق کروں جو اردو کی تاریخ میں امر ہو جائے۔ سیاست بھی بری شے نہیں لیکن یہ میرے بس کی بات نہیں۔ میرے جمہوری اقدار والے خاندان کا شکریہ کہ میں بچپن میں بہت سی قد آور شخصیات سے ملی جن میں ادبی، سیاسی اور دینی‘ ہر طرح کی شخصیات شامل تھیں۔ اب تو حالات بہت بدل گئے ہیں اور شاید ہی اس نسل کے بچے سیاستدانوں سے مل سکیں‘ اب تو سکیورٹی والے کسی کو بھی پاس پھٹکنے نہیں دیتے۔ دہشت گردی اور بدلتے حالات نے سب کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر کے دور میں اتنے میلے اور تقریبات ہوتی تھیں‘ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ان میں شرکت کرتی تھیں اور ہم بچے سکول کی طرف سے ایسے پروگرامز میں شرکت کرتے تھے۔ محترمہ کی عادت تھی کہ وہ بچوں سے خصوسی طور پر ملتی تھیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں صرف جرائم ہی ہوتے ہیں‘ کوئی مثبت خبر سامنے نہیں آتی۔ نئی نسل کو تربیت کی بہت ضرورت ہے‘ ان کو بھی جمہوری عمل کا حصہ بنانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں