اگر آپ ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کی فلمیں دیکھیں تو ہر دوسری فلم‘ سیزن اور ڈاکیومنٹری کا ولن کسی مسلمان کو بتایا جاتا ہے۔ پہلے یہ ولن عرب ممالک اور عربی بولنے والے ہوتے تھے‘ اب پاکستانیوں اور افغانوں کو ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس سے لوگوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی اور پھیلائی جا رہی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اور اقوام مسلمانوں سے نفرت میں مبتلا ہیں‘ مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں، راہ چلتی مسلمان خواتین کے سر سے سکارف کھینچ لئے جاتے ہیں، داڑھی اور پگڑی والے مسلمان مردوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بچوں کو سکولوں‘ کالجوں میں مسلمان ہونے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس نفرت کو بہت منظم طریقے سے پھیلایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب اور حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اگر کوئی مسلمان انفرادی حیثیت میں کسی پر حملہ کرے تو وہ دہشت گرد کہلاتا ہے اور اگر کوئی دوسرے مذہب کا شخص کسی پر حملہ کرے تو اس کو ذہنی بیمار کہا جاتا ہے۔ اسے نفسیاتی عارضوں کا شکار قرار دے کر اس سے ہمدردی کی جاتی ہے جبکہ کوئی مسلمان اگر کسی چھوٹے جرم میں بھی مبتلا ہو تو اس کو مغربی میڈیا پر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس سے بڑا مجرم کوئی نہیں ہے۔ گورے رنگ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بالخصوص دہشت گرد کہنے سے گریز کیا جاتا ہے اور نفسیاتی مریض بنا کر انہیں جرم سے بری الذمہ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سے مغربی لیڈروں، ہندوستانی سیاستدانوں کے مذموم بیانات اور انگریزی فلموں میں مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی نفرت کے باعث نیوزی لینڈ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا‘ اس پر انسانیت کانپ گئی تھی۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں دہشت گرد برینٹن ٹیرینٹ جدید اسلحے کے ساتھ داخل ہوا اور اس نے نہتے نمازیوں پر فائرنگ شروع کردی۔ یہ سب کچھ وہ ریکارڈ بھی کر رہا تھا اور اسے فیس بک پر براہِ راست نشر بھی کر رہا تھا۔ یہ سب اُس اسلامو فوبیا کا نتیجہ ہے جو بہت سے مغربی ممالک، ہالی ووڈ اور ہندوستان کے اس پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں 51 نمازی شہید ہوئے‘ جن کا کوئی جرم نہ تھا، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ ایک سفید نسل پرست شخص ان کے دین سے نفرت کرتا تھا۔ سفید فام نسلی برتری کے پیروکار برینٹن ٹیرینٹ نے 3سال کے معصوم بچے سے لے کر ساٹھ‘ ستر سالہ بزرگ افراد تک‘ سب کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ اس نے اندھا دھند فائرنگ کی اور یہ قتلِ عام لائیو نشر کیا جس سے دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس نے اپنا لائحہ عمل بھی فیس بک پر پوسٹ کیا جس میں اس کارروائی کو صلیبی جنگ اور مسلمانوں سے بدلہ لینے سے جوڑا گیا تھا‘ بعد ازاں اس پوسٹ کو فیس بک نے ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ وہ جدید ترین اسلحے کے ساتھ آیا تھا‘ اس کے پاس رائفلیں اور گیس سلنڈر تھے۔ ایک موقع پر کچھ بہادر افراد نے اس کو قابو کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ سب نہتے تھے۔ یہ سانحہ کبھی نہ ہوتا اگر مسلمانوں کے خلاف منظم نفرت نہ پھیلائی گئی ہوتی۔ یہی کچھ اب دوبارہ ہو رہا ہے اور پہلے سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ۔
فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے شائع کئے اور اس کو آزادیٔ اظہارِ رائے قرار دیا جبکہ دنیا کی کسی بھی اخلاقیات میں کسی مذہب کے لوگوں کے جذبات مجروح کرنا آزادیٔ رائے نہیں ہے؛ تاہم فرانس نے اس انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ چند غیور مسلمانوں نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا تو 2 افراد مارے گئے۔ اس پر پوری دنیا جمع ہوگئی اور شمع روشن کی گئی جبکہ مسلمانوں کے احساسات مجروح ہونے پر کسی نے لب کشائی گوارا نہ کی۔ اسی طرح نیدرلینڈ کے ایک اسلام دشمن سیاست دان گیرٹ ولڈرز نے اعلان کیا کہ وہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش کرے گا‘ اس نے ایک خاکہ سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا تھا؛ تاہم عالمی برادری ان معاملات پر مجرمانہ خاموشی کا شکار نظر آئی۔ یہ بہت حساس نوعیت کا معاملہ ہے کہ مذاہب اور ان سے وابستہ شخصیات کا احترام کیا جائے اور ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے، کوئی بھی مسلمان تو یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ناموسِ رسالتﷺ کا تحفظ ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے لیکن اپنی سڑکوں پر ٹائر جلانے سے کچھ نہیں ہوگا،ہمیں یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا ہوگا کہ کچھ اسلام دشمن آزادیٔ اظہارِ رائے کا نام لے کر دنیا بھر میں مسلمانوں کے احساسات مجروح کررہے ہیں۔ہمارے دین اور ہماری مقدس ہستیوں کا احترام سب پرواجب ہے۔ کسی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا آزادیٔ اظہار میں نہیں آتا۔ اب فرانس نے ایک بار پھر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے ہیں اور گستاخانہ خاکے ایک بار پھر شائع کئے ہیں۔ 2015ء میں چارلی ہیبڈو پر انہی خاکوں کی وجہ سے حملہ ہوا تھا‘ وہی خاکے دوبارہ شائع کئے گئے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ اس طرح کی مذموم کوششیں انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتی ہیں۔ فرانس کے صدر‘ حکومت اور میگزین انتظامیہ کو دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگنا چاہیے۔ناموسِ رسالتﷺ پر ہر شمع رسالت کا پروانہ اپنی جان‘ مال اور ناموس قربان کرسکتا ہے، اس معاملے کی حساسیت کو دنیا کو سمجھنا چاہیے۔
اس حوالے سے پاکستان میں بھی بہت غم اور غصہ پایا جاتا ہے، تمام لوگ فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ اور احتجاج کا تذکرہ کررہے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اپنے ملک کی املاک اور لوگوں کو نقصان پہنچانا کسی بھی طور درست نہیں ہے‘ احتجاج ضرور کریں‘ انگریزی زبان میں پلے کارڈ اٹھائیں ، انگریزی زبان میں ٹویٹس اور پوسٹس سے اپنا پیغام دنیا تک پہنچائیں کہ مسلمان ایک پُرامن قوم ہیں‘ اپنی مقدس ہستیوں کو لے کر بہت حساس ہیں، اُن کی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔پاکستان کی پارلیمان میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کی گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسلامی تعاون تنظیم 15مارچ کو عالمی سطح پر اسلاموفوبیا سے نمٹنے کا دن منائے، نیز تمام مسلم ممالک فرانسیسی مصنوعات کو بین کریں۔ آزادیٔ رائے کے نام پر اسلام مخالف مہم کو اب بند ہونا چاہیے، تمام اسلامی ممالک یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر جائیں اور پوری دنیا کو یہ باور کرائیں کہ نبی پاکﷺکے حوالے سے کسی قسم کی اہانت برداشت نہیں کی جا سکتی۔اس ایک ایشو پر تمام اسلامی ممالک کو اکٹھا ہونا چاہیے اور پُرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے روز اپنے نبی کریمﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے، آمین!
فرانس کے صدر کے حالیہ بیانات نے اسلام دشمنی کی آگ پر تیل کا کام کیا ہے، وہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں اور اپنی کم علمی میں دینِ اسلام کے مخالف اقدام کر رہے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لائیں اور پیار محبت سے اپنا پیغام دنیا تک پہنچائیں۔ فرانسیسی چیزوں کا بائیکاٹ کریں لیکن کسی کی املاک کو نقصان نہیں پہنچائیں، بات دلیل سے کریں‘ جذباتیت اور غصے سے نہیں۔ ہمارے نبیﷺ کا پیغام امن و سلامتی ہے‘ ہمیں اسی طریقے سے بات آگے پہنچانا ہو گی۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قرآن پاک اور حدیث کی نشر و اشاعت میں حصہ لیں اور دنیا بھر کی زبانوں میں ان کے تراجم شائع کرائیں۔ اس کے ساتھ سیرت نبویﷺ کا ترجمہ تمام سفارت خانوں میں بطور ہدیہ دیں۔ نبی پاکﷺ کی زندگی سے مختلف حالات و واقعات کو سوشل میڈیا پر شیئر کریں تاکہ دنیا رحمۃ للعالمینﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کی تعلیمات سے آگاہ ہو سکے اور اسلاموفوبیا کا بھی خاتمہ ممکن ہو پائے۔ جہاں بھی کوئی ایسا مواد نظر آئے جو خلافِ مذہب ہو‘ اس کو پی ٹی اے اور سوشل میڈیا پر رپورٹ کرنا چاہیے۔ یہاں پر وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان کا کردار قابلِ ستائش ہے، دونوں امت مسلمہ کی آواز بن کر اس کی ترجمانی کر رہے ہیں اور ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں۔