ہنگور ڈے: پاکستان کی تاریخ کا روشن باب

ملک کے دفاع میں مسلح افواج نے جرأت اور شجاعت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت کسی بھی موقع پر ہمیں نقصان پہنچانے سے نہیں چوکتا‘ یہ ماضی میں بھی دیکھا گیا اور حال میں بھی اس کا مشاہدہ ہ ہو رہا ہے؛ تاہم ہماری افواج ہمہ وقت تیار ہیں اور بھارت کی سازشوں پر اس کو دندان شکن جواب دیتی رہتی ہیں۔ 1971ء کی جنگ ہم نے نہیں دیکھی‘ لیکن ہمارے بڑے بزرگ ملکی سالمیت کے لئے کام کر رہے تھے۔ ہنگور ڈے (Hangor Day) 71ء کی جنگ میں اُس تاریخی دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جب ہماری بحریہ نے بھارتی نیوی کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ 9 دسمبر 1971ء کو پاکستانی آبدوز ''ہنگور‘‘ نے بھارتی نیوی کے جہاز فریگیٹ کُھکری (ASW frigates, INS Khukri)کو غرقاب کیا تھا اسی حوالے پاکستان میں اس جرأت و بہادری کے کارنامے کو ہر سال 9 دسمبر کو پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ آبدوز ہنگور کے حملوں میں بھارت کے 18 آفیسرز اور 176 سیلرز ہلاک ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی آبدوز نے بحری جہاز کو تباہ کیا ہو۔ ہنگور نے دوسرے حملوں میں بھارتی نیوی کے جہاز کِرپان کو بھی مفلوج کر دیا۔ کمانڈر احمد تسنیم اور ان کے عملے نے انتہائی مہارت کے ساتھ حملہ کیا اور بھارتی جہاز کھکری سمیت 194 ارکان سمندر برد کیے۔ یوں بحر ہند اور سمندروں پر بھارتی برتری اور حکمرانی کا دعویٰ خاک میں مل گیا۔ بھارتی نیوی چار روز تک آبدوز ہنگور کو تلاش کرتی ہوئی پانیوں میں بم برساتی رہی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا اور ہنگور بحفاظت کراچی لوٹ آئی۔
پاکستان نیوی بیک وقت فضا، سطح سمندر اور زیر آب ملک کی حفاظت کرتی ہے۔ 27 فروری 2019ء کو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے تاریخ رقم کی اور بیک وقت دو بھارتی جنگی جہاز مار گرائے۔ اسی طرح نئی نسل کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ 71ء میں پاک بحریہ نے بھارتی نیوی کو دندان شکن جواب دیا تھا۔ پاکستان کی پہلی آبدوز''غازی‘‘ ایوب خان کے دور میں امریکا سے درآمد کی گئی تھی۔ وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم خود اس آبدوز کو لے کر پاکستان آئے تھے اور یہ سفر انہوں نے دو ماہ میں مکمل کیا تھا۔ 1965ء میں غازی نے 6سے 23ستمبر تک بھارتی نیوی کو ناکوں چنے چبوائے۔ غازی کے بعد ہنگور پاکستان کے بحری بیڑے میں شامل ہوئی‘ اس کو بھی وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم فرانس سے لائے اور سوئز نہر بند ہونے کی وجہ سے انہوں نے متبادل راستہ اختیار کیا اور تین ماہ میں یہ سفر مکمل کیا۔ احمد تسنیم‘ ستارۂ جرات، ہلالِ امتیاز ملٹری اور ستارۂ بسالت‘ اس مشن کا حصہ تھے اور 1971ء میں کمانڈنگ آفیسر پی این ایس ہنگور تھے۔ وہ ماشاء اللہ اس وقت 85 سال کے ہیں اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ ان سے ہنگور ڈے کے حوالے سے بات کر سکوں۔ وہ اس عمر میں بھی ہشاش بشاش ہیں اور باقاعدگی سے واک کرتے ہیں، ان کی لائبریری اور کتابوں کی کولیکشن دیکھنے کے لائق ہے۔ انہوں نے جس طرح ایک شفیق استاد کی طرح مجھے اس مشن کی تفصیلات سمجھائیں‘ مجھے ایسا لگا کہ میں 1971ء میں ہوں اور آبدوز ہنگور کا سفر کر رہی ہوں۔ وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم 1935ء میں جالندھر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔1954ء میں نیوی جوائن کی اور اعلیٰ تعلیم نیول رائل کالج انگلینڈ سے حاصل کی۔ ان کے استاد سب میرین سروس میں تھے اس وجہ سے انہوں نے بھی اسی سروس میں جانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں صدر ایوب خان کا اے ڈی سی بھی مقررکیا گیا اور اُس دور میں جب سب میرین غازی پاکستان آئی تو انہوں نے مدتِ ملازمت میں توسیع ملنے کے باوجود صدر ایوب سے رخصت مانگی اور دوبارہ سب میرین سروس جوائن کر لی۔وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کے اعزاز میں سب میرین ٹریننگ سنٹر کے داخلی دروازے پر ایک یادگار قائم کی گئی ہے، اس کے علاوہ کراچی میں نیوی میری ٹائم میوزیم میں ہنگور آبدوز نصب ہے۔ جس میں اس مشن کی اور اس کے عملے کی تفصیلات درج ہیں‘ جو نئی نسل کو اس تاریخی دن کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ایڈمرل (ر) احمد تسنیم‘ جو اس وقت کمانڈر تھے اور صرف 36 سال کے تھے‘ کی سربراہی میں نومبر میں اس آپریشن کا آغاز ہوا۔
فرانسیسی ساختہ ڈافنی کلاس آبدوز ہنگور 1970ء سے 2006ء تک پاک نیوی کا حصہ رہی۔ اس دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ایڈمرل (ر) احمد تسنیم نے بتایا: میں نے یکم دسمبر 1969ء میں فرانس میں ہنگور کی کمان سنبھالی تھی‘ اس وقت سب میرین تنگ و تاریک ہوا کرتی تھیں‘ اکثر سب میرین موسم سرما کے مطابق بنائی گئی تھیں جبکہ بحیرہ عرب میں سخت گرمی ہوتی تھی۔ اس میں نہ تو سب کے لئے بستر ہوتے تھے اور نہ ہی کھانے کے لئے زیادہ آپشن ہوتے تھے جبکہ نہانے یا ورزش کرنے کی بھی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ یہ بہت صبر طلب جاب تھی۔ آبدوز میں شدید گرمی‘ حبس اور نمی ہوتی تھی۔ ہنگور میں ہم 52 لوگ تھے‘ پانی صرف 5 منٹ کے لئے صبح‘ شام اور رات کو دستیاب ہوتا تھا تاکہ برش وغیرہ کر لیا جائے۔ ہم زیادہ تر سیمی ہاٹ میلز‘ چاول یا ہنٹر بیف سینڈوچ کھاتے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا ''زیر آب مسلسل چاول کھانے کی وجہ سے اب میں چاول کھانا بالکل پسند نہیں کرتا‘‘۔ سب میرین والوں کا ٹیسٹ ایئرفورس پائلٹ کی طرز پر ہوتا ہے‘ سب میرنیز کا جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ ہونا نہایت ضروری ہے‘ چونکہ سب میرین میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا‘ اس لیے کسی ایک کو کوئی وبائی مرض مثلاً فلو وغیرہ ہو جائے تو سب بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آبدوز چلانے والوں (Helmsman)کو بھی بہت صبر درکار ہوتا ہے۔ کپتان اپنی مرضی نہیں کر سکتا۔''71ء سے 72ء تک میں ہنگور کی کمانڈ کرتا رہا‘ اس کے بعد مجھے ہیڈ کوارٹر ٹرانسفر کر دیا گیا‘‘۔ انہوں نے بتایا: 71ء میں غازی مشرقی پاکستان اور ہنگور مغربی پاکستان میں تعینات تھی۔ جب مجھے پہلا موقع ملا کہ میں ٹارگٹ لاک کر سکوں تو اجازت نہیں مل سکی‘ صرف دفاع کا حکم آیا۔کمانڈر کو بہت صبر و تحمل کے ساتھ چلنا ہوتا ہے اور یہ سب ٹیم ورک سے ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد 9 دسمبر کو ہم نے تین آبی گولے (Torpedo) فائر کئے۔ ہم نے 55 میٹر سے اُن کو اٹیک کیا‘ یہ خاصا رسکی تھا‘ پہلا گولا کرپان کی طرف فائر کیا گیا جو گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے پھٹ نہیں سکا۔ اس کے بعد دوسرا گولا چند سیکنڈز کے وقفے سے فائر کیا گیا‘ یہ کھکری جہاز کی طرف فائر کیا گیا اور اس نے ان کے 60 ٹن بارود کو ہِٹ کیا اور محض دو منٹ میں بھارتی بحری جہاز کھکری تباہ ہو گیا۔ اس سے اتنا روز دار دھماکا ہوا کہ بھارتی فوجیوں کو سنبھلنے اور جان بچانے کا بھی وقت نہیں مل سکا۔ اب کرپان کو ہنگور کی پوزیشن کا اندازہ ہوگیا تھا سو تیسرا گولا اپنے دفاع میں کرپان پر داغا گیا جس سے وہ جہاز پلٹنے پر مجبور ہوگیا البتہ اسے نقصان کافی پہنچا۔ معرکہ تو ہم جیت گئے لیکن اب بھارت کو ہماری موجودگی کا پتا تھا اور ہم نے کراچی واپس جانا تھا‘ انہوں نے ہم پر حملے شروع کر دیے۔156 سے زائد بار بھارت نے ہم پر حملہ کیا؛ تاہم ہم متبادل راستے سے چار دن میں کراچی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے بھارت کے اندر گھس کر بھارت کو مارا تھا اور اللہ کے فضل سے بحفاظت واپس آنے میں کامیاب رہے۔ یہ بھارتی نیوی کی تاریخ کا سب سے بڑا نقصان سمجھا جاتا ہے۔ جنگ کے حوالے سے اپنے جذبات کے بارے میں ایڈمرل (ر) احمد تسنیم نے بتایا: جب ہم مشن پر جاتے ہیں تو یہ پتا نہیں ہوتا کہ ہم واپس آئیں گے یا نہیں‘ ایک سیلنگ لسٹ پر سب کے نام لکھے ہوتے ہیں اور کسی حادثے کی صورت میں کس کو اطلاع دی جائے‘ یہ درج ہوتا ہے کیونکہ سب میرین کے شہدا کی باڈی نہیں ملتی۔ جب ہم مشن سے واپس آئے تو سب نے پُرتپاک استقبال کیا، میری دو چھوٹی بیٹیوں نے میرے گلے میں ہار ڈالے۔ میڈیا اور اعلیٰ حکام نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ اس مشن پر موجود آدھے لوگ اب اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اگلے سال اس مشن کو پچاس سال پورے ہو جائیں گے‘ اس وقت ملے جلے جذبات ہیں۔ حال ہی میں ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کی وفات نے مجھے بہت رنجیدہ کیا ہے۔
میرے ایک سوال کے جواب میں احمد تسنیم صاحب نے بتایا: ایوب خان کے دور میں اے ڈی سی کی کوئی عیاشی نہیں تھی‘ وہ بہت قاعدے قانون والے شخص تھے۔ نہ ہمارے دفاتر اور نہ ہی ہمارے کوارٹر ایئرکنڈیشنڈ تھے۔ میرا دفتر صدر کے دفتر کے ساتھ تھا، جب کبھی ہم سفر میں گاڑی وغیرہ استعمال کرتے تھے تو اس کا خرچ ادا کرتے تھے۔ صدر ایوب اصولوں کے بہت پکے تھے۔ میرے نزدیک میری اے ڈی سی کی جاب اور سب میرین کی جاب ایک جیسی تھیں اور دونوں میں بہت آنر تھا۔ اپنی جاب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ زیر آب انہوں نے بہت سے مشن انجام دیے اور کئی کئی ماہ تک مسلسل بھی انہیں سمندرمیں رہنا پڑا۔ کسی بھی صورتِ حال میں سب میرین واپس ساحل پر نہیں آتی تھی۔ مشن مکمل ہونے کے بعد ہی واپسی ممکن ہوتی تھی۔ اس وقت آبدوز ہنگور کو کراچی میوزیم میں رکھ دیا گیا ہے جس کو دیکھ کر اس مشن میں حصہ لینے والوں کے خاندان یقینا خوشی محسوس کرتے ہوں گے۔ نئی نسل کے نام بہت پیارا اورمنفرد پیغام دیتے ہوئے وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم نے کہا کہ سڑکوں پر گاڑی مناسب رفتار میں چلائیں۔ 
9 دسمبر ہماری دفاعی تاریخ کا بہت اہم دن ہے‘ اس دن پاک بحریہ نے ایک سنہری تاریخی باب رقم کیا جو دفاعی اور بحری‘ دونوں تاریخوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاک بحریہ ہماری سمندری حدود کی نگہبان ہے اور ہنگور کے سب میرنیز نے بہادری اور کارکردگی کی وہ مثال قائم کی جس یہ ثابت ہوتا ہے کہ مادرِ وطن کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں تھا‘ ہے اور رہے گا۔ پاک بحریہ اس وقت بھی اپنی بحری قوت میں اضافہ کر رہی ہے جوملکی سالمیت اور دفاع کے لئے ناگزیر ہے۔ ہم سب کو اپنی تاریخ سے آگاہ ہونا چاہیے اور اس پر فخر کرنا چاہئے۔ ہنگور ڈے کے ہیروز کو سلام!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں