جب ہمارے ملک میں عام انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں تو ایسی ایسی تقاریر ہوتی ہیں کہ عوام کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ کتنے نیک اور پارسا لوگ ہمارے حکمران بننے جا رہے ہیں۔ جھکی جھکی نظریں، چہروں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ، ہاتھ مخصوص انداز میں ہلکے سے ہلا ہلا کر ادائوں کے ساتھ کارکنوں کو جواب دیا جا رہا ہوتا ہے۔ بھلے ان کی گاڑی پانچ کروڑ سے کم کی نہیں ہوتی، جوڑا بھی پچاس ہزار کا ہوتا ہے، گھڑی کا تو پوچھیں مت‘ چالیس لاکھ سے دو کروڑ تک اور باتیں غریبوں کی اور ان کے مسائل کی۔ اس وقت یہ سن کی یہ بہت حیرت ہوتی ہے کہ جنہوں نے کبھی غربت دیکھی نہیں‘ وہ غریبوں کے مسائل حل کریں گے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست صرف امیروں کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ہمیشہ ہارس ٹریڈنگ کی بات ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امیر خاندان یہاں اپنے لئے نشستیں ''بک‘‘ کر لیتے ہیں جس کے لئے خوب خرید و فروخت ہوتی ہے۔ پہلے یہ صرف کہانیاں لگتی تھیں لیکن منگل کو پاکستان کے معروف اینکر ارشد شریف اس کا وڈیو ثبوت بھی سامنے لے آئے۔ اس وڈیو میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پُرتعیش کمرے میں رقوم کی تقسیم ہو رہی ہے اور میز پر نوٹوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ یہ رقم مبینہ طور پر ممبرانِ اسمبلی کو خریدنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ وڈیو میں ممبرانِ اسمبلی کو نوٹ گنتے اور پھر یہ نوٹ بیگز میں ڈالتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ لین دین 2018ء میں ہوا تھا، پی ٹی آئی نے یہ معاملہ سامنے آنے پر بیس ارکان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی حکومت اس پر آواز بلند کر رہی ہے کہ سینیٹ میں اوپن بیلٹ سے انتخاب ہونا چاہیے تاکہ خرید و فروخت کا یہ دھندہ بند ہو۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان خود بھی اوپن بیلٹ کے خواہاں ہیں اور اس وقت معاملہ عدالت میں زیر بحث ہے؛ تاہم جب سے یہ ویڈیو سامنے آئی ہے‘ عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور ان تمام افراد کے لئے سخت سزا کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جنہوں نے پیسے لے کر اپنے ووٹ فروخت کیے۔ اور جو افراد اس طریقے سے سینیٹ میں آئے‘ ان کو بھی ڈِس کوالیفائی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے حکمران جماعت نے 2018ء میں ووٹ بیچنے والے ممبر اسمبلی اور وزیر قانون خیبر پختونخوا کو برطرف کر دیا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں کہ یہ ایوان ہے یا منڈی‘ جہاں بولیاں لگ رہی ہیں اور وہ لوگ جو خود کو عوامی مسیحا ظاہر کرتے ہیں‘ کیا ان کی قیمت محض 5، 5کروڑ ہے؟ ہر مرتبہ سینیٹ الیکشن سے پہلے یہ تماشا شروع ہو جاتا تھا لیکن اس بار وڈیو کے منظر عام پر آنے سے اس بیوپار کو دھچکا لگا ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود بھی کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ کی ایک سیٹ کا ریٹ 50 سے 70 کروڑ روپے تک لگ رہا ہے۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ اس ملک میں اتنا کالا دھن ہے؟ شاید اسی وجہ سے اس ملک کی معیشت بدحال ہے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
ایک طرف حکومت اوپن بیلٹنگ کی خواہاں ہے تو دوسری طرف اپوزیشن اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کیونکہ اوپن بیلٹ سے کرپشن اور ووٹ کی خرید و فروخت ختم ہو گی۔ اپوزیشن کو اس چیز پر اختلاف ہونا تو نہیں چاہیے لیکن شاید یہ کاروبار بن چکا ہے اور بہت سے لوگوں کو اسی لئے پریشانی لاحق ہے۔ حکومت اس حوالے سے صدارتی آڈریننس بھی لائی لیکن پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق‘ حکومت کی نیت خراب ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ الیکٹورل ریفارمز صرف اسمبلی کے ذریعے آ سکتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ لائے گا کون؟ وہ جو خرید و فروخت کے اس دھندے میں خود ملوث رہے ہیں؟ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت بھی چاہتی ہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہونے چاہئیں کیونکہ اس سے الیکشن میں شفافیت آئے گی۔جو لوگ خرید و فروخت سے سینیٹر بنے‘ ان کے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، یہ عوام کے ساتھ ساتھ ریاست کے ساتھ بھی دھوکا ہے، ان تمام لوگوں کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہونی چاہیے جو خرید و فروخت کے اس گھنائونے دھندے کا حصہ بنے۔ اب مارچ میں دوبارہ سینیٹ الیکشن ہو رہے ہیں۔ خرید و فروخت کرنے والے سیاستدانوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے، اب سب کی امیدوں کا مرکز عدلیہ ہے کہ دیکھیں کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں جو کچھ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا‘ وہ دیکھ کر میں ششدر رہ گئی۔ میری رپورٹنگ کے شروع کے دن تھے جب اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام نیا نیا عمل میں آیا تھا۔ مجھے وہاں جانا اچھا لگتا تھا اگرچہ میری زیادہ ڈیوٹی بطور رپورٹر قومی اسمبلی میں تھی۔ جب جسٹس اطہر من اللہ نے وہاں چیف جسٹس کا چارج سنبھالا تو انہوں نے بہت سے مشکل کیسز کا فیصلہ دے کر عوام کے دل جیت لئے، اب میں کورٹ رپورٹنگ تو نہیں کرتی لیکن ان کے فیصلے ضرور پڑھتی ہوں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ اور ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات اس وقت ناجائز تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کر رہے ہیں اور اسلام آباد کے عوام ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب اسلام آباد کی انتظامیہ نے ایف 8 کچہری میں تعمیر کردہ ناجائزتجاوزات گرائیں تو بعض افراد نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر دھاوا بول دیا جومیرے نزدیک انتہائی سنگین جرم ہے۔ عدالت ایک مقدس عمارت اور انصاف کا سرچشمہ ہے۔ ہم شہری اپنے مسائل کے حل کے لئے صرف یہاں دیکھتے ہیں۔ جب چند افراد کے اسلام آباد ہائیکورٹ پرحملے کی خبر سنی تو مجھے جج صاحبان اور دیگر عملے کی سلامتی کی فکر لاحق ہوئی اور میں نے ان کی خیریت و سلامتی کی بہت سی دعائیں مانگیں۔ سوشل میڈیا پر بھی بہت سے افراد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے اظہارِ یکجہتی میں ٹویٹس کرتے رہے۔ یہ حملہ اصل میں انصاف اور وکلا تحریک پر حملہ ہے جو بہت افسوسناک ہے۔ جب میں یہ سب کچھ ٹی وی پر دیکھ رہی تھی تو مجھے اس بات کا سو فیصد یقین تھا کہ عدلیہ مزید ہمت اور پختہ ادارے کے ساتھ سامنے آئے گی۔ مجھے امید ہے کہ ان شرپسند عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی ہو گی جنہوں نے انصاف کی مقدس عمارت پر حملہ کیا۔ اب تک 21 افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف بدھ کے روز شاہراۂ دستور میدانِ جنگ بنی رہی اور پولیس نے دل کھول کر آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔ سب کی آنکھوں اور پھیپھڑوں کے ساتھ بھرپور دشمنی کی گئی۔ کوئی آنسو گیس کو بین کیوں نہیں کرتا؟ پہلے ہی ہم پولن الرجی اور کورونا کے ستائے ہوئے ہیں‘ اوپر سے آنسو گیس ہمارے نظامِ تنفس کو مزید کمزور کر رہی ہے۔ متعدد ملازمین شیلنگ سے بیہوش ہوکر ہسپتال پہنچ گئے اور پولیس کے چند اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ دونوں طرف پاکستانی تھے،احتجاج کرنے والے بھی ہمارے اپنے لوگ ہیں‘ کوئی غیر ملکی یا دہشت گرد نہیں‘ یہ سرکاری ملازم ہیں اور اپنی تنخواہوں میں اضافے کا جائز مطالبہ کر رہے ہیں۔ پولیس کی طرف سے گرفتاریاں اور شیلنگ بہت افسوسناک ہیں۔ حکومت کو ان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور تمام جائز مطالبات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ سرکاری ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ میں چالیس فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اگر حکومت کے لئے یہ ابھی ممکن نہیں تو بھی مذاکرات تو کرے۔ اتنی شیلنگ کرکے اردگرد کے لوگوں کا سانس بند کرنا، ان کی آنکھیں سرخ کر دینا اور انہیں بے حال کر دینا‘ یہ سب مہذب معاشروں میں زیب نہیں دیتا۔