ہائبرڈ وارفیئر، بھارتی میڈیا اور پاکستان

پاکستان کی مسلح افواج جس میں پاک آرمی‘ پاک فضائیہ اور پاک نیوی شامل ہیں‘ پاکستانی سرحدوں کا پوری جانفشانی سے دفاع کررہی ہیں۔اس کا ثبوت ہم سب نے اپنی آنکھوں سے 27فروری 2019ء کو دیکھ لیا تھا کہ کس طرح پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دشمن کو تاریخ ساز شکست سے دوچار کیا تھا اور بھارت آج تک اس شکست کے صدمے سے باہر نہیں آسکا۔جس وقت سے بھارت نے بالاکوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا ہے‘ اس وقت سے اس کی افواج کے ستارے گردش میں ہیں۔پاکستان نے ان کا ایک مگ طیارہ مار گرایا اور دوسرا ایس یو تھرٹی‘ جس کا ملبہ مقبوضہ کشمیر میں گرا۔ بھارت کا ایک پائلٹ ابھینندن زندہ گرفتار ہوا اور دوسرا پائلٹ مارا گیا۔اسی روز بھارت کا ایک ہیلی کاپٹر مقبوضہ کشمیر میں کریش ہوا۔بھارت سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا اسے کتنا بھاری پڑے گا۔اس کے بعد سے بھارت نے سازشوں کا رخ تبدیل کردیا اور پاکستان کے ان لوگوں پر انویسٹ کرنا شروع کردیا جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں مبتلا ہیں اور ان میں سے اکثر اس وقت بیرونی ممالک میں بیٹھے ہیں۔یہ ڈالر خور طبقہ دن رات پاکستان کے خلاف مختلف چیزیں میڈیا اور سوشل میڈیا پر شیئرکرتا رہتا ہے اور بھارتی میڈیا اس کو بڑھا چڑھا کر اپنے چینلز پر پیش کرتا ہے۔ مثلاً بھارتی چینلز پر ایک کلپ چلایا گیا جس میں کچھ افراد ریاست کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ یہی کلپ پاکستان کے دیسی لبرلز بھی شیئرکرتے رہے۔ حالانکہ یہ صحافتی اصولوں کے برعکس ایسی مبہم وڈیو ہے جس میں یہ تک پتا نہیں چل رہا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کون سا علاقہ ہے۔
اسی طرح ایک برطانوی نژاد پاکستانی خاتون جس نے مولانا سمیع الحق کی وفات پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا تھا‘سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر اَپ لوڈ کرکے اس نے دوبارہ وہی حرکت کی اور اس کو بنیاد بناکر انڈین میڈیا نے کراچی میں بدامنی اور سول وار کی خبریں چلانا شروع کر دیں۔ جب اس 'تخریب کار‘ خاتون نے مولانا سمیع الحق کے قتل پر جعلی تصاویر پوسٹ کی تھیں تو میں نے خود ٹویٹ کرکے نشاندہی کی تھی کہ یہ تصاویر سراسر جعلی ہیں‘ اس پر وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ ٹویٹر کی پالیسی اس معاملے پر بہت سخت ہے کہ جعلی تصاویر شیئر کرنے پر اکائونٹ معطل بھی ہوجاتا ہے۔اس طرح کے لوگوں کا کام محض پاکستان کا نام دنیا میں بدنام کرنا ہے اور یہ کام اب اس نے دوبارہ کیا جب ایک وڈیو پوسٹ کی کہ کراچی میں بدامنی کا آغاز ہوگیا ہے‘ حالانکہ یہ مکمل طور پر جھوٹ تھا‘ اس وقت کراچی میں مکمل امن تھا اور کوئی ایسی بات نہ تھی۔ مذکورہ وڈیو میں کچھ لوگوں کو اندھیرے میں کہیں جاتا دکھایا گیا، نہ یہ پتا چل رہا تھا کہ وہ پولیس کے لوگ ہیں نہ ہی یہ بات ثابت ہورہی تھی کہ یہ واقعی کراچی ہے۔ وڈیو ایڈیٹنگ تو ان لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ لوگ ایسی تصاویر اور وڈیوز شیئر کرتے وقت کیپشن اردو میں لکھتے ہیں کیونکہ انگریزی ٹویٹس تو فوری طور پر رپورٹ ہوجاتے ہیں۔
اب اس طرح کے جھوٹے ٹویٹس اور جعلی وڈیوز کو بنیاد بنا کر بھارتیوں نے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر شور مچا دیا کہ کراچی میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کے کراچی میں جلسے‘ اس کے بعد کیپٹن (ر) صفدر کو ان کے ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کرنے سے جو صورتحال بنی‘(جو انہوں نے مزارِ قائد پر کیا‘ وہ بھی شرمناک تھا)اس پر حکومت اور پولیس کا جس طرح غیر واضح موقف سامنے آیا کہ سندھ پولیس سے یہ کام زبردستی کرایا گیا اور اغوا کی جو کہانی سنائی گئی‘ اس پر پولیس کے بہت سے افسران نے رخصت پر جانے کی درخواست دی‘ اس سے ملک میں عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔یہ سنگین نوعیت کے الزامات تھے‘ جس پر بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر آرمی چیف نے نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اس ساری صورتحال کا فائدہ انڈین میڈیا نے اٹھاناشروع کر دیا کہ اسے اپنی جعلی صحافت کے لئے مسالا مل گیا تھا۔
ایک بھارتی چینل کی نیوز اینکر نے کہا: پاکستان میں عمران خان کی حکومت اور فوج کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔پردیپ دتا نام کے ایک تجزیہ کار نے تفصیلات دینا شروع کیں تو وہی فیک وڈیوسکرین پر چلنا شروع ہو گئی۔ بیپر میں دی جانے والی تمام تر تفصیلات جھوٹ پر مبنی تھیں جن کا حقائق سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔اس کے بعد بھارتی میڈیا پر کہا جانے لگا کہ گلگت بلتستان میں بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں اور پھر جھوٹ کا ایک اور پلندہ نشر ہوا۔اس کے بعد بھارت کے مختلف چینلز اس منفی مہم میں کود پڑے اور کہا گیا کہ پاکستان کی آرمی اور سندھ پولیس کے مابین لڑائی ہورہی ہے اور فوج نے کراچی کے تمام پولیس سٹیشنز کا چارج سنبھال لیا ہے‘ یہ بھی سراسر جھوٹی خبر تھی۔زی نیوز بھی کہاں پیچھے رہتا‘ وہ بھی سول وار کی خبر کے ساتھ میدان میں آگیا۔بھارتی میڈیا پر کراچی کے علاقے ''گلشنِ باغ‘‘ میں ہنگامے اور دھماکے رپورٹ ہونے کی خبر نشر کی گئی حالانکہ کراچی میں اس نام کا کوئی علاقہ ہی موجود نہیں ہے۔ ایک چینل نے درجنوں ہلاکتوں کی خبر چلا دی۔ معاملہ صرف بھارت کے چینلز تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ بھارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے مستند (ویری فائیڈ)اکائونٹس بھی پاکستان کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ میں نے اپنے فالورز سے اپیل کی کہ وہ ان اکائونٹس اور ٹویٹس کو رپورٹ کریں جو پاکستان کے خلاف جھوٹی مہم چلا رہے ہیں‘ اس کے بعد بہت سے ٹویٹ بھارتیوں کو ڈیلیٹ بھی کرنا پڑے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ٹویٹر ان کا اکائونٹ بند کردیتا۔اس لئے میری سوشل میڈیا صارفین سے درخواست ہے کہ جب بھی پاکستان کے خلاف منفی مہم دیکھیں تو اس کو رپورٹ کریں۔ٹویٹر اس کو ازخود ریموو کر دے گا۔جتنے زیادہ لوگ رپورٹ کریں گے‘ اتنی جلدی ٹویٹ ریموو ہو گا اور جتنے زیادہ ویریفائیڈ اکائونٹس رپورٹ کریں گے‘ اتنی جلدی شنوائی ہوگی۔ بھارت کی یہ پاکستان کے خلاف مہم کوئی نئی نہیں ہے‘ ہر چھوٹے بڑے سیاسی و سماجی واقعے کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف منفی اور جھوٹی مہم چلائی گئی۔ 2018ء میں اس کا فوکس بلوچستان تھا‘ پھر سندھیوں اور پشتونوں کے حوالے سے جھوٹی مہم چلائی گئی، جب گلگت بلتستان میں ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا‘ تو اس حوالے سے واویلا کرنا شروع کر دیا‘ ہے۔ پتا نہیں کن کونوں سے بھارتی میڈیا ایسے تجزیہ کار نکال کر لاتا ہے جنہیں پاکستان میں کوئی نہیں جانتا‘ اور وہ خود کو پاکستان کا نمائندہ کہتے ہیں۔ سی پیک کے خلاف مہم تو ایک تسلسل سے چلائی جا رہی ہے کیونکہ چین اور پاکستان کے تعلقات بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور جو کچھ اس کے ساتھ لداخ میں ہوا‘ وہ تاریخی شکست بھی اس کے مقدر میں لکھی گئی۔ پاکستانی کو عالمی طور پر تنہا کرنے کی بھارتی کوششوں سے کون واقف نہیں؟ بھار ت نے افغان امن عمل کو سبوتاژکرنے کی کوشش کی‘ چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کے خلاف مہم بھارت سے ہی شروع ہوئی تھی اور اب جبکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے تو بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف جھوٹی خبروں پر مبنی آرٹیکلز اور خبریں شائع و نشر کررہا ہے۔ ایسی مہمات چلانے میں بھارتی ٹی وی چینلز، اخبارات، ویب سائٹس،یوٹیوبرز ، ٹویٹر اور فیس بک صارفین اور بالی وڈ‘ سب شریک ہیں۔
ہمارے زیادہ تر قومی چینل اردو میں ہیں اور بھارت کے انگریزی میں‘شاید اس وجہ سے پاکستان کے حالات سے بھارت میں صحیح آگاہی نہیں ہو پاتی۔ میرے خیال میں اگر پاکستانی چینلزخبرنامہ انگریزی میں بھی نشر کریں اور ٹکرز اردو و انگریزی‘ دونوں میں بھی نشر کریں تو ہمارا موقف بہتر طریقے سے دنیا تک پہنچ سکتا ہے۔ فی الوقت تو ہمارے پاس صرف ٹویٹر اور فیس بک رہ جاتے ہیں۔جب پاکستانی صارفین نے بھارتیوں کے ٹویٹ رپورٹ کئے تو بشمول بھارتی چینلز‘ کئی صارفین نے اپنے ٹویٹس ڈیلیٹ کردیے۔پاکستانی حکومت اور صارفین کو مل کر اس ففتھ جنریشن بائبرڈ وارفیئر کا مقابلہ کرنا ہوگا‘ ہم سب مل کر ہی اس منفی مہم کو ختم کرسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں