کسان، محنت اور مطالبات

سکولوں میں پڑھتے تھے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی ستر فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی شعبے سے منسلک ہے۔صرف مرد ہی نہیں خواتین اور بچے بھی اس شعبے میں کام کررہے ہیں۔لوگوں کا ذریعہ معاش ان کے کھیت اور کھلیان ہیں۔ہر کسان بہت بڑی اراضی کا مالک نہیں ‘ چھوٹے چھوٹے زمین کے ٹکرے ان کیلئے روٹی کا بندوبست کررہے ہیں۔کسان اور ان کے خاندان بہت محنت کرتے ہیں تو کچھ روٹی کپڑے کا بندوبست ہوتا ہے۔بہت سے کسانوں کے پاس اپنا زمین کا ٹکڑا بھی نہیں اور وہ زمینداروں کے پاس اُجرت پر کام کرتے ہیں۔اکثر کسان جو اس ملک کیلئے خوراک پیدا کرتے ہیں ان کے اپنے بچے غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں اور تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ وہ اتنا کما ہی نہیں پاتے کہ زندگی آرام سے گزار سکیں۔ٹوئٹر پر میرے فالورز میں بہت سے افراد زراعت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جب وہ مجھے ٹوئٹرپر اپنے مسائل کے حوالے سے ویڈیو سینڈ کرتے ہیں تو میں دنگ رہ جاتی ہوں۔کبھی خشک سالی سے نقصان ‘تو کبھی سیلابی پانی میں ان کے فصلیں ڈوب جاتی ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ایک کسان بھائی نے ٹڈی دَل کے حملے کی مجھے اطلاع دی اور اپنے کھیتوں کی ویڈیو بھیجی تو تباہی دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔انہوں نے مجھے کہا: کچھ کریں میرے کھیت ٹڈی دَل نے تباہ کردیے ہیں۔میں نے اس حوالے سے ٹویٹ کئے‘ اور بھی لوگ حکومتی ارکان سے مطالبہ کرنے لگے کہ کسانوں کی جلد سے جلد مدد کی جائے۔ٹڈی دَل نے وہ تباہی پھیلائی کہ بیان سے باہر ہے۔ ٹڈی دل جہاں فصلوں پر حملہ کرتی ہے وہاں پر انڈے دے جاتی ہیں اس لئے جب اگلی فصل تیار ہوگی اس سے پہلے ٹڈی دَل کی بھی افزائش ہوجائے گی۔ٹڈی کی افزائش کا موسم جنوری سے جون ہے اس کے بعد میدانی علاقوں میں ان کی افزائش برسات کے موسم میں ہوتی ہے۔محکمہ زراعت اس خطرے سے آگاہ تھا لیکن سپرے کرتے وقت ان کا جہاز حادثے کا شکار ہوگیا اور عملے کے رکن جان بحق ہوگئے لیکن معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد حکومت پاکستان ‘آرمی اور ائیرفورس مدد کیلئے سامنے آئے اور متاثرہ علاقوں میں سپرے شروع ہواورنہ اس سے پہلے تو کسان صرف شور مچا کر اورڈھول بجا کرٹڈیوں کو بھگا رہے تھے۔این ڈی ایم اے ‘ این سی او سی اور محکمہ زراعت نے ساتھ مل کر کام کرکے اس حملے کو روکا۔
اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسانوں کی مزید مدد کی جاتی ‘ان کی داد رسی کی جاتی‘ لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔کسانوں کو ریلیف دینے کے بجائے ان کو مارا پیٹا جارہا ہے‘ ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔وہ ظفر رباب نے کیا خوب کہا ہے؎
کھاگئی دہقان کو / سبز کھیتوں کی قطار 
کسان کورونا ‘ ٹڈی دل اور معاشی حالات کی وجہ سے بدحال ہیں‘ اوپر سے حکومت ان کو مار رہی ہے۔لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ میں کسان اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کررہے تھے‘جمہوریت میں احتجاج کا حق ہم سب کے پاس ہے۔ اسی حق کے تحت کسان بھی احتجاج کررہے تھے ‘ان کے مطالبات کو سنانا اور حل کرنا حکومت پر فرض ہے‘ لیکن پولیس نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا‘ ان پر مبینہ طور پر کیمیکل ملا پانی پھینک دیا ‘اس کیلئے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور معتدد کسانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔کسانوں کا دھرنا ملتان روڈ پر جاری تھا اور اب ان کاارادہ وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کا بھی ہے کیونکہ اس تشدد کی وجہ سے ایک قیمتی جان چلی گئی۔کسان اس ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان پر تشدد افسوس ناک ہے؛چنانچہ گرفتار کسانوں کو فی الفور چھوڑ دینا چاہیے۔کسان اپنے حق کیلئے مطالبات کیلئے آئے تھے ‘وہ یہ چاہتے تھے کہ گنے کی قیمت دو سو بیس روپے اور گندم کی قیمت دو ہزار روپے فی من مقرر کی جائے اور حکومت مناسب داموں پر کسانوں سے فصل خریدے۔وہ اپنے حق کیلئے مظاہرہ کررہے تھے کہ پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد ایک کسان کی لاش جھاڑیوں سے ملی۔ اس کے چہرے پر کیمیکل سے جلے ہونے کی نشان بھی تھے۔جاں بحق ہونے والے کسان کا تعلق بورے والا سے تھا اور کسانوں کی ایک تنظیم کے عہدیدارتھے۔کسانوں میں اس سانحے کے بعد غم و غصہ پایا جاتا ہے‘ لیکن دوسری طرف حکومت تو الگ ہی مؤقف کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ کسان کی موت کیمیکل والے پانی سے نہیں ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔
مہذب معاشروں میں کیا ایسا ہوتا ہے کہ ملک کیلئے اناج پیدا کرنے والوں پر تشدد کیا جائے ؟سردی کے موسم میں ان پر پانی پھینکا جائے‘ ان کو جیل میں بندکردیا جائے؟وزیر اعظم عمران خان نے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ پولیس کے شعبے میں اصلاحات لائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور پولیس کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔خاص طور پر پنجاب پولیس کو ریفارمز کی اشد ضررت ہے۔ لیکن پنجاب حکومت خدمت سے زیادہ سیاست میں مصروف ہے۔حکومت گرفتاریوں ‘ تشدد ‘نظر بندیوں اور آواز دبانے سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے ‘ وہ نہیں ہوگا۔کسانوں کی آواز نہیں روکی جاسکتی۔حکومت تمام کسانوں کو رہا کرے‘ کسان رہنما کی موت کی تحقیق کروائے اور ان کے گھر والوں کی داد رسی کرے۔ زرعی اجناس اور کاشتکاری میں استعمال ہونے والی اشیا پر جی ایس ٹی کا خاتمہ کرے‘ اس کے ساتھ جس مطالبے کو لے کر کسان احتجاج کررہے ہیں اس کو پورا کیا جائے‘ گندم کی قیمت دو ہزار روپے فی من اور گنے کی قیمت دو سو بیس روپے فی من مقرر کی جائے۔کھاد ‘بیج ‘سپرے‘ پانی اور بجلی پر کاشتکاروں کو سبسڈی دی جائے۔
حکومت کے اندر بھی ایک گروپ موجود ہے جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ناکام بنارہا ہے ۔یہ مافیا پہلے گندم اورگنا سستے دام لیتا ہے پھر اس پر سبسڈی لیتا ہے اور اس کو باہر کے ممالک میں بیچ کر پھر دوبارہ حکومت کو کہتا ہے کہ مہنگے داموں خریدیں۔چینی اور گندم دونوں کے معاملے میں ایسا ہی ہوا‘ جس میں نقصان صرف پاکستانی خزانے‘ عوام اور کسانوں کا ہوا۔حکومت میں بیٹھے لوگوں نے حکومت کوغلط گائیڈ کیا‘ خود منافع کمایا اور مل مالکان کو فائدہ ہوا لیکن کسان مزید بدحال ہوتے گئے۔اپنے ملک میں پیدا ہونے والی چینی اور گندم کو پہلے باہر بھیج دیا اور پھر قلت ہونے پر مہنگے داموں پر باہر سے خریدی گئی جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا ہے۔اب جب کسان اپنے حق کیلئے نکلے ہیں تو ان پر تشدد شروع ہوگیا۔ گزشتہ برس گیارہ لاکھ ٹن چینی باہر کے ملکوں میں بیچ دی گئی اور مالکان کو سبسڈی الگ ملی۔ایف آئی اے نے جب اپنی رپورٹ مکمل کی تو حکمران جماعت کے ارکان اور اتحادی اس کے ذمہ دار نکلے۔ انہوں نے سبسڈی حاصل کی‘ منافع بھی کمایا اور چینی گندم باہر بیچ دی۔
آٹے کی بات کریں تو اس کی قیمت 70روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے‘ غریب روٹی کھانے سے بھی گیا ۔اس کے پیچھے بھی حکومت کے ساتھی اور اتحادی ہیں۔آٹے کی قلت ہوئی اور اس کی قیمت اوپن مارکیٹ میں زیادہ ہوگئی‘ 20 کلو آٹے کا تھیلا بارہ سو میں فروخت ہوتا رہا اور اوپن مارکیٹ میں قیمت 1950 روپے من ہوگئی۔محکمہ خوراک اس کا براہ راست ذمہ دار تھا اور ساتھ سیاست دان بھی اس میں ملوث تھے۔وفاق اور صوبوں میں تعاون کی کمی ‘ صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور محکمہ خوراک نے مل کر یہ بحران پیدا کیا۔ سندھ نے گندم نہیں خریدی اور پنجاب نے دیر سے خریدنا شروع کی۔وزیراعظم نے انکوائری تو کی لیکن سزا کتنوں کو ملی‘یہ آپ کے سامنے ہے۔اس صورتحال میں سیاست دان اور مل مالکان تو فائدے میں رہے لیکن کسان غریب ہی رہا اور اگر وہ اپنے حق کیلئے باہر آیا ہے تو حکومت کو ان کا حق دینا ہوگا۔حکومت کسانوں کے مطالبات مانے مگر عوام کیلئے نرخ وہ پرانے ہی رہنے چاہئیں۔ جہاں ان فلور ملز اور شوگر ملز مالکان کو اتنی سبسڈی مل سکتی ہے تو کسانوں اور عوام پر بھی نظرکرم ہوجائے تو کیا ہی اچھا ہو۔اس کے ساتھ کسان رہنما کی موت کی تحقیق بھی کی جائے اور ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں