پاکستانی سیاست میں خواتین کا کردار بہت اہم رہا ہے‘ تحریک پاکستان میں بھی خواتین کا کردار کلیدی تھا۔ فاطمہ جناح جو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بہن تھیں‘ اپنے بھائی کی معاون تھیں‘ ان کی وجہ سے دیگر خواتین بھی اس جانب راغب ہوئیں اور ہندوستان کی خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ پاکستان بنانے کی تحریک میں حصہ لیا۔ انگریز سامراج کے خلاف لڑائی میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم محمد علی جوہر، بیگم جہاں آرا، بیگم رعنا لیاقت علی، بیگم گیتی آرا، بیگم زری سرفراز، فاطمہ صغریٰ، مسز رشیدہ، بیگم حفیظ دین، مسز ایم اصفہانی، لیڈی ہدایت اللہ، لیڈی ہارون، بیگم وسیم، بیگم نواب اسماعیل خان اور دیگر خواتین کارکنان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خواتین کو تحریک پاکستان میں سیاسی عمل کا حصہ بنایا گیا اور اس کیلئے سب کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد خواتین کو سماجی و سیاسی طور پر مضبوط کرنا تھا۔ بڑی تعداد میں خواتین مسلم لیگ کی رکن بن گئیں اور دیگر خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ قائد اعظم کے شانہ بشانہ فاطمہ جناح کو دیکھ کر مسلم گھرانوں نے اپنی خواتین کو بھی سیاست میں آنے کی اجازت دے دی اور تحریک پاکستان میں خواتین کی شمولیت نے اس تحریک کو جلا بخشی اور اسے کامیاب کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی خواتین سیاست اور سماجی خدمات میں متحرک رہیں اور اپنی خدمات انجام دیں؛ تاہم قائد اعظم محمد علی جناح اور فاطمہ جناح سیاست میں موروثیت کے قائل نہیں تھے‘ ان کے نزدیک تمام مرد و خواتین کو سیاست میں برابرحصہ لینے کا حق حاصل تھا۔
بعد ازاں جب ملک کے سیاسی حالات بدلے تو فاطمہ جناح فیلڈ مارشل ایوب خان کے مدمقابل آگئیں اور الیکشن میں بھرپور حصہ لیا۔ اسی طرح جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے آمریت کا مقابلہ کیا اور بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں، ان کے دور میں خواتین کو ملکی سیاست میں نمایاں شمولیت کا موقع ملا اورخواتین کی فلاح و بہبود کیلئے بہت سے اقدامات کئے گئے۔ اس وقت مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں میں خواتین کی شمولیت کم تھی البتہ اے این پی اور جماعت اسلامی میں خواتین کی ہمیشہ بھرپور نمائندگی رہی ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو ان کی بیگم کلثوم نواز مزاحمتی تحریک کے ساتھ سامنے آئیں اور ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر اپنے کارڈز کھیلے بعد ازاں وہ سیاست سے کنارہ کشی کرگئیں لیکن جب دوبارہ ان کے شوہر پر کڑا وقت آیا تو وہ عملی سیاست میں آئیں لیکن زندگی نے ان کو زیادہ مہلت نہیں دی اور وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔
اگر پرویز مشرف دور کی بات کی جائے تو اس دور میں خواتین کو اسمبلیوں میں بھرپور نمائندگی دی گئی اور مخصوص نشستوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا گیا۔ اس دوران بہت سے نئے چہرے اسمبلی میں نظر آئے۔ ان خواتین کے کام اور انداز کا چرچا عالمی سطح پر بھی ہوا، خاص طور پر حنا ربانی کھر کو بہت پذیرائی ملی‘ ان کی ذہانت اور وقار کے چرچے عالمی فورمز پر بھی ہوئے۔ ہمسایہ ملک بھارت کا میڈیا بھی ان کا گرویدہ ہو گیا۔ اسی دور میں کشمالہ طارق، فردوس عاشق اعوان، سمیرا ملک، عائلہ مالک، غلام بی بی بھروانہ اور دیگر کئی خواتین بھی سامنے آئیں۔ اس وقت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے عشرت اشرف، تہمینہ دولتانہ اور طاہرہ اورنگزیب کافی فعال تھیں۔ 2008ء کے الیکشنوں میں پھر ایک بار خواتین کی بڑی تعداد اسمبلیوں میں آئی جن میں ایم کیوایم کی کشور زہرہ، خوش بخت شجاعت، پی پی پی سے پلوشہ خان، نفیسہ شاہ، فوزیہ وہاب، شیری رحمن، فرزانہ راجہ، فرح ناز، عاصمہ ارباب عالمگیر، مسلم لیگ ق سے دونیا عزیز، بشریٰ رحمن، ماروی میمن، نوشین سعید اور زبیدہ جلال قابلِ ذکر ہیں۔ اسکے بعد 2013ء کے الیکشن میں جے یوآئی سے عالیہ کامران، پی ٹی آئی سے عائشہ گلالئی، منزہ حسن، نفیسہ خٹک، مسلم لیگ ن سے انوشہ رحمن، عائشہ رضا، خالدہ منصور، لیلیٰ خان، پروین مسعود بھٹی، مائزہ حمید زیب جعفر، مریم اورنگزیب، ماروی میمن ایم کیو ایم سے کشور زہرہ، ثمن جعفری اور دیگر خواتین سیاسی باب کا حصہ بنیں۔ ان کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں بھی خواتین کی کافی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہاں پر میں پیپلزپارٹی کی شرمیلا فاروقی اور مسلم لیگ ن کی حنا پرویز بٹ کا ذکر ضرور کروں گی‘ دونوں سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی مصروفِ عمل ہیں اور دونوں کا سٹائل اسٹیٹمنٹ بھی زیر بحث رہا ہے۔ حنا پرویز بٹ‘ جو ایک فیشن ڈیزائنر ہیں‘ کی سیاسی کپڑوں کی کولیکشن بھی اکثر زیر بحث رہتی ہے۔ یہ دنوں خواتین سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں اور دونوں نے متعدد عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی زیادہ خواتین اسمبلی کا حصہ بنیں۔ مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ فوزیہ قصوری سیاسی سازشوں کا شکار ہوگئیں اور اسمبلی میں نہیں پہنچ سکیں، حالانکہ وہ اس وقت سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں جب یہ جماعت اتنی مقبول نہیں تھی۔ وہ سماجی سرگرمیوں کا بھی حصہ ہیں اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے شیریں مزاری، نفیسہ خٹک، شندانا گلزار، کنول شوذب، اسما قدیر، سیمی بخاری، عندلیب عباس، منزہ حسن، ملیکہ بخاری اور دیگر خواتین عملی سیاست میں آئیں۔
اس وقت قومی افق پر خواتین پوری طرح چھائی ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، حنا پرویز بٹ، مریم اورنگزیب اور عظمیٰ بخاری نے جلسوں سے لے کر ٹویٹر تک کا میدان سنبھال رکھا ہے اور حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہیں۔ اب ایک نوجوان لڑکی بھی سیاسی میدان میں اتری ہے جس نے آتے ہی تہلکہ مچا دیا ہے۔ جی ہاں! میں بات کررہی ہوں آصفہ بھٹو زرداری کی‘ جو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی ہیں۔ ان کے بھائی بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں لیکن اس وقت وہ کورونا سے نبرد آزما ہیں، اس لئے بلاول کی جگہ آصفہ نے ملتان کے جلسے میں شرکت کی۔ لوگوں نے ان کے سیاسی انداز کو بہت پسند کیا ہے۔ ملتان کے جلسے میں وہ سندھی لباس میں ملبوس تھیں اور اپنی والدہ کی طرح سفید دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا لیکن جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو سب کو محترمہ بے نظیر بھٹو یاد آگئیں۔ وہی اندازِ تکلم‘ وہی سراپا۔ آصفہ نے مختصر تقریر کی لیکن وہ تمام سیاستدانوں پر بھاری ثابت ہوئیں۔ اگرچہ میں مریم نواز اور آصفہ بھٹو کی مزاحمتی سیاست سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوں کہ میرے خیال میں یہ سیاست صرف اپنے خاندان کی دولت بچانے کیلئے کی جارہی ہے؛ تاہم فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور کلثوم نواز کی مزاحمتی سیاست نے مجھے کافی متاثر کیا ہے۔ ان چار خواتین کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فاطمہ جناح ایک آمر سے ٹکرائیں‘ ذوالفقار بھٹو کی گرفتاری کے بعد نصرت بھٹو اور نواز شریف کی گرفتاری کے بعد کلثوم نواز مزاحمتی سیاست کے استعارے کے طور پر سامنے آئیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر کا دور شروع ہوا اور وہ دو بار وزیراعظم بنیں۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہی اپنی صاحبزادی بختاور کو جنم دیا جواپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد‘ جب ان کے شوہر جیل میں تھے‘ وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ جیل کے چکر لگایا کرتی تھیں۔ ان کی شہادت کے بعد پارٹی کی باگ ڈور آصف علی زرداری اور بلاول نے سنبھال لی ؛تاہم آصفہ کو دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے وہ پیدا ہی سیاست کیلئے ہوئی ہیں، ان کا انداز اور لب و لہجہ متاثر کن تھا۔ اس سب کے باوجود میں موروثی سیاست کے خلاف ہوں اور اسے بالکل پسند نہیں کرتی۔ سیاست میں صرف خاندان ہی کیوں فوکس پر ہوتا ہے‘ خاندان سے ہٹ کر بھی پارٹی میں اچھے سیاستدان ہوتے ہیں‘ ان کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ یہ کیا دستور ہے کہ باپ یا ماں کے بعد پارٹی قیادت بچوں کو منتقل ہو جائے گی؟ کیا دوسرے لوگوں کو آگے آنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ جب گھر کے مرد کرپشن کیسز، جلاوطنی یا بیماری کی وجہ سے سیاست نہیں کر پاتے تو خواتین کو متعارف کرا دیا جاتا ہے‘ بات تو تب ہے جب بغیر کسی عذر کے خواتین کو سیاست میں شمولیت کا حق دیا جائے۔