نارنجی ہے زمیں جہاں

اس نوجوان طالبہ کا قصور یہ تھا کہ اس نے رشتے سے انکار کیا ۔وہ ابھی پڑھنا چاہتی تھی لیکن یہ بات اس کا رشتہ مانگنے والوں اور لڑکے کی سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ یونیورسٹی سے پیدل گھر کی طرف جا رہی تھی کہ لڑکا اس پر تیزاب پھینک گیا‘ وہ تکلیف سے چیخنے چلانے لگی‘ قریب ہی کھڑے لوگوں نے پائپ لگا کر اس پر پانی ڈالنا شروع کردیا ‘جتنی دیر ایمبولنس نہیں آئی وہ مسلسل اس کے چہرے اور بازوؤں پر پانی ڈالتے رہے۔اس کا چہرہ کچھ جھلس گیا اور بازوؤں کا بھی ابھی تک علاج ہورہا‘ مگر اس کی روح پر لگے زخم کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ حوا کی ایک اور بیٹی بھی بے قصور تھی‘ بس بیٹے کی خواہش میں اس کا گھر اللہ کی رحمت ‘بیٹیوں سے بھرگیا اور پانچویں بیٹی کی پیدائش پر اس کو شوہر اور سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا اور وہ اب گھرگھر کام کرکے اپنی بچیوں کا پیٹ پال رہی ہے۔ایک اور گریجویٹ لڑکی کے بہت سے خواب تھے‘ وہ ڈگری کے بعد جاب کرنا چاہتی تھی‘ اس کے اعلیٰ نمبروں کی وجہ سے اس کو جاب مل بھی گئی لیکن وہاں ہوس بھری نظریں اس کا تعاقب کرتی تھیں۔ جس دن اس کے باس نے اس کاہاتھ پکڑ کر دوستی کی آفر کی وہ اس کا آفس میں آخری دن تھا۔ اس کے بعد اس نے کبھی جاب نہیں کی۔ایک اور ورکنگ لیڈی نے محنت تو بہت کی لیکن اس کی تنخواہ ہمیشہ مرد کولیگ سے کم رہی۔ عورتوں کو مردوں کے برابر عہدے دینے اور تنخواہ دینے کا رواج ابھی بہت سے دفاتر میں نہیں آیا۔
آنکھوں میں خواب سجائے جب ماں باپ کی لاڈلی بیٹی پیا دیس سدھار گئی تو اس کو پتہ چلا کہ یہ تو اس کے خوابوں کی جنت نہیں‘ یہ تو ایک جہنم ہے جہاں اس کو روز شوہر سے مار پڑتی تھی۔ سب اس کو صبر کی تلقین کرتے رہے ‘مار پیٹ سے اس کا حمل ضائع ہوگیا‘ اب دیکھو تو پہچانی نہیں جاتی‘ آنکھوں پرگہرے حلقے ‘پیلا رنگ ‘وہ ہنسنا ‘بولنا چھوڑ چکی ہے‘ بس سانس لے رہی ہے‘ زندگی گزار رہی ہے ‘جی نہیں رہی۔اس کو شادی ختم کرنے کی اجازت نہیں کہ دونوں خاندانوں کی ناک کٹ جائے گی۔ایک اور کامیاب عورت ہے تو اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ہائی پوسٹ پر کام کررہی ہے ‘مگر اس کے شوہر نے بغیر بتائے دوسری شادی کرلی‘ اس کے سر پر آدھی عمر کی سوکن آگئی‘ وہ صرف دنیا کو دکھانے کیلئے شادی چلارہی ۔ اس کا شوہر اس کے کسی قسم کے حقوق پورے نہیں کرتا‘ نہ پیار نہ پیسے بس دنیا کو دکھانے کیلئے کہ ہاں میرے ساتھ ایک مرد کا نام جڑا ہے‘ وہ بددلی سے شادی چلارہی ہے۔ ایک اور لڑکی کے ساتھ یہ ہوا کہ اس کو شادی کی پیشکش کرنے والے مرد نے نکاح چھپانے کیلئے کہا‘ آج وہ اس کے دو بچوں کی ماں ہے لیکن اس کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگاسکتی ۔اس کے ساتھ کس پبلک مقام پر نہیں جاسکتی‘ وہ آج بھی ایک کمرے کے گھر میں رہتی ہے جبکہ شوہر نے پہلی بیوی بچوں کو محل نما گھر میں رکھا ہوا ہے اور ان کے ساتھ ہر جگہ جاتا ہے لیکن دوسری بیوی کی ہر جگہ حق تلفی ہوتی ہے۔ اب جب وہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتی ہے تو وہ صاف کہتا ہے کہ طلاق لے لو ‘اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو میری شرائط پر چلنا ہوگا ۔وہ دو بچوں کی وجہ سے مجبور ہے خاموشی سے ظلم سہہ رہی ہے۔
ظلم کی داستان طویل ہے جو حوا کی بیٹیوں پر ڈھائے جارہے ہیں‘ کبھی ریپ کرکے مار دیا جاتا ہے تو کبھی محبت کے نام پر دھوکہ دے کر ان کو رسوا کیاجاتا ہے۔کبھی ونی کردیا جاتا ہے تو کبھی کاری کرکے زندہ درگور کردیتے ہیں۔اپنی پسند سے پڑھنے اور شادی کرنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔آج کے جدید دور میں کتنی خواتین کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ‘وہ کیبل‘ موبائل اور انٹرنیٹ نہیں استعمال کرسکتیں۔کتنی ہی خواتین کو کم جہیز لانے پر جلا دیا گیاہے‘ تو کچھ واقعات میں ان کا ناک‘ کان کاٹ دیا گیا۔ان کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے‘کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے اور ان کا نام وارثت میں سے نکال دیا جاتا ہے۔عورتوں پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں‘ جن میں جسمانی تشدد‘نفسیاتی استحصال‘ مالی تنگی ‘گالی گلوچ اورہراساں کرنا شامل ہے۔یہ تشدد شوہر ‘ سسرال ‘ خاندان والوں ‘ جاننے والوں اور اجنبیوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے۔گھریلو تشدد کو خاص طور پر پاکستان میں اگنور کیا جاتا ہے حالانکہ مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ بیوی کو غلام بناکر مارے۔ بیوی بھی انسان ہے‘ اس کو پیار محبت‘سکون اور عزت کی ضرورت ہے‘تاہم ہمارے ملک میں خواتین کو چپ رہنے کیلئے کہا جاتا ہے اور بہت سے کیسز میں عورتیں خود بھی گھریلو تشدد رپورٹ نہیں کرتیں کیونکہ پورا خاندان ان پر دباؤ ڈالتا ہے کہ چپ رہو ورنہ خاندان کی بدنامی ہوگی۔
اقوام متحدہ 25 نومبر سے اگلے سولہ دن خواتین کے خلاف تشدد پر آگاہی کی مہم چلاتی ہے‘ جس کا مقصد خواتین پر تشدد کو روکنا اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی دینا ہے۔تاہم صرف عمارتوں پر اورنج لائٹس لگادینے سے کچھ نہیں ہوگا۔گھریلو تشدد کے خلاف قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ ایک مؤثر ہیلپ لائن کی ضرورت ہے جہاں خواتین فون کریں تو تشدد کرنے والے مردوں کے خلاف فوری ایکشن ہو۔اکثر مرد عورتوں کو گھر سے نکال دیتے ہیں‘ وہ معاشی طور پر خودکفیل نہیں ہوتیں کیونکہ ان کی ساری زندگی تو شوہر اور سسرال کی خدمت میں گزر جاتی ہے اور جب مار پیٹ کے بعد ان کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو وہ سوچتی ہیں کہ اب بچوں کو کہاں سے پالیں گی؟یہ بات یاد رکھیں کہ تشدد کا شکار صرف غریب عورت نہیں ہے‘ اچھی خاصی امیر‘ پڑھی لکھی عورتیں بھی گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔عورتوں کو ہمت کرکے آواز اٹھانا ہوگی اور حکومت‘ اداروں اور معاشرے کو ان کا ساتھ دینا ہوگا۔تشدد کا شکار عورت ٹوٹ جاتی ہے‘ اس کااعتماد ختم ہوجاتا ہے‘ اس کو مختلف جسمانی اور ذہنی بیماریاں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔تشدد کو روکیں اپنے گھر والوں سے بات کریں‘ اپنے شوہر کو سمجھائیں کہ یہ غلط ہے‘ اگر بات نہ بنے تو اس کی اطلاع پولیس کو کریں اور ایسے رشتے سے الگ ہوجائیں جس میں آپ کی عزت نہیں ۔جو شخص آج گالیاں دے رہا ہے ماررہا ہے وہ کل کو جان سے بھی مارسکتا ہے۔مرد کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی بیوی‘ ماں‘ بہن‘ بیٹی کو مارے ‘ گالی گلوچ کرے اور ان کو لوگوں میں کم تر ثابت کرے۔مرد اپنی مارپیٹ کو جسٹیفائی کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ اس عورت نے مجھے مجبور کیا کہ میں ہاتھ اٹھاؤں۔ تو کیا جب عورتوں کو ان کی بات بری لگ جائے تو عورتوں کو بھی مردوں کو پیٹنا چاہیے؟
خواتین اپنے حقوق کیلئے سب سے پہلے نکاح نامہ مکمل پُر کریں‘ طلاق کا حق ہونا چاہیے ‘ طلاق ہوتے وقت شوہر کی جائداد کا آدھا حصہ بیوی کو ملنا چاہے۔اگر مرد دوسری شادی کا خواہش مند ہے تو یہ شادی کورٹ میں ہونی چاہیے تاکہ بیویوں کو یکساں حقوق ملیں‘ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔اگر شوہر بیویوں میں توازن نہیں رکھ سکتا تو ایسے شوہر کو سزا ملنی چاہیے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ویمن کرائسس سینٹر بنائے گئے تھے‘ اس طرز پر سارے ملک میں ویمن پروٹیکشن بیورو ہونے چاہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی حالت میں عورتیں وہاں پناہ لے سکیں۔تشدد تب ہی رکے گا جب ہم اس پر بات کریں گے‘ آواز اٹھائیں گے‘ اس کو رپورٹ کریں گے۔خواتین یہ یاد رکھیں کہ ان میں کوئی کمی نہیں ‘کمی برائی اس شخص میں ہے جو تشدد کررہا ہے۔مردوں کو پدر شاہی اور صنفی امتیاز کی عادت ہوتی ہے اس لئے وہ عورتوں کو نفسیاتی‘ جنسی ‘جسمانی‘ جذباتی اور مالی طور پر ٹھیس پہنچاتے ہیں۔عورت کیلئے بسا ہوا گھر چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جس گھر میں عورت کی عزت نہیں ‘اس کو مارا پیٹا جاتا ہے وہ گھر نہیں ہے۔کورونا کے دوران زیادہ ترلوگ گھروں میں رہے‘ اس دوران خواتین پر تشدد مزید بڑھ گیا‘ اس برائی کا خاتمہ کرنا ہوگا‘ عورتوں پر تشدد کرنا مردانگی نہیں ایک مکروہ فعل ہے۔ تشدد کی شکار عورتوں کی مدد کریں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔صنفی مساوات کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں