Road Rage

میری گاڑی سگنل پر کھڑی تھی‘ پیچھے سے ایک نوجوان نے گاڑی کو ٹکر ماری۔ بیلٹ لگائے ہونے کے باوجود مجھے اتنا شدید جھٹکا لگا کہ گاڑی کافی آگے چلی گئی۔ میرا چشمہ‘ فون‘ پرس، سب کچھ نیچے گر گیا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے‘ جب تھوڑی طبیعت بحال ہوئی تو میں غصے اور تکلیف کے عالم میں نیچی اتری۔ ہماری گاڑی محفوظ رہی تھی لیکن ٹکرانے والی گاڑی کا بہت نقصان ہوا تھا، اس میں ایک فیملی سوار تھی‘ ٹریفک پولیس اور پاس موجود لوگ آگے بڑھے۔سب کو پتا تھا کہ غلطی دوسری گاڑی والے کی تھی؛ اس کے چھوٹے بچے رو رہے تھے‘ ان کو روتا دیکھ کر میرا غصہ کافور ہوگیا‘ اس کی گاڑی کافیتباہ ہو چکی تھی سو میں نے اس کو وہیں معاف کردیا، البتہ ٹریفک پولیس نے اس کو ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر چالان تھما دیا۔ کافی دیر میرا سر درد چکراتا رہا، کندھے درد کرتے رہے اور دل عجیب وسوسوں میں گھر گیا کہ چند لمحوں میں کیا سے کیا ہو سکتا تھا۔ ہم ایک کام سے گھر سے نکلے تھے لیکن ایک غلطی، ایک حادثے نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا، غلطی دوسرے کی ہو، نقصان بھی بھلے اُس کا ہوا ہو‘ مگر اذیت مجھے بھی پہنچی تھی، میرا کوئی قصور نہیں تھا، میں سرخ سگنل پر اشارہ کھلنے کی منتظر تھی مگر بچوں کو روتا دیکھ کر اپنے غصے اور تکلیف پر قابو پایا اور معاف کرنے کو ترجیح دی۔
ایک بار میرے ڈرائیور کی غلطی سے ایک حادثہ ہوا تھا۔ اس دن سعودی اور ترکی طیاروں نے آنا تھا، مجھے پاک فضائیہ کے ایئر شو میں جانے کی جلدی تھی، اسی اثنا میں آگے والی گاڑی سے ٹکر ہو گئی۔ اس گاڑی سے ایک لڑکا اترا، اس کی والدہ بھی اس کے ساتھ تھیں، اس سے پہلے کہ جھگڑا شروع ہوتا، میں نے ان دونوں کی خیریت معلوم کی اور کہا کہ غلطی ہماری ہے، معذرت! آپ اپنے مکینک کو فون کریں‘ اخراجات میں ادا کروں گی اور چونکہ اس وقت شو شروع ہونے والا ہے تو پلیز جلدی فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے۔ میں نے ٹریفک پولیس والوں کو بھی کہا کہ چالان کاٹیں اور معاملہ حل کریں لیکن جہاز کسی قیمت پر میرے کیمرے کے لینز سے مس نہیں ہونے چاہئیں۔ کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں میڈیا ورکر ہوں‘ سوشل میڈیا پر میرے لاکھوں فالور ہیں‘ بس اتنا کہا کہ میں ایک ایوی ایشن لور ہوں اور مجھے جہازوں کی تصاویر اتارنی ہیں۔ میرا جوش اور ولولہ دیکھ کر ماحول میں تنائو کم ہوگیا اور جھگڑا بھی نہیں ہوا۔ مہذب شہریوں کو سڑکوں پر لڑنا نہیں چاہیے بلکہ ایک دوسرے کا احساس کرنا چاہیے۔ کسی کی گاڑی خراب ہو جائے تو اس کی مدد کریں، ٹائر بدلنے میں معاونت کریں اور حادثے کی صورت میں وڈیو بنانے کے بجائے زخمیوں کی مدد کو ترجیح دیں اور پولیس یا امدادی کارکنوں کو اطلاع کریں۔
سڑک پر ہمیں بہت زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہم سب جب گھروں سے نکلتے ہیں تو بہت سے مسائل ہمارے کاندھوں پر ہوتے ہیں، کسی کو ذاتی زندگی کے دکھ کھائے جا رہے ہوتے ہیں تو کسی کو معاشی فکر لاحق ہوتی ہے، کسی کو بیماری نے تنگ کیا ہوتا ہے تو کسی کو مہنگائی اور مہنگے بل ستا رہے ہوتے ہیں۔ اوپر سے وی آئی پی پروٹوکول، سڑکوں پر رش اور طویل ٹریفک جام لوگوں کو مزید غصے میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ویسے سڑکوں پر ایک اور مخلوق بھی پائی جاتی ہے جس کا مقصد صرف اصولوں کو توڑنا ہوتا ہے‘ وہ اپنی مہنگی گاڑیوں میں باہر نکلتے ہیں‘ اپنی دولت کی نمائش میں گاڑی سڑکوں پر چلاتے نہیں‘ اڑاتے ہیں۔ یہ طبقہ طاقت کے نشے اور پیسے کے غرور میں غریب عوام کو کچل دیتا ہے۔ موٹر سائیکل جو غریب کی سواری سمجھی جاتی ہے اور وہ گاڑی‘ جس کے پرخچے گزشتہ دنوں سرینگر ہائی وے پر اڑ گئے‘ عام طور سڑکوں پر ایسی ہی سواریاں پائی جاتی ہیں‘ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پاکستان میں صارفین کو اتنی غیر معیاری گاڑیاں کیوں بیچی جا رہی ہیں۔ کوئی سوال ہی نہیں کرتا کہ ٹین ڈبہ یہاں لاکھوں روپے میں بک رہا ہے جس میں سیفٹی فیچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان گاڑیوں کی خرید و فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ جو گاڑی بھارت میں چار پانچ لاکھ روپے میں ملتی ہے‘ وہ پاکستان میں دس گیارہ لاکھ کی فروخت ہوتی ہیں۔ اس میں نہ تو ایئر بیگز ہیں، نہ ہی پچھلی نشستوں پر بیلٹ، بس ٹین پر ٹائر اور سٹیرنگ لگا کر ہمیں گاڑی کے نام پر بیچا جا رہا اور خوب مال کمایا جا رہا ہے۔ ایک تو ہمارے ہاں پہلے ہی ٹریفک رولز کی دھجیاں اڑانے کو فخر سمجھا جاتا ہے‘ دوسرا، جب حادثات ہوتے ہیں تو یہ ٹین ڈبے پچک کر رہ جاتے ہیں اور قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ریس لگانے اور دیکھے بنا اوورٹیک کرنے کا بھی رواج ہے‘ اس بھی حادثات جنم لیتے ہیں اور چونکہ پیدل لوگوں کیلئے زیبرا کراسنگ اور مخصوص پل نہیں بنائے جاتے‘ وہ بھی سڑک پار کرتے ہوئے اکثر گاڑیوں کے آگے آ جاتے ہیں جس میں کئی قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں۔ ٹرک ڈرائیور اور بس ڈرائیور اکثر اوور سپیڈنگ کرتے ہیں اس سے سواری الٹ جاتی ہے اور مسافر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ان افراد کے ڈیوٹی آورز اتنے طویل ہوتے ہیں کہ ان کو نیند آ جاتی ہے‘ اس وجہ سے بھی حادثات ہوتے ہیں؛ تاہم پاکستان میں سب سے زیادہ حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ ہمارے عوام کو ایک شوق ہے‘ ان کو لگتا ہے کہ ہر کار سپورٹس کار ہے اور شاید تیز رفتاری پر ان کو کوئی میڈل ملے گا حالانکہ تیز رفتاری سے یا تو حادثہ ملتا ہے‘ موت ملتی ہے یا معذوری اور گاڑی کی تباہی ملتی ہے، اکثر اس طرح آپ دوسروں کے نقصان کے علاوہ ان کے قاتل کے بھی بن جاتے ہیں۔ذرا سوچیں کہ گھر سے آپ کسی کام سے نکلیں اور واپسی پر آپ تھانے میں بند ہوں کیونکہ آپ نے اپنی گاڑی سے لوگوں کو کچل دیا ہے، یہ سوچ کر ہی جھرجھری آ جائے گی۔ اس لئے گاڑی کو مناسب رفتار میں چلائیں اور زمین پر چلنے والے افراد کو انسان سمجھیں اور چھوٹی گاڑی والے افراد کو بھی سڑک پر چلنے کا حق دیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک افسوسناک حادثہ پیش آیا۔ پیر کو وفاقی محتسب کشمالہ طارق صاحبہ کے قافلے میں شامل ایک گاڑی نے ایک چھوٹی گاڑی کو ٹکر ماری جس سے چار افراد جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق اس افسوسناک حادثے میں انیس شکیل، فاروق، حیدر علی اور ملک عادل اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ یہ تمام نوجوان ایک نوکری کے انٹرویو کیلئے اسلام آباد آئے تھے، ہر وقت ساتھ رہنے والے دوست ایک ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹکر مارنے والی گاڑی کی رفتار بہت زیادہ تھی‘ جب حادثہ ہوا تو چھوٹی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے چند لمحوں میں منوں مٹی تلے جا سوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق کشمالہ طارق کا قافلہ جس سمت سے آ رہا تھا‘ اس کا سگنل بند تھا جبکہ نوجوانوں کا سگنل کھلا تھا۔ میڈیا رپورٹرز، وڈیو بنانے والوں اور عینی شاہدین کے مطابق‘ وہ گاڑی کشمالہ طارق کا بیٹا اذلان چلا رہا تھا جو اس وقت ضمانت پر رہا ہو چکا ہے، البتہ ایک ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا ہے۔
کشمالہ طارق صاحبہ کا موقف ہے کہ ان کی صرف دو گاڑیاں تھیں‘ ان کے شوہر یا بیٹے پر لگے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حادثے میں ان کی بھی جان جا سکتی تھی‘ جو قیمتی جانیں چلی گئیں‘ ان کیلئے وہ دعا گو ہیں، انہوں نے اپیل کی کہ حادثے کی فوٹیج نکال کر دیکھی جائے اور کسی پر بے بنیاد الزام تراشی نہ کی جائے۔ پولیس نے حادثے میں زخمی ہونے والے مجیب سکنہ مانسہرہ کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر لی ہے اور اس کے بیان کے مطابق بھی گاڑی اذلان چلا رہا تھا۔ اس کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ یہ تو سامنے آ ہی جائے گا لیکن سب کو یہ عزم کرنا چاہیے کہ وہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مناسب رفتار سے ڈرائیونگ کریں گے۔ امارت کے زعم میں گاڑیاں چلانے بلکہ اڑانے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کا ایڈونچر کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں