انصاف تو ہو کر رہے گا!

بلوچستان بہت عرصہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ اس خطے میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے بعض گروہوں کو اپنا ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنایا اور انہیں مالی معاونت اور ٹریننگ فراہم کی۔ اس کے علاوہ ناراض بلوچ رہنمائوں کے بچوں پر بھی بھاری فنڈنگ کی گئی۔ آج وہ نام نہاد باغی سردار جنیوا اور نیویارک میں عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ریاست مخالف لابنگ میں مصروف ہیں۔ ایسے ہی گروہ بھارت نے سندھ، خیبر پختونخوا اور دوسرے علاقوں میں بھی تیار کیے۔ کہیں پر قومیت اور کہیں لسانیت کا نعرہ بلند کیا گیا۔کہیں یہ سازش کامیاب رہی اور کہیں مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے‘ اس کے بعد بھارت نے پینترا بدلا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے درپے ہو گیا۔ بھارت نے 1971ء کی پلاننگ کو دہرایا اور جس طرح مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے خلاف لاکھڑا کیا تھا‘ باغیوں کو مالی معاونت فراہم کی جاتی تھی‘ وہی پلاننگ ادھر مختلف علاقوں میں مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے دہرائی گئی۔ بظاہر دیکھنے میں یہ لگتا ہے کہ یہ کوئی مقامی گروہ ہے مگر یہ سب کچھ ایک مکمل پلاننگ اور فنڈنگ کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جانے والا منصوبہ تھا؛ تاہم کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد را کا ایک بڑا نیٹ ورک ٹوٹ گیا اور صوبہ بلوچستان بہت حد تک پُرامن ہوگیا۔ سی پیک کے آغاز سے بلوچستان میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
اب پاکستان کی مغربی پٹی کو بالخصوص دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں‘ اس کے لیے کچھ مہینے پیچھے جانا پڑے گا۔ جب گلگت‘ بلتستان کو حکومت نے صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا‘ اس پر بھارت بہت سیخ پا ہوا تھا۔ یہاں سے حالات میں تبدیلی آئی۔ اس کے علاوہ افغان سرحد پر جو باڑ لگ رہی ہے‘ یہ بھی دشمنانِ وطن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اس لئے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں عام شہری ہوں، مسلح افواج ہوں، چینی شہری ہوں، پولیس اہلکار ہوں یا ایف سی کے جوان‘ سبھی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ ہر طبقہ‘ ہر قومیت اور ہر فرقہ دہشت گردی کی زد میں آیا۔ اس کے علاوہ مختلف تنصیبات اور گیس پائپ لائنز کو اڑانے کی کوشش کی بھی جاتی رہی؛ تاہم عوام اور سکیورٹی حکام نے بہت سی قربانیاں دے کر دشمن کے بہت بڑے نیٹ ورک کو شکست دی۔ دہشت گردی کے کچھ واقعات میں یہ افسوسناک پہلو بھی سامنے آیا کہ ملک میں عصبیت اور فرقہ واریت کا بیج بونے کے لیے لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد ان کو فرقے یا قومیت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔
یوں تو تمام پاکستانیوں نے دہشت گردی کے بہت زخم سہے ہیں لیکن بلوچستان کی ہزارہ برادری نے ان دو دہائیوں میں جتنے غم دیکھے‘ لکھتے لکھتے میرے الفاظ ختم ہو جائیں گے لیکن ان کے دکھ بھرے واقعات اور غم ختم نہیں ہوں گے۔ ظلم، زیادتی اور مظالم کے پہاڑ ان پر ٹوٹ گئے، ان کے دکھوں اور غموں کا مداوا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ بم دھماکے ہوں، اغوا برائے تاوان ہو، ٹارگٹ کلنگ ہو یا خود کش حملے‘ ہزارہ برادری پر وہ بربریت اور سفاکی روا رکھی گئی جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہزارہ بہت ملنسار، پُرامن اور پڑھی لکھی قوم ہے۔ یہ بہت محب وطن ہیں اور شاید یہی ان کا قصور ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی ملک کے خلاف نعرہ بلند نہیں کیا، نہ ہی غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار بنے، اسی وجہ سے یہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ 2001ء کے بعد سے ان پر حملوں میں شدت آئی ہے۔2003ء میں ہزارہ کو جمعہ کی نماز کے دوران نشانہ بنایا گیا جس میں 53 افراد شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوئے، اس حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی۔ 2004ء میں ایک بار پھر اس کمیونٹی کے جلوس کو نشانہ بنایا گیا اور 60 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 2010ء بھی ان پر بھاری رہا اور یومِ القدس کے موقع پر ایک ریلی میں ہزارہ برادری پر حملہ ہوا جس میں 70 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ کہنے کو یہ ہندسے ہیں لیکن اصل میں پورے پورے خاندان ہیں جن کو دہشت گردی نگل گئی۔2011ء میں ہزارہ اولمپین ابرار حسین کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔ آج بھی ہزارہ برادری کے بہادر بچے بچیاں ملک کے لئے مختلف کھیلوں میں تمغے لے رہے ہیں۔ یہاں کی نئی نسل میں بہت ٹیلنٹ ہے لیکن میں فکرمند ہوں کہ ان کی سیفٹی اور سکیورٹی کا کیا ہو گا کیونکہ انہیں مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔جنوری ہزارہ پر بہت بھاری رہا ہے‘ مجھے یاد ہے 2013ء میں علمدار روڈ پر جب پر پے درپے خودکش حملے ہوئے تو سو سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔دو سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ سخت سردی میں لواحقین میتوں کے ساتھ سڑک پر احتجاج کرنے لگے۔ اس وقت بھی لواحقین نے یہی مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم ان کی داد رسی کریں، اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کوئٹہ گئے اور لواحقین کو تسلی دی۔ صوبے میں کچھ عرصہ کیلئے گورنر راج لگا دیا گیا اور یوں دھرنا ختم ہوا؛ تاہم حملے نہیں رکے۔ اس کے بعد ہزارہ ٹائون کی مارکیٹ میں دھماکا ہوا جس میں 91 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ مجھے جنوری 2014ء کا وہ دن بھی یاد ہے جب ننھی ردا دہشت گرد حملے میں شہید ہو گئی تھی‘ اس کا بھائی ابتہاج زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا، پورے پاکستان نے ان بہن بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے ان کی تصاویر ڈی پی پر لگائی تھیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور بختاور بھٹو نے بھی اس مہم میں حصہ لیا تھا۔ دہشت گردوں نے ان کی بس پر حملہ کیا تھا اور بچوں کو بھی نہیں بخشا تھا۔ ابہتاج بعد میں صحت یاب ہوگیا تھا لیکن اس کی زندگی میں ردا کی کمی کبھی پوری نہیں ہو گی۔ضربِ عضب اور ردالفساد کے بعد حالات میں بہتری آئی اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی؛ تاہم 2018ء کے بعد پھر سے ہزارہ پر حملے شروع ہو گئے۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود بلوچستان گئے‘ ہزارہ عمائدین سے ملاقات کی اور ان کی داد رسی کی۔ اس کے بعد ایک سال سکون کا گزرا مگر 2019ء میں ہزار گنجی پھر دھماکوں سے گونج اٹھا اور 20 افراد شہید اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ان دو دہائیوں میں ہزارہ کی ایک پوری نسل ختم ہوچکی ہے۔ ان کا قصور کیا ہے‘ محب وطن پاکستانی ہونا؟ ان کی امن پسندی؟ ان کے سوالوں کا جواب ریاست ہی کے پاس ہے۔ ان کو دہشت گردی سے کیسے بچانا ہے‘ ان کو را کے نیٹ ورک اور ان کے ہینڈلرز سے کیسے محفوظ رکھنا ہے‘ اس حوالے سے پورا نیشنل پلان آف ایکشن ہونا چاہیے۔
اب مچھ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 11 کان کنوں کو سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کی وڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔ اگرچہ داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے مگر میری ریسرچ کے مطابق اس کے پیچھے بھارت اور یہاں کے لوکل ہینڈلرز ہیں جو اس پُرامن برادری کے دشمن ہیں۔ آج چھٹا روز ہے‘ لواحقین سڑک پر میتیں لیے بیٹھے ہیں، مائیں رو رہی ہیں، بہنیں چلا رہی مگر دکھ کا کوئی مداوا نہیں۔ وہ بار بار دہائی دیتی ہیں کہ کوئی اتنی بیدردی سے کسی کو کیسے مار سکتا ہے۔ ایک لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ گھر میں اب کوئی مرد نہیں بچا‘ جنازہ کون اٹھائے گا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک مظلوم لڑکی نے سندھ سے راجہ داہر کے مظالم کے خلاف دہائی دی تو محمد بن قاسم سندھ آ گئے تھے۔ یہ تو ٹیکنالوجی کا دور ہے‘ کیا حکمرانوں کو ہزارہ مائوں کی دہائیاں اور آنسو نظر نہیں آ رہے؟ جب وزیراعظم اپوزیشن میں تھے تو ہر جگہ پہنچ جاتے تھے اور اب جب حکومت میں ہیں تو یہ بے اعتنائی کیوں؟ کیا پی ایم ہائوس کی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ وہاں تک ان مائوں‘ بہنوں کی آوازیں نہیں پہنچ رہیں؟ ممکن ہے جب تک یہ کالم شائع ہو‘ دھرنا ختم ہو جائے اور یہ اجڑے خاندان اپنے پیاروں کو دفن کر دیں لیکن سب کو یہ یاد رہے گا کہ ملک میں بھلے کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر اپوزیشن کے عمران خان صاحب میں حکومت سنبھالنے کے بعد بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ کوئی تو جا کر ہزارہ کی مائوں‘ بہنوں کو تسلی دے کہ انصاف تو ہو کر رہے گا‘ ضرور ہو گا لیکن بروزِ قیامت۔ ہماری دعائیں اور اخلاقی مدد ان کے ساتھ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں