ذرا سی احتیاط لازم ہے!

کبھی کبھی ذرا سی غفلت‘ کوتاہی‘ غلطی‘ بھول اور سستی عمر بھر کا روگ دے جاتی ہے اور بحیثیت اشرف المخلوقات ہم بخوبی یہ سمجھتے ہیں کہ کبھی کبھی ذرا سی لاپروائی بھی ایک سانحہ جنم دے دیتی ہے۔ یہ سردیوں کے دن ہیں اور ملک بھر میں سردی کی شدت کو کم کرنے کیلئے قدرتی گیس کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بعض علاقوں میں لکڑی‘ کوئلہ اور گوبر وغیرہ بھی جلایا جاتا ہے؛ تاہم کسی بھی ایسی چیز‘ جس سے حرارت حاصل کی جاتی ہے‘ کو سونے سے پہلے بند کرنا لازم ہے۔ ضروری ہے کہ سونے سے قبل انگیٹھی بجھا دی جائے اور گیس کے والو بند کر دیے جائیں۔ حال ہی میں راولپنڈی میں ایک گھر کے بالائی حصے میں گیس لیک ہونے کے سبب زوردار دھماکا ہوا اور آگ لگنے سے چار قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ایک قیمتی جان یوں بھی گئی کہ آج کل باتھ روم میں بجلی کے گیزر لگانے کے رواج ہے۔ اس کی وجہ سے بھی لوگ دم گھٹنے کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک بچہ جمعہ کے روز غسل کرنے گیا تو کافی دیر تک باہر نہیں آیا۔ باتھ روم کا دروازہ توڑ کر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ دھواں بھر جانے سے بچہ دم گھٹنے کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا گیا ہے۔ اس کے ماں باپ ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آ رہے کہ ان کا جواں سال بیٹا اس دنیا سے چلا گیا ہے۔ انسٹنٹ گیزر وغیرہ کبھی بھی بند جگہوں پر نہیں لگانے چاہئیں۔ چاہے برقی آلات ہوں یا گیس کے آلات‘ ان کے استعمال میں احتیاط لازم ہے اور ہر ایک دو ماہ بعد ان کو چیک کرانا ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچاجا سکے۔ کچھ عرصہ قبل ایک سکول ٹیچر سے یہ غلطی ہوئی کہ چولہے کے پاس انہوں نے کاکروچ سے بچائو کا سپرے کر دیا۔ اس وقت چولہا جل رہا تھا۔ سپرے میں چونکہ آتش گیر مادہ ہوتا ہے، سو اتنا زور دار دھماکا ہوا کہ وہ خود بھی آگ کی لپیٹ میں آ گئیں اور جانبر نہیں ہو سکیں۔ چاہے مچھر بھگانے والے سپرے ہوں، کیڑے مار ادویات ہوں، پرفیوم ہوں یا باڈی سپرے ہوں‘ ان کو ہیٹ‘ آگ اور گرمی سے دور رکھنا چاہیے۔ یہ فوری طور پر آگ پکڑ لیتے ہیں۔ میری ایک دوست جو معروف اینکر ہیں‘ مجھے بتا رہی تھیں کہ ان کی ذرا سی لاپروائی سے گھر کی بالائی منزل میں آگ لگ گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ کپڑے استری کرنے کے بعد سوئچ آف کرنا بھول گئی تھیں۔ سونے سے پہلے، گھر سے نکلنے سے پہلے اور دروازے وغیرہ بند کرنے سے قبل اچھی طرح تسلی کر لینی چاہیے کہ برقی آلات، گیس والو اور دوسری چیزیں بند ہیں۔ اسی طرح گاڑی میں باڈی سپرے، ایئر فریشنرز بھی نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ گرمیوں میں جس وقت درجہ حررات زیادہ ہوتا ہے تو اس وقت ان کے گاڑی میں پھٹنے کا خدشہ کافی بڑھ جاتا ہے اور گرمیوں میں اکثر ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
بجلی‘ جہاں انسان کے اتنے کام آتی ہے کہ اس کے بغیر روز مرہ کا کوئی بھی کام انجام نہیں دیا جا سکتا‘ وہاں یہ انسان کو پل بھر میں مار بھی دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی کہ ایک شخص شرارت میں بجلی کے تاروں پر جھولا جھولنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو اس قدر شدید جھٹکا لگتا ہے کہ وہیں پر وہ جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اکثر ٹرین یا بس وغیرہ کی چھت پر سفر کرنے والے بجلی کے تاروں کی زد میں آ کر حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میرے جاننے والوں کی ایک عزیزہ کو پانی کی موٹر چلاتے ہوئے اس زور کا کرنٹ لگا کہ ان کی وفات ہو گئی۔ ایک اور خاتون بارے پتا چلا کہ وہ چھت پر کپڑے پھیلا رہی تھیں کہ ایک کپڑا اڑ کر پاس موجود بجلی کے ٹرانسفارمر پر جا گرا۔ وہ جیسے ہی اس کو پکڑنے کیلئے آگئے بڑھیں تو کرنٹ کی لپیٹ میں آ گئیں اور یہ اتنا شدید جھٹکا تھا کہ وہ لمحوں میں چل بسیں۔ اللہ تعالی سب کو سانحات اور حادثات سے محفوظ رکھے، آمین!
ہمیں نصاب میں ابتدائی طبی امداد اور حادثات سے بچائو کے بارے میں بچوں کو لازماً پڑھانا چاہیے اور خود بھی سیکھنا چاہیے کہ جہاں ایک غلطی سی جان جا سکتی ہے وہیں حاضر دماغی جان بچا بھی سکتی ہے۔ اکثر گھروں میں تیزاب، مٹی کا تیل اور دیگر کیڑے مار ادویات عام بوتلوں میں رکھی جاتی ہیں، بچے ان کو شربت یا سافٹ ڈرنگ سمجھ کر پی بھی لیتے ہیں۔ ایسی چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور ہونی چاہئیں، جب بچے چلنا شروع کر دیں تو بجلی کے ایسے سوئچ جو ان کی پہنچ میں ہوں‘ کو ٹیپ یا پیپر وغیرہ سے بند کر دیں، سڑھیوں کے آگے عارضی دروازے لگا دیں تاکہ وہ گرنے اور چوٹ لگنے سے محفوظ رہیں اور ایسی چیزیں‘ جو وہ ناک، کان یا گلے وغیرہ میں پھنسا سکتے ہیں‘ خصوصی طور پر ان کی پہنچ سے دور رکھیں کیونکہ ہسپتالوں میں سب سے زیادہ کیسز ایسے ہی آتے ہیں کہ بچوں نے کوئی چیز حلق‘ ناک یا کان میں پھنسا لی ہے۔ اسی طرح گرم پانی‘ چائے، چولہا، تیل‘ کڑاھی اور گرم پکوان سے جھلسنے کے واقعات بھی بچوں میں اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ کئی بچے تو بچپن میں ایسے حادثات کا شکار ہو کر عمر بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ ان پر کڑی نظر رکھی جائے اور انہیں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے۔ اکثر بچے لڑتے ہوئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں جس سے دوسرے بچے کا سر پھٹ جاتا ہے‘ سینے پر چوٹ لگ جاتی ہے‘ بازو یا ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے یا آنکھ وغیرہ میں کوئی سخت زخم آ جاتے ہیں۔ بچوں کو سمجھایا جائے کہ ایک دوسرے کو دھکے مت دیں اور لڑائی جھگڑے سے گریز کریں۔ ایسی جگہوں پر مت کھیلیں جہاں سے ان کے گرنے کا امکان ہو۔ اکثر بچے چھت سے گر جاتے ہیں‘ بہت سی صورتوں میں ایسے اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔ سو اس چیز کا خاص خیال رکھا جائے کہ وہ کوئی بھی ایسا کھیل نہ کھیلیں جس سے ان کو کوئی جان لیوا چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔ اگر کسی کے گرنے یا پھسل جانے کا کوئی واقعہ پیش آئے تو فوری طور پر خون روکنے کی کوشش کی جائے اور ایمبولینس کو کال کی جائے۔
اکثر گھروں وغیرہ میں بھاری اشیا کو دیوار کے سہارے کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ محض دیوار سے ٹیک نہ دی جائے بلکہ انہیں ساتھ جوڑ دیا جائے تاکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں وہ کسی فرد پر نہ گریں۔ حال ہی میں ملک کے بیشتر حصوں میں خوفناک زلزلہ آیا۔ میں اس وقت ایک دوست سے فون پر بات کر رہی تھی، میرے کمرے‘ جو گھر کی بالائی منزل پر ہے‘ میں موجود ہر چیز ہلنے لگی۔ جس طرح سے میں سیڑھیاں اتری‘ یہ مجھے پتا ہے۔ بہت مشکل سے گھر سے باہر آئی اور کلمے کا ورد کرتی رہی۔ بہت دیر تک ٹانگوں میں درد ہوتا رہا لیکن اس صورتحال میں بھی میں وہ بیگ اٹھانا نہیں بھولی جو میں نے کچھ سال پہلے آنے والے زلزلے کے حوالے سے بنایا تھا۔ میری بہن نے اس بیگ کو ''زلزلہ بیگ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اس بیگ میں کچھ رقم، بیٹری بینک، موبائل چارجر، ٹارچ، گاڑی کی چابی، پانی، کھانے کا خشک سامان اور مرہم پٹی وغیرہ ہوتی ہے۔ زلزلے کا جھٹکا اتنا شدید تھا کہ مجھے 2005ء کا زلزلہ یاد آ گیا۔ اس وقت ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اس طرح کے سانحے یا قدرتی آفات کے پیش نظر ایک بیگ ہمیشہ دروازے کے پاس رکھیں گے اور اگر اللہ نے زندگی رکھی ہوئی تو ہم اس بیگ سمیت گھر سے نکل جائیں گے۔ جس خطے میں ہم رہتے ہیں‘ وہاں زلزلے‘ سیلاب اور سخت طوفانی بارشیں معمول کا حصہ ہیں اس لئے ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ جس وقت زلزلہ آئے تو کوشش کریں کہ عمارت سے باہر نکل جائیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو سر کو چوٹ سے بچانے کیلئے سیڑھیوں یا میز کی آڑ لے لیں۔ جیسے ہی زلزلے کی شدت کم ہو‘ باہر کھلی جگہ پر نکل جائیں اور زلزلے کے بعد بھی کچھ وقت باہر ہی رہیں کیونکہ زلزلے کی شدت اور گہرائی کا کچھ پتا نہیں ہوتا اس لئے عمارت سے نکل جانے میں ہی بہتری ہے۔ میں اس موضوع پر‘ کہ زلزلے کے دوران کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں‘ پہلے بھی ایک آرٹیکل لکھ چکی ہوں۔ اسی طرح بارش‘ سیلاب اور شدید گرمی کی صورت میں کیا کرنا چاہئے‘ اس پر بھی تفصیلی طور پر لکھ چکی ہوں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی تدابیر اور ذرا سے احتیاط سے ہم قیمتی جانیں بچا سکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں