جمہوریت، انقلاب اور سیاست دان

راجہ بازار یا باڑا بازار جائو تو انسان حیران ہو جاتا ہے کہ بڑے بڑے سٹورز میں ملنی والی اشیا یہاں بھی موجود ہیں اور انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔دکاندار اگر سچا ہو تو وہ آپ کو اصل بات بتا دیتا ہے کہ باجی یہ اصل چیز کی ایک نمبر کاپی ہے یعنی جس کو ہم انگریزی میں Replicaکہتے ہیں۔جو دکاندارشاطر ہوتا ہے وہ اس کو اصل اور ایک نمبر چیز کہہ کر بڑے سٹور والوں کو صلواتیں سنائے گا اورگاہک کو بیوقوف بنائے گا۔ ملاوٹ پیار میں ہو‘ رشتوں میں ہو یا چیزوں میں‘ معاملہ زیادہ دیر نہیں چلتا۔ پیار ختم ہوجاتا ہے ‘ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور چیزیں خراب ہوجاتی ہیں۔اصل چیز کی بات ہی کچھ اور ہے لیکن یہ اکثر نایاب ہی ہوتی ہے۔ 
اس وقت ہمارے معاشرے میں ملاوٹ شدہ اور جعلی اشیا کی بھرمار ہے‘ جمہوریت کو ہی دیکھ لیں اس میں مفاہمت، مصلحت، اقرباپروری، کرپشن اور موروثیت کی ملاوٹ ہے اور اگر جمہوریت اور انقلاب کی بات کریں تو اس کا صرف نام استعمال ہو رہا ہے‘ اس کے لوازمات ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔پاکستانی جمہوریت کا یہ حال جمہوریت کے نام لیوائوں نے خود کیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کچھ خاندانوں کا نام بن کر رہ گئی ہے‘ تمام اہم عہدے‘ چاہے پارٹی کے ہویا حکومت کے‘ محض خاندان کے افراد تک محدود رہتے ہیں۔باپ کے بعد پارٹی بیٹا‘ بیٹی‘ بہو یا داماد کی ہوتی ہے‘ اس کے بعد یہ پوتے‘ پوتیوں اور نواسے‘ نواسیوں میں بٹ جاتی ہے۔ کچھ عہدے وفادار خالہ زاد‘ پھپھی زاد‘ تایا زاد اور ماموں زاد وغیرہ میں تقسیم کردیے جاتے ہیں۔عام عوام اور مخلص کارکنوں کو سوائے سبزباغ اور دھوکے کے‘ کچھ نہیں ملتا۔ میں ہرگز آمریت کی سپورٹر نہیں ہوں لیکن میں کرپٹ جمہوریت کی بھی حمایت نہیں کر سکتی۔ اس وقت بھی پاکستان میں انقلاب کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور اپوزیشن حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہے‘ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کس چیز کی جنگ لڑرہی ہے؟ کیا ان کی جنگ مہنگائی کے خلاف ہے؟ کیا ان کی لڑائی غربت کے خلاف ہے؟ کیا ان کی جہدوجہد ناانصافی کے خلاف ہے؟ نہیں! ایسا تو نہیں نظر آتا‘ یہ صرف اور صرف اقتدار کی جنگ ہے‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔جس کی کرپشن پکڑی جاتی ہے‘ اس کیلئے جمہوریت خطرے میں آجاتی ہے۔ سب 'اپنی اپنی کرپشن بچائو‘ مہم پر لگے ہوئے ہیں جس میں عوام کے مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔
کورونا کی وبا کے سبب لوگ معاشی طور پر مزید بدحال ہوئے ہیں‘ ان کا کسی کو خیال نہیں۔ کتنے ہی افراد ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کتنے ہی ایک وقت کی روٹی کیلئے ترستے ہیں، کتنے دوائی کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر مر جاتے ہیں‘ ان کے لیے کوئی بات نہیں کرتا۔لوگوں کے پاس گھر نہیں‘ تعلیم کیلئے وسائل نہیں‘ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے اسباب نہیں، بہت سے افراد پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاپاتے‘ ان کے بدن پر ڈھنگ کے کپڑے نہیں‘ انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں لیکن عوام اور ان کے اصل مسائل کا پاکستان کی موجودہ جمہوریت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بظاہر ان کی خدمت کا دم بھرنے والے تین سے چار کروڑ کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں، لاکھوں روپے کے جوتے پہنتے ہیں،ہاتھ میں گھڑی بھی بیس سے پچیس لاکھ کی ہوتی ہے، اس قدر تیاری کے ساتھ جب مائیک پر یہ غریب کی بات کرتے ہیں تو ہنسی آجاتی ہیں کہ یہ غریبوں کو انصاف دیں گے؟ عوام انہی لوگوں کی کرپشن کی وجہ سے تو یہاں غربت کا یہ عالم ہیں۔اگر یہ لوگ دنیا کے ہربراعظم میں جائیدادیں نہ بناتے تو آج پاکستان کے عوام خوشحال ہوتے۔ جس شخص نے کبھی غربت نہ دیکھی ہو‘ کبھی غریب علاقوں میں نہیں گیا‘ وہ کیا غریبوں کیلئے کیا درد رکھے گا؟الیکشن کے دنوں میں تو غریبوں سے ہمدردی دکھائی جاتی ہے‘ ان کے ساتھ فوٹو شوٹ ہوتے ہیں‘ ان میں آٹے کے تھیلے تقسیم کیے جاتے ہیں مگر اقتدار ملتے ہی یہ لوگ غریبوں کو بالکل فراموش کر دیا جاتا ہے‘ یہاں عمومی طور پر یہی چلن رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی اپوزیشن خوب جاہ و جلال میں حکومت پر گرج برس رہی ہے اور حکمرانوں کو ہر مسئلے کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے حالانکہ کئی مسئلے تو ایسے ہیں جو ان جماعتوں کے دورِ اقتدار سے چلے آ رہے ہیں اور کچھ تو انہی جماعتوں کے پیدا کردہ ہیں۔دوسری جانب ان جماعتوں نے شور ڈال رکھا ہے کہ 2018ء میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوئی تھی‘ تو میرا سوال یہ ہے کہ جن نشستوں پر اپوزیشن منتخب ہوئی‘ اور جہاں ان کی حکومت بنی‘ کیا وہاں بھی سلیکشن ہوئی تھی؟ ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا،اب عوام خاصے باشعور ہیں۔ اب وہ ذات‘ برادری یا پارٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف کام اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔
اس وقت الزام تراشی کا ایک بازار گرم ہے‘ جس میں خواتین کے احترام کا بھی خیال نہیں کیا جا رہا۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں خواجہ آصف نے جو لفظ وزیراعظم سے متعلق استعمال کیا یا جو بلاول بھٹو نے خاتونِ اول سے متعلق‘ وہ تو دہرانا بھی مناسب نہیں۔ وزیراعظم نے طنزیہ مریم نواز کو نانی کہا حالانکہ نانی تو بہت پیارا رشتہ ہے‘ اس پر کسی کا مذاق بنانا بڑی عجیب بات ہے۔ کراچی سے پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے نے جلسے کی تصاویر کو غلط انداز میں ٹویٹ کرکے اپنی اخلاقی گراوٹ ظاہر کی۔ مسلم لیگ نون کیوں پیچھے رہتی‘ وہ بھی وزیراعظم کی اہلیہ پر زبانی حملے کرنے لگی۔ یہ سب دیکھ کر مجھے شدید افسوس ہوا کہ پاکستانی سیاست میں خواتین کی توہین کرنا کس قدر آسان ہے۔ ان کی کردار کشی کرکے ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سیاست کو خیرباد کہہ دیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام جماعتیں اس میں برابر حصہ ڈال رہی ہیں۔ یہ بہت غلط کلچر ہے‘ اس کو بہرصورت ختم کرنا ہو گا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ بظاہر تو اپوزیشن اتحاد‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں ایک ساتھ کھڑی ہیں لیکن یہ اتحاد کب تک چلے گا‘ اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم یہ حقیقت ہے کہ گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں اپوزیشن نے اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا‘ عوام کی اچھی خاصی تعداد نے ان جلسوں میں شرکت کی‘ یہ امر حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اسے عوامی خدمت کے عمل کو تیز کرنا ہوگا اور عوام کو فوری ریلیف دینا ہوگا۔
کورونا کی دوسری لہر کے باوجود ملک بھر میں انقلاب کے نام پر جلسے ہورہے ہیں اور کورونا دور کھڑا سوچ رہا ہے کہ میں کس ملک میں آگیا ہوں‘ یہاں تو سب اپنی موج میں ہیں۔مجھے جلسوں پر اعتراض نہیں لیکن کورونا کی وبا کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ شاید سیاسی مفاد لوگوں کی زندگی اور صحت سے کہیں بڑھ کر ہے۔سیاسی جماعتیں اتنی غیر ذمہ دار کیسے ہوسکتی ہیں؟کیا کسی نے سوچا کہ کوئی ایک بھی شخص‘ جو کورونا کا مریض ہو اور وہ جلسے میں آجائے تو کتنے مزید لوگ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں؟اگر ان جلسوں کے باعث کورونا کیسز میں اضافہ ہوا یا جانی نقصان ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا؟ لگتا ہے کہ پاکستان میں کورونا صرف سکولوں اور کالجز میں پھیل رہا ہے اور باقی پاکستان کے پاس کوئی ایسی سلیمانی ٹوپی ہے جس سے کورونا ان کو دیکھ نہیں پاتا۔سیاست ضرور کریں لیکن دل میں عوامی خدمت کا جذبہ پیدا بھی کریں۔ کورونا کی وبا کے دوران عوامی مفاد میں بڑے اجتماعات سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
باقی جہاں تک انقلاب کی بات ہے تو بیرونی ممالک میں اربوں کی جائیدادیں بنانے والے اور ان کا حساب نہ دے سکنے والے انقلاب نہیں لا سکتے‘ نہ ہی کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرکے اور لاکھوں کے کپڑے پہن کر سٹیج پر کھڑے ہو کر محض تقاریر کرنے سے انقلاب آتے ہیں۔ عوام کی خدمت کریں‘ شاید اس سے کایا کلپ ہو جائے لیکن ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ اپوزیشن محض ''کرپشن بچائو‘‘ مہم میں مشغول ہے اور اسے غریبوں کا کچھ خیال نہیں‘ اس طرح ملک میں انقلاب آنا ممکن نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں